تحریر: آفتاب رشکِ مصباحی
بہار یونیورسٹی، مظفرپور
صلح ،سلامتی اور معافی یہ ایسی چیزیں ہیں جسے ہر انسان فطری طورپر پسند کرتاہے۔ اس کے بر خلاف ظلم ،تشدد اور انتقام کو کو ئی بھی شخص پسند نہیں کرتا۔اس لیے کہ یہ تینوں چیزیں فساد کا باعث ہیں اور فساد نہ صرف انسانوں کو ناپسند ہے، بلکہ یہ خالق کائنات کوبھی ناپسند ہے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کودیکھیں تو مکی زندگی کے زیادہ ترپہلوایسے نظر آ ئیں گے جہاں آپ نے صلح و سلامتی اور عفو ودر گزر سے کام لیا۔
کعبہ شریف کی پہلی تعمیر فرشتوں نے کی ،دوسری تعمیر حضرت آدم علیہ السلام نے کی اور اس کی آخری تعمیر اس وقت ہوئی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر پینتیس سال تھی ۔ اس آخری تعمیر میں کعبہ ان بنیادوں پر تعمیر نہ ہو سکا جس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کی تھی ،بلکہ اہل قریش نے حلال مال کی کمی کے سبب شمال کی طرف سے تقریباً چھ ہاتھ لمبائی کم کر دی۔اس کے باوجودکہ قریش اور اہل مکہ مشرک تھے، لیکن خود کو دین براہیمی کا پیروکار کہتے تھے اور تعمیر کعبہ میں حلال مال استعمال ہو، اس کاعقیدہ بھی رکھتے تھے۔اسی وجہ سے یہ جانتے ہوئے کہ کعبہ کی لمبائی چھ ہاتھ کم ہو رہی ہے سب نے بالاتفاق اس کمی کے ساتھ کعبہ کی تعمیر مکمل کر ڈالی جس کاغم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو عمربھررہا۔چونکہ قریش و دیگر اہل مکہ کعبہ کی تعمیر جلدی کرنا چاہتے تھے ،ایسی صورت میں اگرحضور حلال مال جمع ہونے تک تاخیر کا حکم دیتے تو ایک نئی جنگ کی شروعات ہو جاتی۔ اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح و سلامتی کا راستہ اپنایا اور اس معاملے میں خاموشی اختیارفرمائی۔پھر یہ کہ جب اللہ نے آپ کو اہل مکہ پر غلبہ دے دیا تب بھی آپ نے ان کی خاطر کعبہ کی از سر نو تعمیر نہیں کروائی، حالاں کہ کعبہ اپنی اصل بنیودوں پر تعمیر ہو یہ آپ کی دلی خواہش تھی۔
تعمیر کعبہ کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے لوگوں کے لیے اسلامی کیلنڈر کے مطابق نظام حج قائم فرمایا تھا، مگر بعد میں مشرکین مکہ نے قمری تاریخ کو بدل کر شمسی تاریخ متعین کر دی جو ایک طرح سے دین حنیف میں تحریف اور تبدیلی تھی۔رسول خدا ﷺ کو اپنے زمانے میں اس بات پر قدرت تھی کہ مشرکین مکہ کے بنائے ہوئے شمسی نظام کو بدل کربراہیمی نظام کے مطابق حج کی تاریخ متعین فرما دیں ، مگرحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہ کیا اور نظام شمسی کوباقی رہنے دیا ،کیونکہ اگر آپ مشرکین کے بنائے ہوئے نظام شمسی کی جگہ براہیمی نظام کے مطابق حج اداکرنے کا حکم دیتے تو اس صورت بھی ایک بڑا فساد رونما ہوجاتا اور اسلام کی تبلیغ و دعوت کوسخت نقصان پہنچتا۔ اس لیے آپ اس وقت تک صلح و سلامتی کاراستہ اختیارکرتے رہے جب تک کہ مکمل طور سے اسلام کو غلبہ نہ حاصل ہوگیا۔ یعنی اعلان نبوت کے پورے تئیس سال بعد حجۃ الوداع کے موقع پر نظام شمسی کی جگہ قمری نظام بحال ہوااور پھراس وقت سے ذوالحجہ کے مہینے میں حج ادا کرنے کاعمل قمری تاریخ کے اعتبارسے دوبارہ بحال ہوا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی نبوت کا اعلان فرمایا اس وقت کعبے کے اندر تین سو ساٹھ بت تھے۔ آپ چاہتے توطاقت کے ذریعے پہلے کعبے کو بتوں سے پاک کرنے کی بات کرسکتے تھے، کیونکہ آپ عرب کے بااثر قبیلے سے تعلق رکھتے تھے، پھر لوگوں کو ایک اللہ کی دعوت دیتے، مگر آپ نے ایسا نہیں کیا۔ کیونکہ جو قوم صدیوں سے مورتیوں کو اپنا معبود مانتی چلی آئی تھی وہ اس بات پرکیسے راضی ہو جاتی کہ ان کے معبودکو بے گھرکر دیا جائے اور ان کی جگہ ایک اللہ کی عبادت کی جائے۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر ایک نہ ختم ہونے والی لڑائی شروع ہو جاتی اور اسلام کی دعوت کا کام مشکل ہو جاتا ۔ چنانچہ یہاں بھی آپ نے صلح و سلامتی سے کام لیا اور کعبے میں رکھے بتوں کو نہ چھیڑتے ہوئے پہلے اہل مکہ کے دینی افکار و نظریاتبدلنے کی کوشش فرمائی۔اس کا اثریہ ہوا کہ جو لوگ بتوں کوکعبے میں رکھتے تھے اور اس کی حفاظت کرتے تھے ایک دن ان ہی لوگوں نے ان بتوں کو توڑ پھوڑ کر باہرپھینک دیا۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر چالیس سال کی ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو اعلان نبوت کا حکم دیا کہ اب آپ لوگوں کو اللہ کی وحدانیت کی دعوت دیں۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مشرکین مکہ تک اپنی دعوت پہنچائی اور انھیں اللہ کا پیغام سنایا تو چند احباب کو چھوڑکر سارا مکہ آپ کا دشمن ہو گیا۔جناب ابو طالب کی زندگی میں تو ان کی دشمنی قدرے دبی رہی ، مگر ان کی وفات کے بعداہل مکہ نے کھل کر آپ کو ستانا شروع کر دیا۔ بلکہ جو لوگ آپ پر ایمان لاتے ان کو بھی اس بے دردی اور ظالمانہ انداز سے زدو کوب کرتے کہ دیکھنے والوں کا کلیجہ منھ کو آ جاتا۔ ایسے عالم میں بھی آپ نے نہایت صبر و استقلال سے کام لیا اورایک دن پرامن طریقے سے ہجرت فرمائی۔ اہل مکہ نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت و تبلیغ کا نتیجہ دیکھا تو ہر ممکن کوشش کرنے لگے کہ کوئی بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نہ سنے اورنہ ان سے کوئی ملے،یہاں تک کہ اہل مکہ (معاذ اللہ!) آپ کومجنون ، دیوانہ، شاعر اورجادوگر کہنے لگے۔ مگرحقیقت کو کون جھٹلاسکتا ہے۔ ان کے منع کرنے کے با وجود لوگ آپ کے پاس آتے ، آپ کی باتیں سنتے اور آپ پر ایمان لے آتے ۔اس سے تنگ آکر کفارومشرکین نے آپ کو محمد کی بجائے مذمم (مذمت کیا ہوا) کہنا شروع کر دیا جو آپ کی شان میں ایک سنگین گستاخی تھی اور آپ کی عزت و وقار کو ٹھیس پہنچاناتھا۔لیکن حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انتقام لینے کی بجائے ،عفوو در گزر سے کام لیا اور فرمایا:یہ لوگ مذمم کو برا بھلا کہتے ہیں اور میں مذمم نہیں،محمد (تعریف کیا ہوا) ہوں۔
عرب میں ’’عکاظ،مجنہ،اورذوالمجاز‘‘نہایت مشہور بازارتھے جہاں جاہلیت کے دنوںمیں بڑا میلہ لگتا تھا۔ عرب کے علاوہ علاقائی اوردور دراز شہرکے لوگ بھی بغرض تجارت اس میں شریک ہوتے۔یہ دیکھ کرنبی کریم علیہ الصلاۃ و السلام نے ان میلوں کو تبلیغ ودعوت کے لیے بڑامناسب سمجھا ۔ چنانچہ ایک باراللہ کی وحدانیت اور اپنی رسالت پر ایمان لانے کی دعوت دیتے ہوئے ذوالمجاز کی طرف نکلے۔ابوجہل بھی پیچھے ہولیا ،وہ آپ پر مٹی پھینکتا جاتا اور کہتا جاتا کہ یہ شخص فریبی ہے، دھوکہ باز ہے، اس کے چکر میں نہ آنا۔ ذرا سوچیے! کہ اتنا بڑا میلہ جہاں مختلف علاقوں کے لوگ جمع ہوں اور ان کے سامنے ایک شخص دوسرے شخص کی عزت و آبرو پر حملہ کررہاہو،بھلایہ کسی سے کیسے برداشت ہوسکتا ہے؟ لیکن ، یہ شان صرف محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے کہ سب کے سامنے آپ کی شان میں ابوجہل نہایت بدکلامی کررہا ہے ، مگر انتقام لیناتودور، آپ پلٹ کر اس کاجواب بھی نہیں دیتے اور نہ اس کی کسی بات پر کوئی توجہ دیتے۔بلکہ آپ دعوت وتبلیغ میں مشغول رہتے۔
مشرکین مکہ نے ہر ممکن کوشش کرلی، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوتبلیغ دین سے نہ روک سکے ، یہاں تک کہ ہر قسم کی لالچ دے کر بھی ہارگئے ۔ پھرجب حضرت حمزہ اور حضرت عمرنے ایمان قبول کرلیاتوانھیں بڑی تشویش ہوئی اوربالآخر ایک دن تمام قبیلوں نے مل کر آپ اور آپ کے جملہ جاں نثاروں کا مکمل بائیکاٹ کردیا۔جس کے نتیجے میں تمام مسلمانوں کے ساتھ آپ کو بھی تین سال تک’ شعب ابی طالب‘ میں مقید رہنا پڑا۔روایت کے مطابق ان دنوں بھوک اور پیاس کی شدت کی وجہ سے مسلمانوں کے جسم پیلے پڑ گئے تھے۔ عورتوں اور بچوں کی بے چین آوازوں سے گھاٹیاں لرزنے لگتی تھیں، مگر بے رحم مشرکوں پر کچھ اثر نہ ہوتاتھا۔ ظالموں نے اس بے دردی کے ساتھ بائیکاٹ جاری رکھاکہ نہ تو کہیں سے کچھ پانی اندر جاتا اور نہ کھانے کا کوئی سامان۔اس واقعے کا قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ اس سختی و پریشانی کے باوجودنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کو کچھ بھی برا بھلانہ کہا، بلکہ اپنی عادت کے موافق ہر ایک کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے رہے،حالانکہ آپ چاہتے تو کم از کم ان کے لیے بد دعا کرسکتے تھے، مگر آپ نے یہ بھی نہ کیا ۔
آج ہم ایک ایسے ماحول اورمعاشرے میں جی رہے ہیں جہاں شرعی قانون نافذہے نہ اس کے نفاذکی کوئی صورت ہے اورنہ ہی یہ سماج ومعاشرہ فی الحال اس کے لیے تیار ہے۔ ایسے حالات میں مکی سیرت ہماری رہ نمائی کرتی ہے کہ ہم کسی پرجبراً شرعی قانون نافذکرنے کی بجائے صلح و سلامتی اورمعافی کی راہ اختیار کریں اور اپنے اچھے اخلاق وکردار سے لوگوں کے ذہن و فکر کو بدلنے کی کوشش کریں تاکہ لوگوں کادل اور دماغ خود بخود شرعی نظام کی طرف راغب ہو، پھراس کے بعد شرعی قانون کے نفاذ میں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔
نیزاگر کوئی ہماری دعوت قبول کرنے کی بجائے ہمیں گالیاں دیتا ہے ، ہمارا مذاق اڑاتا ہے ، ہمیں برا بھلا کہتا ہے یا سرے سے ہماری دعوت کا انکار کردیتا ہے تو اس پربرہم ہونے کی بجائے نہایت صبروضبط سے کام لیں اوراس کے خلاف انتقامی کارروائی کرنے کی بجائے عفو ودرگذر کو بروے کار لائیں، بلکہ ان کے لیے دعاے خیر کریں اور یاد رکھیں کہ اگر یہ لوگ ہمارا پیغام نہیں سنتے،ہماری دعوت قبول نہیں کرتے اورہماری باتوںپر دھیان نہیں دیتے توکیاہوا؟ ان شاء اللہ، ایک نہ ایک دن ان کی آنے والی نسلیں ہماری دعوت قبول کریں گی اور ہماری آواز پر لبیک کہیں گی ۔