تحریر: محمد ریحان ورنگلی
مستقبل کے حالات کے سلسلے میں مثبت سونچ، مثبت ارادے، مثبت پہلو، منفی عزائم سے بے اعتنائی، منفی زاویے سے بے رغبتی، منفی پہلو سے بے توجہی، حالات سے حسنِ ظن اور توقعِ خالص انسان کے اندر خوشی و مسرت کا احساس موجزن کرتی ہے، یہ امید و بیم اور مؤمنانہ صفات انسان کو موجودہ مشکلات و دشواریوں کو برداشت کرنے کے قابل بناتی ہیں اور یہ قابلیت کل ایک بادِ بہاری کو لے کر نمودار ہوں گی، یہ امید و بیم اور توقعاتِ نیک انبائے کرام کے اوصافِ حمیدہ اور اخلاقِ حسنہ میں شمار کئے گئے ہیں اور ناامیدی کفر کی علامت قرار دی گئی انہ لا ییئس من روح اللہ الا القوم الکافرون یہی وہ اخلاق و صفات ہیں جو انبیاء کو ہر حال میں دعوت الی اللہ کو جاری رکھنے پر مجبور کرتی ہے، وہ ان سے کبھی مایوس نہیں ہوتے تھے، وہ ان کے قبولِ حق کے انکار کی وجہ سے بددِل اور ناامید نہیں ہوتے تھے؛ بل کہ انہیں امید ہوتی تھی کہ ان کی منکر قوم کبھی نہ کبھی مطیع بنے گی، اللہ کے پیغام کو قبول کرے گی، اور سیدھے راستے پر چلنا پسند کرے گی ۔
طائف کا واقعہ اس کی زندہ مثال اور ہزاروں نمونوں میں سے ایک ہے، رسول اللہ ﷺ دس سال تک مایوس ہوئے بغیر دعوت دیتے رہے زید بن حارثہؓ کو لے کر بنوثقیف کے سرداروں کے پاس گئے شاید وہ اللہ کی دین کی حمایت کے لئے آمادہ ہوجائیں؛ مگر ان لوگوں نے نہ صرف آپ کی دعوت کو قبول کیا؛ بل کہ آپ کے ساتھ بے رخی اور بد اخلاقی کا مظاہرہ کیا، آپ کے ساتھ اوباشوں اور بدمعاشوں کو لگادیا، جو آپ پر پتھر پھینکتے اور زخمی کرتے یہاں تک کہ آپ کا جسم خون کی وجہ سے لہولہان ہوگیا اس کے بعد آپ نے عتبہ اور شیبہ کے باغ میں پناہ لی تو فرشتہ نے آکر آپﷺ سے پوچھا آپ حکم دیں کہ ابھی ان کو دونوں پہاڑوں کے درمیان مسل دیں گے؛ مگر آپﷺ نے پسند نہیں فرمایا شاید کہ ان کے اصلاب میں کوئی موحد پیدا ہو، اسی طرح غزوہ احد کے موقعہ پر جبکہ جنگ کا بازار گرم تھا اور آپﷺ لہولہان تھے اس وقت بھی آپ امید پر تھے کہ یہ آج ہم سے لڑ رہے ہیں؛ مگر عین ممکن ہے کہ کل ہمارے وفادار بن جائیں آپ نے صرف اتنا فرمایا اللھم اھد قومھم فانھم لا یعلمون ۔
طائف کے واقعہ کے ساتھ ساتھ موجودہ حالات میں فلسطینی مسلمانوں کے واقعات اس کی زندہ و لاثانی مثال ہیں دل سوز و المناک واقعات و حوادثات، قلب و جگر کو تڑپانے والے مناظر، روح کی تسکین کو جھلسادینے والی خبریں، آسمان اور زمینی سطح سے ان پر ہونے والے ظالمانہ حملیں، چہار دانگ عالم کی جانب سے ان کو نیست و نابود کرنے کی کوششیں اور سازشیں، اس کو پڑھ کر اور سن کر پاؤں تلے زمین کھسک جاتی ہیں، جسم کا انگ انگ کھڑا ہوجاتا ہے۔
چنانچہ امید اور مستقبل کے بارے میں توقعاتِ نیک کا ہونا ایسی طاقت و قوت ہے جو انسان کو تعمیری رول ادا کرنے پر مجبور کرتی ہے، اسی کے سہارے انسان اس کرہ ارضی کو اباد کرتا ہے، بہتر مستقبل کی امید ایسی بھڑکتی روشنی ہے؛ جو گھٹا ٹوپ اندھیرے میں بھی انسان کو راستہ دکھاتی ہے اور قدم آگے بڑھانے پر امادہ کرتی ہے، یہ روشنی انسان کی مدد و دستگیری کرتی ہے کہ وہ ایسی زندگی بسر کر سکے جس میں خوشیاں ہی خوشیاں ہوں اور انسان اپنی تمناؤں کو پورا اور خوابوں کو شرمندہ تعبیر کر سکے، یہ امید و بیم انسان کو جھنجوڑتی ہے کہ وہ سونچیں کہ مستقبل کے حالات بدلیں گے، اس کی زندگی پر بہار ہوگی، اسے امن و سکون حاصل ہوگا، عناد و عداوت کی فضا چھٹے گی، آج کل جو مسلمانوں کو تعصبانہ نگاہوں سے دیکھا جا رہا ہے، ان کی غیرت و حمیت کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہے، ان کی عزت و آبرو کو پامال کیا جا رہا ہے، اور ان کے خلاف سازشوں کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے، زمانہ جاہلیت کی طرح سب کو بغض و عداوت کی مسموم فضاؤں میں جینے پر مجبور کیا جا رہا ہے، ہر جگہ انسان نما درندے دکھائی دے رہے ہیں، آدم زاد آدم خور بن گئے ہیں، اسلام کی صحیح تصویر کو دھندلا کر کے قوم مسلم کی شبیہ کو خراب کیا جا رہا ہے، جان و مال کا ضیاع، انسانی حقوق کی پامالی، مساجد کو مسمار کرنے کی ناپاک سازش، مدارس پر دہشت گردی کے الزامات اور طرح طرح کے متعصبانہ اور متنفرانہ مسموم فضائے مسلمانوں کے مابین پھیلائی جا رہی ہے؛ لیکن اس کے باوجود ان کی مثبت سونچ، مثبت عزائم و ارادے مستقبل کے بارے میں توقعاتِ نیک اور ذات خداوندی سے امید و بیم اور ان کی ایمانی غیرت و حمیت کے سامنے ہماری امید و بیم اور ایمان غیرت حمیت ہیچ اور کالعدم معلوم ہوتی ہے ان مظلوم فلسطینیوں کے ظلم کے سامنے ہم پر ہونے والے ظلم کی کوئی حیثیت نہیں ہے اس لئے
تندئ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہیں تجھے اونچا اڈانے کےلئے
مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ جلد بازی میں اپنے سود و زیاں کا فیصلہ نہ کرے؛ بل کہ حالات کا تجزیہ کرکے اپنے لیے طویل المیعاد منصوبہ بنائیں، مسلمانوں کی نئی نسل کی خاصی تعداد دینی تعلیم سے بے بہرہ ہے، تعلیم کے سلسلے میں سرکاری سہولتوں سے فائدہ اٹھانے کے ساتھ انہیں بڑے تعداد میں پرائیویٹ ادارے قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، وہ پورے ملک میں مکاتب اور اسکولوں کا جال بچھا دے، اعلی اور اختصوصی تعلیم کے لیے پروفیشنل ادارے بھی قائم کرے، سب کی کوشش یہ ہو کہ کوئی مسلمان بچہ تعلیم سے بے بہرہ نہ رہ جائے؛ خاص طور سے ان مسلم بچوں اور بچیوں کی فکر کرے جو غریب خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، مسلمانوں کی حیثیت اس ملک میں مانگنے والی قوم کی بن گئی ہے، اور مانگنے والوں کو کبھی عزت و احترام کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا، انہیں دینے والا بننا چاہیے ان کے پاس مضبوط عقیدہ ہے، پاکیزہ زندگی ہے، لوگوں کے دلوں کو کھینچنے والی موثر تعلیمات ہیں، وہ دبے کچلے اور مظلوم انسانوں کے نجات دہندہ بن کر سامنے آسکتے ہیں، مسلمان سماج میں عدل و انصاف کو نافذ کرنے والے بنے، ظلم کوئی بھی کرے اس کے خلاف اواز بلند کرے اور ظلم کسی پر بھی ہو اس کی حمایت کرے اور اسے ظلم سے بچانے کی کوشش کرے، مسلمان ایک پیغام کے علمبردار ہیں؛ انہیں ہمیشہ اپنی یہ حیثیت اپنے نظروں کے سامنے رکھنی چاہیے کہ وہ پیغام الہی کو اللہ کے بندوں تک پہنچانے والے ہیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں امن و امان کی فضا قائم رہے، مسلمانوں کے دشمن ملک کی فضا کو مسموم بنانا چاہتے ہیں وہ سماج کی تشکیل فرقہ وارانہ بنیادوں پر کرنا اور مختلف قومیتوں کے درمیان ذہن گھولنا چاہتے ہیں، اس طرح ان کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان سماج سے کٹ جائیں اور مختلف مسائل میں گھر کر اپنے مشن سے غافل ہو جائے، اب مسلمانوں کو ان منصوبوں کو ناکام بنانا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ملک کے تمام طبقات سے خوشگوار تعلقات رکھے خلاصہ یہ کہ موجودہ حالات سے مسلمانوں کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں؛ بلکہ اس کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ اپنی کارکردگی کا جائزہ لیں اپنی سرگرمیوں میں تیزی لانے کے لیے منصوبہ بندی کریں اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے جو جدوجہد کرنی چاہیے اس سے دریغ نہ کرے ؎
مسلمانو سنبھل جاؤ سنبھل جانے کا وقت آیا
بہت سوئے ہو تم اب ہوش میں آنے کا وقت آیا
جلا ڈالی تھی تم نے کشتیاں اندلس کے ساحل پر
مسلماں پھر تیری تاریخ دہرانے کا وقت آیا
جہاں سے تین سو تیرہ چلے تھے تم مسلمانو
انہی ماضی کی راہوں پر پلٹ جانے کا وقت آیا