تحریر: محمد قاسم ٹانڈوی
مگر بڑے ہی افسوس کے ساتھ یہ لکھنا پڑ رہا ہے اور یقین جانئے اس مضمون کو تحریر کرتے ہوئے جس طرح انگلیوں میں رعشہ اور کپکپاہٹ جاری تھی، اس سے قبل اب تک سینکڑوں مضامین لکھے اور ہر موضوع پر زور آزمائی کی؛ مگر بوقت تحریر کبھی بھی ایسا نہیں ہوا، جیسا کہ اس مضمون کو تحریر کرنے میں ہوا۔ اور نہ ہی اس عنوان پر لکھنے کا کوئی خاص ارادہ تھا؛ مگر ایک تو بعض ناعاقبت اندیش ذمہ داران مدارس و مکاتب کا اپنے خدام کے ساتھ غیر انسانی اقدار پر مبنی سلوک و رویہ اس تحریر کا سبب بنا، دوسرے بعض مدارس والوں نے ذاتی طور پر مالکانہ حقوق (مانند دوکان و مکان) حاصل کرنے کے بعد ان کے مزاج میں بلا کی انانیت پائی جانے لگی ہے اور حکمرانی کا رعب و دبدبہ، شخصی طور پر مدرسہ قائم کرنے کے بعد خود مختاری اور مکمل طور پر سیاہ و سفید کے تن تنہا مالک بن جانے کا نشہ ان کی فطرت میں سرایت کر گیا ہے ایسے میں نشہ میں مدہوش ان کی طبیعت نہ تو کسی ذی علم و استعداد اور ماہرین فن و صاحب کمال کو اپنی نگاہوں میں بلند ہوتے دیکھنا پسند کرتی ہے اور نہ ہی ان کے علمی مرتبہ کو جانچا آنکا جاتا ہے بلکہ بہت سے مغرور و متکبر صدور و نظماء کا حال کیا پوچھنا کہ آئے دن اپنے اساتذہ و ملازمین کو بےحیثیت اور کم مقام گردانتے ہوئے کسی نہ کسی بہانے ان کی توہین و تذلیل کی جاتی ہے، بہانے تلاش کر ان کو ملازمت سے سبکدوش کیا جاتا ہے، معمولی اور قابل معاف امر پر بھی ان کو آناً فاناً مدرسہ سے باہر کا راستہ دکھا دیا جاتا ہے۔ ہاں اگر کوئی ضمیر فروش ہو جو ان ظالم مہتمموں کے ہاتھوں اپنا ضمیر گروی رکھ کر سیاہ و سفید کی تمیز کئے بغیر ان کی ہاں میں ہاں ملاتا رہے، ان کے کہنے سے رات کو صبح اور اندھیرے کو روشنی بھی کہنا پڑے تو یہ الگ بات ہے اور وہ چند سال یا مدت دراز تک ان کے یہاں ان کی ماتحتی میں زندگی گزار سکتا ہے۔ ورنہ تو آج کے یہ ذمہ داران مدارس نہ تو کسی قابل اشکال معاملہ پر کسی طرح کی انگشت نمائی کو برداشت کرتے ہیں اور نہ ہی روک ٹوک کرنے کو پسند کرتے ہیں۔ چنانچہ اگر کوئی علم و عمل یا اصول و ضوابط کا پابند شخص ان کی من مرضی کے خلاف کام کر دے یا شرعی نکتہ کا اظہار خیال کر دے تو پھر اسے یہ بات ذہن نشیں رکھنی ہوتی ہےکہ:
"اوقات صبح میں پڑھانے والا شام کو پڑھانے کا منتظر نہ رہے اور شام کو مدرسہ میں قیام کرنے والا صبح کی ڈیوٹی انجام دینے کا خیال نہ رکھے”۔ اور ایسا اس لئے ہوتا ہےکہ یہ حضرات کسی بھی قسم کی آواز اپنے خلاف اٹھتے یا بلند ہوتے پسند نہیں کرتے۔
واضح رہے یہ تمام صورت حال نہ تو ہمارے تمام دینی مدارس کی ہے اور نہ ہی تمام مہتمم و ناظم اس مرض ناگہانی اور خود سری میں مبتلا ہیں بلکہ بہت سے ایسے حضرات بھی موجود ہیں جو نرم دل، مہربان خو اور علم و معرفت کے حامل حضرات ہیں جو اپنا پیٹ کاٹ کر پہلے ملازمین کی ضروریات کی تکمیل کرتے ہیں اور اپنے بچوں کی تکلیف سے زیادہ اساتذہ کے بچوں کے دکھ درد کو نہ صرف محسوس کرتے ہیں بلکہ ہرممکن اعانت کر مداوا بھی کرتے ہیں، اور ان کو اس برے وقت سے فارغ ہونے میں جو بھی تعاون کی ضرورت ہوتی ہے اسے اپنی وسعت ظرفی کے مطابق پیش بھی کرتے ہیں، مگر ہمدردی و خیرخواہی اور انسانی اقدار پر مبنی یہ صورت حال انہیں مدارس کے ساتھ خاص ہے جو مدارس ایک تو اعلیٰ پیمانے کے ہیں، جن کے نظم و نسق کےلئے باقاعدہ شوری، کمیٹی یا سرگرم و متحرک انتظامیہ موجود ہو جو کسی بھی ناگہانی سے نمٹنے اور پیش آمدہ معاملے پر فیصلہ لینے کی مجاز ہو اور یہ کمیٹی یا شوری موجودہ مہتمم و ناظم کو معزول و بحال کرنے کی بھی اہلیت و پاور رکھتی ہو۔ اور ہمارا یہ ماننا ہےکہ اس طرح کے مدارس کسی علاقے میں وہ بھی بہت خال خال ہیں، ورنہ مدارس کی اکثریت اس کے برخلاف ہی نظر آتی ہے، خاص طور پر بہار، یوپی، دہلی اور اطراف دہلی میں تو ایسے خود رو مدارس و مکاتب کا مکمل ایک جال پھیلا ہوا ہے، جن کا مقصد فروغ اسلام یا خدمت دین کے نام پر عوام و خواص کا مالی استحصال کرنا، علاقے اور خطے میں اپنی ڈھاک جما کر لوگوں کو مرعوب و متآثر کرنا اور اس سے بھی آگے کی بات کروں تو اشاعت دین کے نام پر اپنی دنیا بنا سنوار کر اپنے ہی ہاتھوں اپنی آخرت کو تباہ و برباد کرنا ہے۔
واضح رہے کہ: یہ باتیں لکھ کر مدارس و مکاتب کی عیب جوئی کرنا یا ذمہ داروں کی کمی زیادتی پر گرفت اور نکیر کرنا ہمارا مقصد نہیں ہے اور نہ ہی ہم ایسے مسئلوں میں الجھ کر اپنا اور دوسرے کا وقت برباد کرنا چاہتے ہیں۔ اس لئے کہ مدارس کے اندرونی حالات و معمولات بہت پہلے ہی آشکار ہو گئے ہیں اور بارہا مدارس و مکاتب کے تعلق سے مالی غبن، حساب و کتاب کی عدم شفافیت اور اساتذہ و طلبہ کے ساتھ نازیبا اور غیر انسانی سلوک سے پیش آنے کی خبریں بکثرت اخبار کی زینت بنتی رہتی ہیں اور عوام کو بدظن کرنے کےلئے وہی سب کافی ہیں۔ ہمارا مقصد تو یہاں اس درد کو بیان کرنا ہے جسے ہمارے کئی سارے احباب نے فون کر اطلاع دی اور بڑے
ہی غمگین اور شکستہ لہجے میں کہاکہ:
ہی غمگین اور شکستہ لہجے میں کہاکہ:
"ہمارے مہتمم صاحب نے تو ‘لاک ڈاؤن’ کی وجہ سے ہمارا تین مہینے کےلئے استعفی کر دیا ہے؟ یا ہمارے ناظم اعلی نے تو آواخر مارچ سے تا ‘لاک بندی’ کسی بھی طرح کا مشاہرہ اور وظیفہ دینے سے انکار کر دیا ہے، اسی طرح جن مدارس میں اساتذہ و ملازمین کی تنخواہیں کسی وجہ سے موقوف تھیں پیش نظر حالات کے انہیں تنخواہیں نہیں دی جا رہی ہیں بلکہ بہت سی جگہوں سے تو یہاں تک کی خبریں ہیں کہ امسال رمضان المبارک میں چندہ کی وصولیابی نہ ہونے کی وجہ سے آئندہ تعلیمی سال کے آغاز تک یا تو از خود اپنا انتظام رکھیں یا حکم ثانی کا انتظار کریں؛ وغیرہ جیسی خبریں موصول ہوئی ہیں۔
جبکہ ہر ذی شعور اور حساس فکر شخص اس بات سے بخوبی واقف ہوگا کہ ہمارے ان مدارس و مکاتب میں مقرر خادمین کا ماہانہ مشاہرہ یا وظیفہ ہوتا ہی کیا ہے؟ بمشکل پانچ سے سات ہزار کے درمیان، اسے بھی اپنے بل بوتے اور محنت و جفاکشی کے ساتھ پہلے قوم سے وصول کرکے ان مہتمم و ناظم حضرات کے ہاتھوں پر لا کر رکھیں، اس کے بعد بوقت ضرورت ان کے سامنے گڑ گڑانا اور اپنی مجبوری اور بےبسی کا اظہار اور منت و سماجت کر ضروریات کی تکمیل کےلئے کھری کھوٹی سننا، حقارت آمیز لب و لہجہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اگر خدانخواستہ کوئی ضرورت شدیدہ کے پیش آنے پر کبھی کچھ زائد پیسوں کا تقاضا اور مطالبہ رکھ دے تو پھر ایران و تران کی سنا کر ذلیل و رسوا کرنا ان کا محبوب و پسندیدہ مشغلہ ہے۔
جبکہ یہی وہ ملازمین و مدرسین ہوتے ہیں جو اپنے ان مدارس و مکاتب کی ضروریات کی خاطر دور دراز کا سفر طے کر اہل ثروت و مالداروں سے رقم کی وصولیابی کرکے لاتے ہیں اور دوران اعلان جب وہ اس بات کو زبان سے دہراتے ہیں کہ "مدارس اسلام کے قلعے اور ان کے خدام اس قلعہ کے محافظ فوجی ہیں” تو یقینا ان کا دل اور ان کا ضمیر اس دعوی کی تردید پر ان کو آمادہ کرتے ہوں گے اور ان کی حرکتوں پر لعنت و ملامت بھی کرتے ہوں گے؟کیونکہ یہ وہی بداخلاق و بدمزاج لوگوں کا ٹولہ ہے جو پورے سال قرآن و حدیث کی خدمت کرنے والوں کا خون چوسنے میں کمی نہیں کرتے اور پیش آمدہ ضروریات کو سنی ان سنی کر اپنے اور اپنے بچوں کےلئے "نار جہنم” کا انتظام کرتے ہیں۔
اس لئے موجود حالات کی سنگینی اور نزاکت کو بھانپتے ہوئے جہاں ہر انسان کی یہ ذمہ داری بنتی ہےکہ وہ اپنے اپنے مظالم کو پیش نظر رکھے، جانے انجانے میں کی جانے والی حق تلفی کا اعادہ اور آئندہ کےلئے کثرت سے توبہ و استغفار کرے اور اب تک جس روش پر ہم رہے، اس روش کے خد و خال اور تمام نشیب و فراز پر نظر ثانی کر عہد جدید کے ساتھ زندگی گزارنے کا عزم مصمم کریں، غلطی کسی سے بھی سرزد ہو سکتی ہے، کمی بیشی اور ظلم و زیادتی خواہ کسی کے ساتھ برتی گئی ہو، جانی مالی نقصان اور استحصال جس شکل میں بھی کسی کو پہنچایا ہو اس کی ادائیگی کی فکر و سعی کی جائے، اور مکمل طور پر اپنے آپ کو اپنے اللہ کے حوالے کر اس نورانی اور مبارک و مسعود مہینے میں پروردگار عالم سے حالات میں تبدیلی پیدا کرنے کی دعا و مناجات کی جائے، ورنہ تو پھر حالات و قرائن جن ایام مصیبت کی پیش گوئی اور انسانیت کی تباہ و بربادی کی نشاندہی کر رہے ہیں، انفرادی اور اجتماعی طور پر ان کا سامنا کرنے اور کھلی آنکھوں سے ان کی منظر کشی کےلئے خود کو تیار رکھنا ہوگا، اس لئے ابھی وقت فرصت اور غنیمت کے لمحات میسر ہیں تو پھر ہمارا تعلق جس شعبے سے بھی وابستہ ہو یا ہم جس لا ئن سے مربوط و منسلک ہوں وہاں اپنے ماتحتوں اور مالی کمزوری کے شکار لوگوں کی خدمت اولین مرحلے میں انجام دینے کو اپنا شعار و اصول بنائیں۔
یاد رکھئے ! یہ جو آج پوری دنیا کے سامنے بھیانک حالات منھ کھولےمکھڑے ہیں، وہ کسی ایک فرد کی غلطی، علاقۂ مخصوص کے لوگوں کی نارفرمانی، یا کسی ملی جماعت اور ادارے میں ہونے والی دھاندلی کا صرف خمیازہ اور نتیجہ نہیں بلکہ یہ ملک در ملک لوگوں کی خود ساختہ ہٹ دھرمی اور اپنی پرانی روش پر قائم رہنا، طاقتور کا اپنے سے کمزور کو دبانا اور سامان زیست سے اسے محروم کرنا، معاشرہ کے خواص کا عوام پر ناقابل برداشت بوجھ ڈال کر انہیں معاشی اعتبار سے مزید کمزور کرنا اور ہر طبقے و جماعت کے ماننے والوں میں ایسے افراد کا پایا جانا جو ہر قسم کے گناہوں سے موسم اور فضا کو مسموم کر رہے ہوں؛ وغیرہ وغیرہ، مگر ان کے سربرآوردہ لوگ ان پر کسی طرح کی نکیر و گرفت سے کام نہ لیتے ہوں، نیز حالات کے بگاڑنے میں ان تمام امور گناہ کا ارتکاب کرنا شامل ہے جس کی وجہ سے آج پوری دنیا اور دنیا میں کئے گئے ظلم و ستم کی خون آشام تاریخ مرتب کرنے والوں نے اس بات کا خلاصہ کیا ہے کہ یہ سب حالات دراصل ناانصافی اور پروردرگار عالم کے احکامات کی صریح خلاف ورزی اور حکم عدولی کے نتیجے میں پیش آئے ہیں اور یہ صورت حال جوں کی توں برقرار رہےگی تا آنکہ لوگ اپنی تمام تر نازیبا حرکات و سکنات سےباز آ جائیں اور دوسرے ہر ایک اپنی کمی کوتاہی کو تلاش کر اس سے اجتناب کلی کرنے والا نہ ہو جائے؟
آج معمولی جرثومے سے پریشان بےبس دنیا کی مجموعی صورت حال ترجمانی اور عکاسی کر رہی ہے کہ ہرفرد، ہر ملک اور ہر ذی حس معاشرے کے سہیم و شریک افراد کی طرف سے کی جانے والی کمی زیادتی اور منکر پر خاموشی اختیار کرنے کے جر
م کے ساتھ دعوت فکر و عمل کی تلقین پوشیدہ ہے ان حالات میں کہ ہر شخص اپنے گریبان کی جیب سے جھانکے اور جو بھی کمی بیشی کا مادہ اس کی طبیعت میں پایا جاتا ہو اسے نکال باہر کر اپنے قلب و ذہن کو گناہوں کی گندگی سے مجلیٰ و مصفیٰ کر خود کو حقیقی معنی "انسانی قالب” میں ڈھالے۔
وہ تمام ذمہ داران مدارس و مکاتب جو کسی بھی اعتبار سے اپنے ملازمین و مدرسین کو تنگی اور سختی میں رکھنے کے عادی ہیں وہ بھی بڑے پیمانے پر ازسر نو غور و فکر کریں اور اس پہلو کو ہرگز نظر انداز نہ کریں کہ ابھی تو خواص کے ہاتھوں خواص کے قتل کی نوبت آئی ہے (مظفرنگر ضلع کے مہتمم کا اسی کے دو اساتذہ کے ہاتھوں بےرحمی سے شہید کیا جانا) اگر ہم نے اپنے مزاج میں تبدیلی نہ کی اور وہی ڈھیٹ پن اور ہٹ دھرمی والی روش پر برقرار رہے تو پھر معاملہ اس سے کہیں زیادہ آگے بڑھےگا اور اس کے ذمہ دار ہم خود ہوں گے۔ اس لئے خدارا نوشتۂ دیوار پڑھنے میں کسی طرح کی تاخیر اور کوتاہی سے کام نہ لیجئے اور جہاں تک ہو سکے اپنے مدرسین و ملازمین کی دلجوئی، ہمت افزائی اور پریشانی کو دور کرنے والے کام کیجئے، اسی میں پورے اسلامی معاشرے کا تشخص برقرار ہے، اسی میں قوم و ملت کی ترقی کا راز پنہاں ہے اور اسی میں ہم سب کی دائمی زندگی کی کامیابی کا انحصار ہے۔