لفظوں کی اہمیت، تقاضے اور نقصانات !!

تحریر: غلام مصطفی نعیمی
زبان سے نکلنے والے الفاظ کسی بھی انسان کے عیب وہنر کا اظہاریہ ہوتے ہیں۔اس لیے لفظوں کے استعمال میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے، اچھے الفاظ جہاں انسان کی عزت و نیک نامی کا ذریعہ بنتے ہیں وہیں غلط استعمال سے شرمندگی اور نقصانات بھی اٹھانا پڑتے ہیں۔
زبان سے نکلنے والے الفاظ کی تاثیر ہی تھی کہ زمین پر رہنے والا عزازیل مقرب فرشتوں کا ساتھی بن بیٹھا اور اسی زبان سے نکلنے والے الفاظ کی نحوست کے باعث راندۂ درگاہ ہوکر شیطان لعین قرار پایا۔
الفاظ کی اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے نگرانی کے لیے محافظ مقرر فرمایا:
مَا یَلۡفِظُ مِنۡ  قَوۡلٍ اِلَّا لَدَیۡہِ رَقِیۡبٌ عَتِیۡدٌ ﴿سورہ ق:۱۸﴾
"کوئی بات وہ (انسان) زبان سے نہیں نکالتا کہ اس کے پاس ایک محافظ تیار نہ بیٹھا ہو۔”
الفاظ کے صحیح استعمال پر حضور اقدس ﷺ نے جنت کی ضمانت عطا فرمائی:
قال رسول اللہ ﷺ من يضمن لى ما بين لحييه ومابين رجليه اضمن له الجنة(رواه البخاري)
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
"جو شخص مجھے اپنے دو جبڑوں کے درمیان کی چیز (زبان) کی اور دونوں ٹانگوں کے درمیان کی چیز (شرمگاہ)کی ضمانت دے دے تو میں اس کے لیے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔”
زبان کی حفاظت اور استعمال کے تعلق سے یہ نبوی ہدایت بھی ذہن نشین رہے:
"أنزلوا الناس منازلهم”(رواه أبو داود في سننه)
"لوگوں کو ان کے مقام پر رکھا کرو”
یعنی بات چیت میں، یاد کرنے اور معاملات میں لوگوں کے مقام ومرتبے کا پاس ولحاظ بھی ضروری ہے ایسا نہ ہوکہ جس انداز میں عام شخص سے معاملہ یا تذکرہ کیا جاتا ہے اسی عامیانہ انداز و لہجے میں ہی خاص افراد کو بھی یاد کیا جائے؟
الفاظ کا اپنا ایک محل ہوتا ہے جو الفاظ دوست کے لیے بولے جاتے ہیں وہ بھائی کے لیے استعمال نہیں کر سکتے، جن لفظوں سے بچے کو پکارتے ہیں وہی الفاظ والد کے لیے استعمال کرنا منع ہے۔یعنی دنیوی رشتے اور تعلقات نبھانے میں مناسب الفاظ کا استعمال بے حد ضروری ہے ورنہ انسان بداخلاق اور بدزبان کہلائے گا !!
حضور ﷺ کی بارگاہ نبوت سب سے زیادہ محترم اور لائق تعظیم وتکریم ہے۔ آپ کی شان اقدس میں الفاظ کا محتاط استعمال بے حد ضروری ہے۔ دنیوی رشتوں میں لفظی بے احتیاطی سے انسان بداخلاق کہلاتا ہے لیکن بارگاہ رسالت میں لفظی بے احتیاطی اور نامناسب لہجہ سلب ایمان کا سبب بن سکتا ہے:
یٰۤاَیُّہَاالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَرۡفَعُوۡۤا اَصۡوَاتَکُمۡ فَوۡقَ صَوۡتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجۡہَرُوۡا لَہٗ بِالۡقَوۡلِ کَجَہۡرِ بَعۡضِکُمۡ لِبَعۡضٍ اَنۡ تَحۡبَطَ اَعۡمَالُکُمۡ وَاَنۡتُمۡ  لَا تَشۡعُرُوۡنَ﴿سورة الحجرات:۲﴾
"اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چِلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چِلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اَکارت نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔”
جن الفاظ کے ایک سے زیادہ مطلب ہوں اور کوئی ایک مطلب خراب ہو ایسے الفاظ بھی بارگاہ رسالت میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے:
یٰۤاَیُّہَاالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقُوۡلُوۡا رَاعِنَاوَ قُوۡلُوا انۡظُرۡنَا وَاسۡمَعُوۡا ؕ وَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿البقرة:104﴾
"اے ایمان والو! "راعنا” نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر، رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے۔”
لفظ "راعنا” لغت قریش میں درست تھا لیکن لغت یہود میں خلاف ادب ہونے کے باعث ناجائز قرار دے دیا گیا ساتھ ہی یہ تنبیہ بھی کردی گئی کہ حضور ﷺ کی گفتگو ہمہ تن گوش ہوکر سنو تاکہ دوبارہ پوچھنے کی نوبت ہی نہ آئے۔
جس نبی کی بارگاہ کی نزاکت کا یہ عالم ہو کہ اس کے آداب رب کائنات نے سکھائے اور بے ادبی پر عمل برباد کرنے کا انتباہ دیا اسی نبی رحمت ﷺ کی بارگاہ میں کچھ فکری بے لگاموں کا طرز تحریر ملاحظہ کریں اور سوچیں کہ تقسیم امت کے اسباب میں اسی گستاخانہ لب و لہجے کا ہاتھ تو نہیں ہے؟
حضور اقدس ﷺ کے پردہ فرمانے کو بیان کرتے ہوئے شاہ اسماعیل دہلوی نے لکھا ہے:
"ایک دن میں بھی مر کر مٹی میں مل جانے والا ہوں۔”(تقویۃ الایمان)
علم نبی ﷺ کا دیگر لوگوں میں اشتراک بیان کرتے ہوئے مولانا اشرف علی تھانوی نے لکھا ہے:
"آپ(ﷺ) کی ذات مقدسہ پر علم غیب کا حکم کیا جانا، اگر بقول زید صحیح ہو تو دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس غیب سے بعض غی

ب مراد ہے یا کل علم غیب؟اگر بعض علوم غیبیہ مراد ہیں تو اس میں حضور کی کیا تخصیص ہے، ایسا علم غیب تو زید وعمر بلکہ ہر صبی ومجنون (بچوں،پاگلوں) بلکہ جمیع حیوانات (جانوروں) کے لیے بھی حاصل ہے۔”(حفظ الایمان:15)

نماز پڑھتے ہوئے اپنا خیال کہیں اور نہ لگانے کو بیان کرتے اسماعیل دہلوی کی مثال ملاحظہ کریں:
"زنا کے وسوسے سے بیوی کی مجامعت (ہمبستری) کا خیال بہتر ہے۔اور شیخ یا انہیںجیسے بزرگوں خواہ جناب رسالت مآب ہی ہوں، اپنی ہمت یعنی اپنے خیال کو لگا دینا اپنے بیل اور گدھے کی صورت میں مستغرق ہونے یعنی ڈوب جانے سے برا ہے۔”(صراط مستقیم:95)
حضورﷺ کے وسعت علمی پر تنقید کرتے ہوئے مولانا رشید احمد گنگوہی نے لکھا ہے:
شیطان وملک الموت کو یہ وسعت (معلومات) نص (قرآن) سے ثابت ہوئی، فخر عالم(ﷺ) کی وسعت علمی کی کون سی نص قطعی ہے کہ جس سے تمام نصوص کو رد کرکے ایک شرک ثابت کرتا ہے۔”(براہین قاطعہ:47)
حضور ﷺ کے قبل اعلان نبوت پہاڑوں میں بغرض عبادت جانے کو بیان کرتے معروف ادیب مولانا صفی الرحمن مبارک پوری نے لکھا ہے:
"اس امت کا رسول ﷺ مکے کے پہاڑوں کے درمیان ٹھوکریں کھاتا پھر رہا ہے۔”(الرحیق المختوم:203)
قارئین کرام! 
مولانا اسماعیل دہلوی،مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا رشید احمد گنگوہی اور مولانا صفی الرحمن مبارک پوری جیسے افراد چَنے بُھوننے کی دکان میں کام نہیں کرتے تھے کہ ان کو جاہل سمجھ کر نظر انداز کر دیا جائے یہ سب اپنی اپنی جماعت کے سرکردہ علما میں شمار کیے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے بارگاہ رسالت میں ان لفظوں کا استعمال کیا جو ایک عام آدمی کے لیے بھی سراسر ذلت وتوہین ہیں۔
کیا حضورﷺ کے وصال کو "مر کر مٹی میں مل جانے” سے تعبیر کرنا عزت کی بات ہے؟
شیطان کے علم کو حضور کے علم سے زیادہ ماننا کون سا ایمان ہے؟
کسی وصف میں اشتراک کی بنا پر حضورﷺ کے علم کو پاگلوں اور حیوانوں سے تشبیہ دینا کہاں کی شرافت ہے؟
سرکار کی بے قراری کو "ٹھوکریں کھاتے پھرنا” قرار دینا کہاں کا ادب ہے؟
کیا دہلی، مظفرنگر،سہارن پور اور اعظم گڑھ کی اردو اس قدر محدود اور تنگ دامن تھی کہ ان لوگوں کو بارگاہ رسالت کے موافق الفاظ نہ مل سکے؟
اگر یہ لوگ الفاظ کے معاملے اس قدر محتاج تھے تو کسی صاحب ایمان سے کچھ الفاظ ادھار مانگ لیتے تاکہ دربار نبوی کی بے ادبی کے مجرم تو نہ بنتے !! 
جذبہ ایمانی کے ساتھ دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ لفظ "راعنا” لغت قریش میں اچھے معنی کے باوجود اس لیے منع کردیا گیا کہ دوسری زبان میں اس کے معنی خراب تھے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی محبت نے یہ بھی گوارا نہیں کیا کہ جو لفظ دوسری زبان میں خراب پہلو رکھتا ہو اسے میرے حبیب ﷺ کے لیے استعمال کیا جائے!
اب ان لفظوں کو پڑھیں جنہیں آج بھی کسی غیرت مند آدمی کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ان الفاظ کو بارگاہ رسالت میں استعمال کرنا کس قدر بدبختی اور شقاوت قلبی کی بات ہے۔
حضرت سعد بن معاذ نے جب اہل یہود کو "راعنا” کہتے سنا تھا تو فرط غضب میں فرمایا تھا:
"اے دشمنان خدا تم پر اللہ کی لعنت اب اگر میں نے کسی کی زبان سے یہ کلمہ سنا تو اس کی گردن مار دوں گا۔”(خزائن العرفان)
اکابرین وہابیہ و دیابنہ کے ایمان سوز الفاظ پڑھ کر یا سن کر مسلمانوں کے خون میں ابال آتا ہے تو اسے تشدد کا نام نہ دیا جائے بلکہ یہ کمال غیرت،نشان ایمان اور سنت سعد بن معاذ ہے !!
گذشتہ ڈیڑھ سو سال کی تاریخ کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تقسیم امت کے اسباب میں ایک اہم سبب یہ گستاخانہ الفاظ بھی ہیں۔جنہوں نے مسلمانان ہند کے مابین تفریق و تقسیم کی خلیج پیدا کی۔ عشاقان مصطفیٰ کی غیرت ایمانی کو تشدد کا نام دینے والے ہی سب سے بڑے متشدد اور ہٹ دھرم ہیں۔بے ادبی اور ہٹ دھرمی کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ایک طرف "اتحاد امت” کے دعوے، دوسری طرف بارگاہ رسالت میں گستاخانہ کتابوں اور افکار کی اشاعت، کیا اس طرح تقسیم کی خلیج کو پاٹا جاسکتا ہے ؟
امت مسلمہ کو اتحاد کی ضرورت ہے لیکن کیا "اتحاد امت” کی خاطر ایسی ایمان سوز کتابوں کے افکار و نظریات کی اشاعت کو بند نہیں کیا جاسکتا جن سے امت مسلمہ کے دل گھائل اور ٹکڑے ٹکڑے ہوتے ہیں۔
نبی رحمت ﷺ کا کلمہ پڑھنے والے ہر امتی کی ذمہ داری ہے کہ وہ گروہی تعصب سے اوپر اٹھ کر ناموس رسالت کی اہمیت کو سمجھے۔لفظوں کی اہمیت اور تقاضوں سے ناآشنا علما اور کتابوں سے دور رہے جن سے حضور اقدس ﷺ کی بے ادبی کا ذرا بھی پہلو نکلتا ہو۔
ہر اس عالم سے دور رہے جو بارگاہ رسالت میں گستاخانہ لب و لہجے کی تاویل کرتا ہو یہ کسی مسلک کی نہیں ایمان کی آواز ہے۔
آج کا خصوصی اداریہ مولانا غلام مصطفی نعیمی صاحب کی تحریر ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے