زبان کی تباہ کاریاں

تحریر: محمد ایوب مصباحی
جھوٹ ہی میں سے اپنے باپ کے علاوہ سے نسب کا دعوی کرنا ہے جیسے یہ دعوی کرنا کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد سے ہے لیکن نفس الامر وہ کسی اور کی اولاد ہے –
      صحیح بخاری و مسلم میں حضرتِ سعد بن ابی وقاص سے مروی ہے ، بیان کرتے ہیں: کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اپنے باپ کے علاوہ کی طرف نسب کا دعوی کرے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ اس کا باپ نہیں ہے تو اس پر جنت حرام ہے“-                     توضیح: مطلب یہ ہے کہ دخولِ اوّلی اس کے لیے ممنوع ہے، یا یہ از راہِ زجرو توبیخ ہے یا جھوٹ کی سزا پانے سے پہلے اس کا جنت میں داخلہ حرام ہے یا ہمیشہ جنت میں داخل ہونا حرام ہے بشرطیکہ غیر کی طرف نسب بیان کرنے کو حلال سمجھتا ہو اس لیے کہ اس حلال کو حرام سمجھنا جس میں مجتہدین کی تاویلات کی راہ نہ نکلتی ہو کفر ہے یا پھر اس پر کوٸی مخصوص جنت حرام ہے جیسے جنت عدن وغیرہ-
      صحیح ابنِ حبان میں حضرتِ عبد اللہ ابن عباس سے روایت ہے ،کہ” نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو غیرِ باپ سے نسب کا دعوی کرے یا غیر ولی کو اپنا سرپرست بناۓ تو اس پر اللہ تعالی، فرشتے اور اور تمام انسانوں کی لعنت ہے“-وضاحت: یعنی اللہ تعالی اسے ابرار و نیکوکار کی فہرست سےنکال دے گا ناکہ یہ کہ معاف بھی نہ فرماۓ- اس وعیدِشدید سے یہ بات مستفاد ہوتی ہے کہ غیرِ باپ کو اپنا باپ بنانا گناہِ کبیرہ ہے- 
     بخاری و مسلم میں حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے ، کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو فرماتے ہوۓ سنا : کہ ” جو اپنے باپ کے علاوہ سے نسب کا دعوی کرے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ اس کا باپ نہیں ہے تو اس نے کفر کیا “ اگر حلال سمجھتاہو یا کفرانِ نعمت یعنی ناشکری کی، واضح رہے کہ غیر باپ کو اپنا باپ ہونے کا دعوی کرنا حرام اس وقت ہے جب کہ وہ حقیقی باپ ہونے کا دعوی کرے یعنی یہ دعوی کرے کہ وہ اس کے نطفے سے پیدا ہے ورنہ مجازی باپ کے إدّعا  میں کوٸی قباحت نہیں کہ وہ تو از راہِ شفقت ہوتا ہے-اس روایت میں آگے فرمایا: ”اورجو ایسی چیز کا دعوی کرے جو واقعتًا اس کی نہیں ہے تو وہ ہم میں سے نہیں“ یعنی ہمارے طریقے پر نھیں ، ایک قول یہ ہے کہ ان میں سے نہیں جنھوں نے ہماری شریعت پرعمل کیا اور ہماری شفاعت کے مستحق ہوۓ- اسی روایت میں اس کے بعد فرمایا:”اور وہ اپنا ٹھکانا جہنم کو بناۓ،اور جس نے بھی کسی شخص کو کفر سے پکارا یا کہا: اے اللہ کے دشمن! حلانکہ وہ ایسا ہے نھیں تو یہ کہنے والے پر ہی پلٹ جاتا ہے“-
      کسی کو ”یا کافر“!یا”یاعدواللہ“ کہنے والے کےبارے میں فقہاۓ کرام کے اقوال
     اگر کسی نے اپنے مدِّمقابل کو ”اے کافر!“ یا”اے اللہ کے دشمن!“ کہا حلانکہ وہ کافریا اللہ کادشمن نھیں ہے تو ایک قول کے مطابق قاٸل کی تکفیر کی جاۓگی لیکن علماۓ جمہور اس کے خلاف ہیں ، وہ فرماتے ہیں :کہ ایسا کہنے والے کی تعزیر کی جاۓ گی- احیا ٕ العلوم میں ہے کہ” حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر قاٸل جس کے بارے میں یہ الفاظ کہ رہاہے جانتا ہے کہ وہ مسلمان ہے تو اس کہنے والے کی تکفیر کی جاۓ گی- کتاب ”الروضہ“ کے تتمہ میں ہے،”جس نے مسلمان کو کہا ”اے کافر!“ اور وہ اس کی تاویل کفرانِ نعمت سے نہ کرتاہو تو کہنے والا کافر ہے ورنہ نھیں، بزازیہ میں ہے کہ ”مذھبِ مختاراور مفتی بہ یہ ہے اگرکسی مسلمان کو  ”اے کافر“ جیسے الفاظ کہنےسے قاٸل کا مقصود گالی دینا ہو تو قاٸل کی تکفیر نھیں کی جاۓ گی  اور اگر اس کا مقصود اسے کافر ہی سمجھنا ہو تو اب قاٸل کی تکفیر کی جاۓ گی- 
      جھوٹ کی ایک قسم خواب گڑھنا ہے 
     صحیح بخاری میں حضرتِ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنھماسے روایت ہے،کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جس نے کوٸی ایسا خواب گڑھا جو اس نے نھیں دیکھاتو اسے یہ تکلیف دی جاۓ گی کہ دوجو کے دانوں میں گرہ لگاۓ حالانکہ وہ ایسا ہرگز نھیں کرسکتا“-
 ایک شبہ کا ازالہ
    بعض حضرات نے اس حدیث سے تکلیفِ مالایطاق کے جواز پر استدلال کیاہے جو درست نھیں،اس لیے کہ تکلیفِ مالایطاق کا تعلق دنیا سےہےاور حدیث شریف میں جو وعید ارشاد ہوٸی وہ آخرت سے متعلق ہے-
     حضرتِ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے،کہ”خواب اللہ تعالی کی طرف سے مسلمانوں کے لیے بشارت ہے یا شیطان کی طرف سے وسوسہ ہےتو وہ اس کے ذریعہ انھیں غمزدہ کردیتا ہے یا بری خوابیں ہیں“- 
    حضرتِ امام جعفر صادق رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں:کہ خواب تین طرح کے ہوتے ہیں ١/محکم، ٢/متشابہ،٣/اضغاث؛ محکم خواب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کا مقدر جو لوحِ محفوظ میں لکھا ہے فرشتہ اسے وہاں سے اخذ کرکے خواب میں دکھادیتا ہے، اس میں بندے کو امرِ دنیاوی یا مسلما

ن کو نصیحت یا روزِ جزا کافر پر حجت قاٸم کرنے کی خوشخبری ہوتی ہے، یا پھر مسلمان کو معصیت کے قریب ہونے یا ترکِ اطاعت کے باعث ڈرانا دھمکانا ہوتا ہے،یا پھر اطاعت وفرماں برداری کی طرف ابھارنے والی چیز جیسے حج،نمازِ تہجد،صدقہ وخیرات اور گناہوں سے توبہ وغیرہ کا الہام ہوتاہے؛اضغاث وہ خواب ہوتا جو ایسا انسان دیکھے جس کی طبیعت میں فسادہو یا جس نے بھاری غذا تناول کی ہو یا پھر ابھی نابالغ ہو؛ خواب کی تیسری اورآخری قسم متشابہ ہے یہ وہی ہے جسے حدیث شریف میں شیطان کے وسوسے سے تعبیر کیا گیا اور یہی جھوٹا خواب ہوتا ہے اور یہ یا بایں طور ہوتا ہے کہ انسان نے حالتِ بیداری میں کسی چیز میں تفکرو تدبر کیا یا اسےبہت اہتمام کےساتھ کیا پھر بعینہ اسے ہی نیند میں دیکھ لیا یا پھر خوفناک اشیا ٕ خواب میں دیکھیں اور حالت یہ ہے کہ سخت بیمارہے –

     اس تمہید کے بعد سمجھیے کہ جو سچا خواب ہوتاہے جس کو ”بشارت “کہا گیا اور امام جعفر صادق علیہ الرحمہ نے محکم کہا یہ نبوت کا حصہ ہے اور یہ اقل الوجود ہے اور جو ”اضغاث“و”متشابہ“ ہیں یہ سب جھوٹے خواب ہوتے ہیں اور غالبًا ان کے جھوٹا ہونے کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ انسان انھیں ہوبہو نھیں بیان کرپاتا بلکہ کچھ نہ کچھ حزف و اضافہ ضرور ہوجاتاہے-
     جھوٹ کی ایک قسم”وعدہ خلافی“ہے بشرطیکہ اس کی نیت میں وعدہ خلافی ہو لیکن اگر اس کی نیت میں وفاداری ہو اور وعدہ پورا کرنے پر قادر نہ ہو تو یہ جھوٹ نھیں ہے حدیث شریف میں ہے ”العدة دَین“ کہ وعدہ قرض ہے-
    جھوٹ ہی کی ایک قسم ”ہر سنی بات بیان کردینا“ہے-
      مسلم شریف میں حضرتِ ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے،کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کہ”انسان کے جھوٹا ہونے کے لیے اتناہی کافی ہے کہ وہ ہرسنی ہوٸی بات کو بیان کردے“-
                جھوٹ کب بولنا جاٸز ہے؟
   جھوٹ بولنا تین مقام پر جاٸز ہے – ایک بیوی سے اسے راضی کرنے کے لیے،دوسرے جنگ میں تیسرے دو مسلمانوں میں صلح کرانے کے لیے- جامع ترمذی میں حضرتِ اسما ٕ بنتِ یزید سےروایت ہے،کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جھوٹ بولنا حلال نھیں مگر تین شخصوں کے لیے،ایک جس نے اپنی بیوی سے جھوٹ بولا تاکہ اسے راضی کرے دوسرا وہ جس نے جنگ میں جھوٹ بولا اس لیے کہ جنگ دھوکے کا نام ہے اور تیسرا وہ شخص جس نے دو مسلمانوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے جھوٹ بولا“-
                     دفعِ تعارض
      شرحِ مسلم میں امام نووی نے فرمایا:کہ خاوند کا زوجہ سے اور بیوی کا شوہر سے جھوٹ بولنا حرام ہے تو شاید ان کی مراد یہ ہے کہ اگر بلا وجہ ہو اور ایک دوسرے کو راضی کرنے کے لیے نہ ہو-
     واضح رہے کہ یہ دروازہ صرف بقدرِ ضرورت کھولا جاۓ تاکہ نفس اس کا عادی نہ ہوجاۓ نیز اس میں بہت زیادہ دھوکا ہے اس لیے کہ جھوٹ بولنا اس وقت جاٸز ہے جب جھوٹ سچ سے زیادہ اہم ہو اور یہ پتا لگانا کافی مشکل ہے تو احتیاط جھوٹ نہ بولنے میں ہی ہے، بعض لوگوں نے یھیں سے اخذ کرکے کہا: کہ ترغیب و ترہیب میں موضوع روایات پیش کرنا جاٸز ہے حالانکہ وہ یہ بھول گیے کہ حدیث گڑھنا نبی پر جھوٹ باندھنا ہے جوکہ شنیع تر، قبیح ترین اکبر الکباٸر گناہ ہے پھر جھوٹ کے جواز کا ضابطہ یہ ہے کذب صدق سے زیادہ اہم ہو حلانکہ یہاں صدق زیادہ اہم ہے اس لیے کہ اگر نبی کی صداقت مسلوب ہوگٸی تو پھر تبلیغ و شریعت کس پر اثر انداز ہوگی-
     دلالة النص کے ذریعہ ظالم کے ظلم کے دفاع کو اور”احیاۓدین“ کو بھی انھیں تینوں مقام کے ساتھ لاحق کردیا گیا ہے، مثلا وہ شخص جس نے کسی مسلمان کو یا اس کے مال کو ظالم سے اس کے ظلم کی وجہ سے چھپالیا پھر ظالم نےاس سے مسلمان کے بارے میں پوچھ لیا تو اس پر واجب ہے کہ جھوٹ بول کر اسے چھپاۓ اور اس کی بہت سی نظیریں ہیں 
     ”ریاض الصالحین“ میں امام نووی سے منقول ہے کہ” ہر ایسا مقصود جس کے حصول پر شرع کی تعریف ہو اگر اس کا حصول جھوٹ کے بغیر ممکن ہو تو جھوٹ نہ بولے ورنہ جھوٹ بول کر اسے حاصل کرے پھر اگر وہ مقصود مباح ہو توجھوٹ بولنا مباح ہے  اور اگر واجب ہو تو واجب ہے اور اس کی تاٸید اس فقہی ضابطے سے بھی ہوتی ہے ”للوساٸل حکم المقاصد“ وساٸل کے لیے مقاصد کا حکم ہے، لیکن اس پر یہ اشکال وارد ہوتا ہے کہ کتبِ اصولِ فقہ میں ہے ”در ٕ المفاسد اولی من جلب المنافع“فسادات ختم کرنا فواٸد کے حصول سے زیادہ بہتر ہے، نیز”لایتحمل الضرر القوی الکل للوصلة إلی النفع الجزٸی“جزٸی نفع کی خاطر ضررِ قوی کلی کو برداشت نھیں کیا جاۓ گا، نیز ”ترجح المفسدة القویة علی الضعیفة عند تعارضھما“ تعارض کے وقت قوی فساد کو ضعیف پر ترجیح ہوگی؛اس لیے کہ مقصود کے عدمِ حصول کا ضرر خصوصًاجبکہ مقصود مباح ہو قابلِ شمار ضرر نھیں ہے حالانکہ جھوٹ گناہِ کبیرہ اور لاٸقِ شمار خسارہ ہے –
      ”ریاض الصالحین“میں کہ ”جھوٹا نھیں ہے جو لوگوں کے درمیان اصلاح کرے“ لیکن اس کے معارض ہے یہ روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ جھوٹے کو جہنم میں لوہے کے زنبور سے عذاب دیا جارہا ہے لیکن دفعِ تعارض میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس سےماقبل کی روایت عام مخصوص منہ البعض کی قبیل سے ہے
     حدیث شریف میں ہے، ”جھوٹ پورے کا پورا گناہ ہےسواۓ اس کے جس سے کسی مسلمان کو نفع دیا جاۓیا اس کے ذریعے دین کا دفاع کیا جاۓ“-
      جھوٹ کی بابت علما کی راۓ
مناوی نے کہا:جھوٹ سب سے زیادہ نقصاندہ اور سچ سب سے زیادہ نفع بخش چیز ہے، کذب کی قباحت مشہور ہے اور کسی مصلحت کے بغیر اس کی حرمت پر علما کا اجماع ہے-
     امامِ غزالی نے فرمایا:یہ کبیرہ گناہوں کی جڑ ہے، جب انسان جھوٹ سے متعارف ہوجاتاہےتو اس کی بات سے لوگوں کا اعتماد اٹھ جاتا ہے،نظروں میں گرجاتاہے اور دلوں میں حقیر ہوجاتا ہے-
    امام راغب اصفہانی نے فرمایا:جھوٹ لازمی ندامت اور داٸمی ذلت ہے لہذا ادنی کذب کی بھی رخصت نھیں دی جاسکتی-
    بعض حکما نے کہا:توبہ کے ذریعے ہر گناہ کے ترک کی امید کی جاسکتی ہے سواۓ جھوٹ کے اس لیے کہ ہم نے بہت سے شرابیوں اور چوروں کو دیکھا کہ وہ اپنی حرکتوں سے باز آگٸے لیکن کسی جھوٹےکو جھوٹ سے باز آتے نھیں دیکھا؛
     کذبِ مباح کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ جب بچہ دینی تعلیم ومدرسے سے اعراض کرےتو اس سے جھوٹا وعدہ ووعید کیاجاسکتاہے-
     کذبِ مباح سے یہ بھی ہے کہ دوسرے کا راز فاش کرنے سے انکار کردینا-
     اور اسی سے اپنے گناہ کے اظہار کا انکار ہے، اس لیے کہ اظہارِ معصیت خود مستقل ایک گناہ ہے-
    صدق وکذب کی اہمیت پر اصلِ کلی
     زیادہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس دروازے کو بقدرِ ضرورت ہی کھولا جاۓ تاکہ لوگ اس کے عادی نہ ہوجاٸیں نہز اس میں بہت دھوکہ ہے اس لیے کہ کبھی کبھی جھوٹ پر ابھارنے والی چیز اس کا مقصد ہوتی ہے تو اسے یہ جاننا چاہیے کیا شریعت میں اس کا مقصد صدق سے زیادہ اہم ہے یا نھیں؟ تو یہ ایک کا دوسرے سے موازنہ کرے تو ان میں جو زیادہ اہم ہو اسے ہی ترجیح دے اور اگر دونوں مساوی ہوں تو صدق کی جانب ماٸل ہو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے