تحریر: محمد ہاشم القاسمی
خادم دارالعلوم پاڑا ضلع پرولیا مغربی بنگال
موبائل نمبر : 9933598528
وقف شرعی قانون کا ایک اہم حصہ اور مسلمانوں کی ملی زندگی کا ایک روشن باب ہے ۔ وقف کی جمع اوقاف اور وقوف آتی ہے ۔( القاموس المحیط،معجم مقاییس اللغہ) اوقاف کے عناصر اربعہ یہ ہیں (1) واقف، (2) موقوف علیھم، (3) وقف نامہ اور (4) متولی ہیں۔ اس کی نمبر وار تفصیل یہ ہے، واقف کی شرائط: واقف کا عاقل وبالغ ہونا، آزاد ہونا، تصرف کے وقت اس کے اس عمل کا نیکی اور ثواب نیت ہونا، مالک ہونا، محجور علیہ نہ ہو۔ شئی موقوف کی شرائط : مال متقوم ہونا، جلد خراب ہونے والی نہ ہو، عدم جہالت کا ہونا، مفرز ہونا، ورنہ ایک سال پیدوار ہوگا، ایک سال نہیں، ایک وقت نماز ہوگی دوسرے وقت نہیں۔ جن پر وقف کیا جارہا ہے ان کی شرطیں :۔رضائے خداوندی کا ذریعہ ہو، صرف مالدار کو وقف نہ کرنا، ورنہ چاپلوسی کا ذریعہ ہوگا۔ الفاظ وقف کی شرطیں :۔ الفاظ وقف معلق اور مشروط نہ ہو، موت سے مشروط نہ ہو، شرط خیار سے مشروط نہ ہو، ایسی شرط نہ ہو، جو وقف کی اصلیت پر اثر اندازہو، مثلا بیچ دے گا، ہدیہ کر دے گا، کہنے سے وقف نہیں ہوگا، وقف کے لیے ایسے الفاظ استعمال کیا جائے جس میں ہمیشگی کے معنی پائے جاتے ہوں۔ عربی لغت میں وقف کے مندرجہ ذیل متعدد معانی بیان کئے گئے ہیں ۔(1) حبس یعنی کسی چیز کو روکنا، قید کرنا. (2) المنع: منع کرنا. (3) التسبیل: یعنی اللہ کے راستہ میں خرچ کرنا. (4) السکون : یعنی ٹھہرنا ، اس کے علاوہ التعلیق و التاخیر وغیرہ کے معانی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ فقہ حنفی کے مشہور فقہاء صاحبین یعنی امام محمد اور امام یوسف رحمہم اللہ کے مطابق وقف کہتے ہیں :” کسی معین مال کی ملکیت کو اللہ تعالیٰ کے نام منتقل کر دینا اور اس سے حاصل شدہ فائدہ کو مسلمانوں کے خیر و بھلائی کے کاموں میں خرچ کردینا ” وقف کے حق تملیک کے سلسلے میں مختلف اقوال ہیں.
پہلا قول اللہ تعالی وقف کے مالک ہیں۔ دوسرا قول جن پر وقف کیا گیا ہو وہ مالک ہیں۔ تیسرا قول جس نے وقف کیا ہے وہی مالک ہے،اس قاعدہ سے سب کے یہاں مساجد مستثنی ہیں اور یہ متفقہ مسئلہ ہے کہ ایک آدمی نے بھی اس پر نماز پڑھ لی تو واقف کی ملکیت ختم ہو جائے گی۔ وقف کی تعریف کے تجزیہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے امام محمد اور امام یوسف رحمہم اللہ جو امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے شاگرد خاص بلکہ فقہ حنفی کے اہم ستون ہیں، ان کے مطابق وقف کرنے سے واقف کی ملکیت ختم ہو جاتی ہے اور ملکیت اللہ رب العالمین کے نام منتقل ہو جاتی ہے ۔ لہٰذا مال موقوف کو بیچنا، ہبہ کرنا، رہن یا گروی رکھنا اور میراث میں تقسیم کرنا بالکل نا جائز ہے ۔ وقف کے مسئلے میں فقہ حنفی کے اندر صاحبین کے قول کے مطابق عمل ہے اور یہی مفتی بہ قول بھی ہے۔ اوقاف کو وہی فضیلت حاصل ہے، جوصدقہ وغیرہ میں پائی جاتی ہیں مثلا اس کا ثواب دس گنا، سات سو گنا کا حاصل ہونا، واقف کے گناہوں کی معافی، مصیبتوں اور پریشانیوں کا موقوف ہونا، رضائےالہی کا ذریعہ ہونا۔ نیز اس میں صدقہ جاریہ کا ثواب بھی ملتا ہے. وقف انفاق فی سبیل اللہ ہونے کی وجہ سے صدقہ جاریہ میں شامل ہے۔ اور بعض صدقات مالک کی ملکیت سے منتقل ہو جاتے ہیں اور دوسرا شخص اس کا مالک ہو جاتا ہے، لیکن وقف ایسا صدقہ جاریہ ہے جو مالک کی ملکیت سے نکل جاتاہے، لیکن دوسرے کی ملک میں داخل نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ وہ اللہ کی ملکیت میں شمار ہوتا ہے۔ اور یہی اوقاف کی اہم خصوصیت۔ شعبہ اوقاف زندہ قوموں کے حساس قومی اور ملی جذبوں کا عکاس ادارہ کی حیثیت رکھتا ہے، وقف کے اس ادارہ سے معاشرے کے کمزور طبقے کو آب حیات ملتا ہے۔ ایک دور تھا جب انسان تو انسان ہے، جانوروں کے لیے بھی مسلمانوں کے ہاں متعدد اوقاف موجود تھے، بغداد میں انسانی علاج ومعالجہ کے لیے قائم اداروں کے ساتھ ساتھ حیوانات کے لیے بھی شفاء خانے موجود تھے۔ وقف سے مراد ایسی چیز جو خود کو قائم رکھتے ہوئے بعض فوائد اور منافع کے حصول کا ذریعہ بنے جیسے زمین کی صورت میں غلہ، باغ کی صورت میں پھل، جانوروں کی صورت میں دودھ، مکان کی صورت میں کرایہ وغیرہ. وقف کی مشروعیت کی حکمت یہ ہے کہ اوقاف سے انسان کی دینی ضرورتیں جیسے مساجد، مدارس، خانقاہیں، اسی طرح اوقاف سے انسان کی معاشی اور طبعی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں جیسے کنوئیں، چشمے، حوض، سڑکیں، سرائے وقف کی جاسکتی ہیں، اس کی منفعت زیادہ ہے کیوں کہ اوقاف میں مالک کی ملکیت باقی نہیں رہتی ہے اس لیے اس کا نفع تا دیر قائم رہتا ہے۔ وقف کی چند صورتیں ہیں، وقف علی اللہ یعنی اللہ کے لیے دینی کاموں کے فروغ کے لیے وقف کرنا جیسے مساجد، عیدگاہیں، جنازہ گاہیں، کفن دفن کا سامان، دینی مدارس، شفا خانے، سواری کا جانور، جائیداد، اراضی، پل، قبرستان، قرآ ن مجید وغیرہ۔ اس کو وقف خیری بھی کہتے ہیں، یہ اعلی قسم کا وقف ہے۔ وقف علی الاولاد : یعنی اپنی اولاد پر وقف کرنا جیسےحضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹیوں کے نام جو کسی وجہ سے اپنے گھروں سے نکال دی جائیں۔ وقف کی تھیں، حضرت علی کرم اللہ وجہ اور فاطمہ رضی اللہ عنہا نے بنی ہاشم پر وقف کیا تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خیبر کی زمین کو خاندان فاروقی کے محتاجوں کے لیے وقف کیا تھا وغیرہ، وقف انبیاء علیھم السلام کی سنت ہے، وقف کی ابتداء حضرت ابراھیم علیہ السلام سے ہوئی، اور نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ و سلم نے مسجد نبوی بنوا کر وقف فرمائی ۔ اور ارشاد فرمایا "انا معاشر الانبیاء لانورث ما ترکنا صدقۃ” (متفق علیہ)۔ وقف کوعالمگیریت کا درجہ حاصل ہے، ہر مذہب میں اس کا سلسلہ ملتا ہے۔ یہ ماضی اور حال کے درمیان پل کا کام کرتا ہے، اگلی نسلوں کو پچھلی نسلوں سے مربوط کرتاہے، یہ گزرنے والی نسل کی جانب سے آنے والی نسل کے لیے پیار ومحبت اور امن وآشتی کا پیغام ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ حکومت کا وقف قوانین میں ترمیم کا مقصد مسلمانوں سےجائیدادیں چھیننا ہے، چونکہ بی جے پی کے پاس ہندو، مسلم کے سوا کچھ نہیں” واضح رہے کہ اس وقت کی مختلف ریاستوں میں 32 وقف بورڈ ہیں اب حکومت مساجد، مدارس اور درگاہوں جیسے مسلمانوں کے مذہبی اور خیراتی اثاثوں کو کنٹرول کرنے والے وقف بورڈ کے قانون میں ترمیم کا اعلان کیا ہے۔ بھارتیہ اور 1995 کے وقف قانون میں ترمیم کا بل پارلیمنٹ میں پیش کیا ہے، جس کی مسلم تنظیمیں اور حزبِ اختلاف کی جماعتیں مخالفت کر رہے ہیں۔ جسے حکومت کی ان ترامیم کے ذریعے وقف کے املاک کو ریگولیٹ کرنے کی سمت میں ایک بڑے فیصلے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ چونکہ وقف بورڈ کے قوانین میں کی گئی ترامیم حکومت کو اجازت دیتی ہیں کہ وہ از خود یہ تعین کرے کہ کوئی جائیداد وقف کی ملکیت کیسے بنے گی یا ریاستوں میں قائم وقف بورڈ کی تشکیل کیسے ہوگی وغیرہ ۔
وقف املاک کا معاملہ حالیہ برسوں میں بی جے پی اور ہندو رہنماؤں کے لیے اہم موضوع رہا ہے۔ مجوزہ ترامیم کے بارے میں بی جے پی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ "وقف بورڈ کے پاس 50 ممالک کے رقبے سے زیادہ اراضی ہے، اس لیے اس لینڈ جہاد کو روکنے کے لیے حکومت ایک بل لا رہی ہے جو وقف بورڈ کو شفاف بنائے گا۔” واضح رہے کہ وقف ایکٹ پہلی بار 1954 میں پارلیمنٹ نے پاس کیا تھا۔ بعد میں اسے منسوخ کر 1995 میں ایک نیا وقف ایکٹ منظور کیا گیا تھا جس کے تحت وقف بورڈ کو مزید اختیارات دیے گئے تھے۔ سنہ 2013 میں اس ایکٹ میں مزید ترمیم کی گئی تھی، جس کے تحت وقف بورڈ کو لوگوں کی طرف سے وقف کی گئی جائیداد کو "وقف جائیداد” کے طور پر نامزد کرنے کا اختیار دیا گیا تھا. سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں وقف بورڈ کے پاس آٹھ لاکھ 72 ہزار ایکڑ سے زیادہ زمین ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ہندوستان میں اس وقت ریلوے اور وزارتِ دفاع کے بعد سب سے زیادہ جائیداد وقف بورڈ کی ملکیت میں ہے۔ لیکن اتنے وسیع پیمانے پر جائیداد ہونے کے باوجود بھی مبینہ بدعنوانی کے وجہ سے وقف بورڈ کو محض 200 کروڑ روپے کی ہی آمدنی ہوتی ہے، جس پر مسلم تنظیموں نے پہلے بھی تنقید کی تھی اور شفافیت لانے کا مطالبہ کیا تھا۔ مگر اب سوال یہ ہے کہ حکومت وقف قانون میں کیا تبدیلی لانا چاہتی ہے؟ تو سنئے وقف بورڈ کے پرانے قانون میں تقریباً تین درجن تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں جنہیں مسلم تنظیموں جمیعۃ علماء ہند ،مسلم پرسنل لاء بورڈ، مجلس مشاورت، امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ وغیرہ نے مسلمانوں کے حقوق چھیننے کے مترادف قرار دیا ہے۔ ان میں سے چند یہ ہیں. (1) تجویز کردہ تبدیلی ضلع کلیکٹر کو اختیار دیتی ہے کہ وہ فیصلہ کر سکے کہ کونسی جائیداد وقف کی ہے اور کون سی سرکاری زمین ہے۔ (2) ان ترامیم کا مقصد ظاہری طور پر مرکزی وقف کونسل اور ریاستی بورڈز میں خواتین کی تعداد کو بڑھانا بھی ہے۔ (3) یہ بِل مرکزی حکومت کو اجازت دیتا ہے کہ وہ وقف بورڈ میں ایک غیر مسلم چیف ایگزیکٹو آفیسر اور کم از کم دو غیر مسلم ممبران کو ریاستی حکومت کے ذریعہ تعینات کر سکے۔ (4) ترامیم کے ذریعے "استعمال کے ذریعہ وقف” (وقف بائی یوز) کے طریقے کو بھی مکمل طور پر ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی جائیداد وقف کے استعمال میں ہے تو کاغذات مشتبہ ہونے کی صورت میں بھی وہ زمین وقف کی ملکیت میں نہیں رہے گی۔ واضح رہے کہ کئی معروف اور مالدار مسلمان شخصیات اکثر اپنی جائیداد کے کچھ حصے کو وقف کیا کرتے تھے، لیکن قانونی طور پر وقف کے پاس بہت ساری زمینوں کے کاغذات نہیں اور بہت سی زمینوں کے دستاویزات گُم ہو چکے ہیں۔ ان میں سے کئی جائیداد یا زمینیں اس زمانے میں وقف کی گئی تھیں جب جائیداد کو زبانی طور پر وقف کرنا عام تھا اور دستاویزات کا استعمال عام نہیں تھا۔ ایسے میں مثال کے طور پر ایک مسجد کو وقف نامے کی عدم موجودگی میں بھی وقف کی جائیداد تصور کیا جاتا تھا مگر نئی مجوزہ ترامیم کے مطابق اگر کسی جائیداد کا وقف نامہ موجود نہیں ہے تو وقف کی اس جائیداد کی ملکیت مشتبہ تصور کی جائے گی۔ اس بارے میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ وہ "وقف ایکٹ 2013 میں ایسی کسی بھی تبدیلی کو قبول نہیں کریں گے جس سے وقف املاک کی حیثیت اور نوعیت میں تبدیلی آئے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’وقف بورڈ کے حقوق میں کسی قسم کی کمی یا حد بندی کو بھی ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔” آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر بیرسٹر اسد الدین اویسی نے کہا کہ” حکومت وقف بورڈ کی خود مختاری کو چھیننا چاہتی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ "میں کہہ سکتا ہوں کہ اس مجوزہ ترمیم کے بارے میں میڈیا میں جو کچھ بھی لکھا گیا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مودی حکومت وقف بورڈ کی خود مختاری چھیننا چاہتی ہے اور مداخلت کرنا چاہتی ہے، یہ مذہب کی آزادی کے خلاف ہے۔ ان کا مقصد ایک ہی ہے کہ وقف کی جائیدادوں کو مسلمانوں سے چھین لیا جائے۔ شروع سے ہی آر ایس ایس اس کی کوشش کر رہی ہیں۔” انڈین یونین مسلم لیگ کے رُکنِ پارلیمنٹ ای ٹی محمد بشیر نے کہا کہ” یہ ایک بہت سنگین مسئلہ ہے۔ وہ وقف بورڈ کے تمام حقوق چھین رہے ہیں اور اسے حکومت کے حوالے کر رہے ہیں۔” اپوزیشن پارٹی کانگریس نے بھی اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے اسے کمیٹی کو بھیجنے کا مطالبہ کیا۔” سماج وادی پارٹی کے رہنما اکھلیش یادیو نے کہا کہ” بی جے پی کے پاس سوائے ہندو، مسلم کے اور کچھ کرنے کو نہیں اور یہ کہ وہ مسلمان بھائیوں کے حقوق کیسے چھینے۔” یہاں یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ وقف املاک حکومت کی املاک نہیں ہے، بلکہ یہ مسلمانوں کی اپنی ذاتی املاک ہیں جو انہوں نے مذہبی اور خیراتی کاموں کے لیے اللہ تعالیٰ کو پیش کی ہیں۔ وقف بورڈ اور متولیوں کا رول انہیں صرف ریگولیٹ کرنے کا ہے۔آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، جمعیت علما ہند، جماعت اسلامی ہند، مرکزی جمعیت اہل حدیث اور تمام دینی و ملی تنظیمیں اس بل کو جو وقف املاک کو تباہ وبرباد کرنے اور ان پر قبضوں کی راہ ہموار کرنے کے لیے لایا گیا ہے، کلیۃً مسترد کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسے فوری طور پر واپس لے۔ انہوں نے این ڈی اے میں شامل سیکولر سیاسی پارٹیوں اور حزب اختلاف کی تمام پارٹیوں سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس بل کو ہرگز ہرگز بھی پارلیمنٹ سے منظور نہ ہونے دیں۔ یہ بھی بتاتے چلیں کہ وقف ترمیمی بل 2024 سے متعلق مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی پہلی میٹنگ نئی دلّی میں ہو چکی ہے۔ کمیٹی کی قیادت بی جے پی کے ایم پی جگدمبیکا پال کر رہے ہیں اور اِس میں کل 31 ارکان ہیں، جن میں 21 ارکان لوک سبھا کے اور 10 ارکان راجیہ سبھا کے ہیں. یہاں یہ بھی واضح کر دینا ضروری کہ اگر وقف املاک کو تباہ کرنے والا اور وقف املاک کے قبضوں کی راہ ہموار کرنے والا یہ بل اگر آئندہ پارلیمنٹ سیشن میں پاس کیا گیا تو مسلم پرسنل لاء بورڈ مسلمانوں، دوسری اقلیتوں اور تمام انصاف پسند لوگوں کے ساتھ اس کے خلاف ملک گیر تحریک چلائے گا جس کے لئے ہمیں تیار رہنے کی ضرورت ہے۔