کیا بھارتی عدالتیں آزاد ہیں ؟
کل بھارت کے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڈ کے گھر پر جیسے ہی نریندر مودی گنپتی پوجا کے لیے پہنچے بھارت کی سول سوسائٹی اور بار کاؤنسل میں جیسے بھونچال آگیا ہو۔
نریندر مودی اور چیف جسٹس کا ایک مکان میں جمع ہونا وہ بھی سوفیصد نجی تقریب میں یہ واقعہ عدلیہ کی سیاست سے دوری کے اصول کو سبوتاژ کرنے والا ہے،
چیف جسٹس چندرچوڈ اور وزیراعظم مودی کا یہ ملن اس لیے مزید سنگین ہےکہ
آئین ہند کے آرٹیکل 50 کے مطابق executive اور judiciary کے درمیان doctrine of separation of powers کی ایک نازک لکیر ہمیشہ رہےگی جو عدلیہ کی آزادی اور پارلیمانی مقننہ کے وقار اور مستقل خودمختاری کی ترجمانی کرےگی ۔
اب تک دکھلاوے کے لیے ہی سہی لیکن اس پر عملدرآمد ہوا کرتا تھا کہ عدلیہ اور سیاسی سرکار کے درمیان حد فاصل قائم رہے لیکن موجودہ چیف جسٹس جوکہ "شخص کی آزادی” ” اظہار کی آزادی ” اور ” انصاف و شفافیت کے لیکچروں ” کے ذریعے لوگوں کو بیوقوف بنانے میں مشہور ہیں اور کبھی کبھی حکومت کے خلاف تھوڑے تیکھے تبصروں کے ذریعے خود کو اصول و انصاف پسند دکھانے کی کوشش کرتے ہیں انہوں نے ریٹائرمنٹ سے پہلے اس اقدام کے ذریعے کیا عدالتی وقار کا بچا کھچا جنازہ نکالنے کی کوشش کر ڈالی ہے ؟
چیف جسٹس چندرچوڈ نے مودی کو اپنے گھر پر ویلکم کرکے ان سوالات کو مزید پختہ کردیا ہے کہ انہوں نے بابری مسجد کے خلاف رام مندر کا فیصلہ کیوں لکھا؟
اسی چیف جسٹس نے EVM ووٹنگ مشینوں کو کلین چٹ کیوں دی؟
مہاراشٹر کی غیر آئینی اور انتہائی غیر قانونی سرکار کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی اور تقریباً ڈیڑھ سالوں تک مہاراشٹر سرکار کی غیر آئینی حیثیت ثابت ہونے کےباوجود مقدمے کو کیوں ٹالتے رہے ؟
چندرچوڈ نے کیجریوال کو ضمانت کیوں نہیں دی؟
چندرچوڈ کے دور میں سپریم کورٹ سے دہلی فسادات کے نام پر این آر سی کےخلاف مہم چلانے والے مسلم ایکٹوسٹوں کو سپریم کورٹ سے ضمانت کیوں نہیں ملی۔؟
چندرچوڈ متھرا کی مسجد میں ہندوؤں کی پوجا پر روک کیوں نہیں لگا سکے؟
چندرچوڈ نے کلکتہ ریپ کے معاملے میں ممتا بنرجی کے خلاف تو عدالت کی ازخود نوٹس والی طاقت کا استعمال کیا لیکن ریپ کی ایسی ہی واردات اترپردیش، مہاراشٹر اور اتراکھنڈ کی بھاجپائی سرکاروں میں ہوئیں تو وہاں کی سرکاروں کے خلاف اس طاقت کا استعمال کیوں نہیں کیا؟
چندرچوڈ نے چیف جسٹس کی حیثیت سے اپوزیشن پارٹیوں کو ای ڈی اور جانچ ایجنسیوں کے قہر سے بچانے کی پیٹیشن کو مسترد کیوں کردیا ؟
چندرچوڈ نے چیف جسٹس کی حیثیت سے کشمیر سے آرٹیکل 370 ختم کرنے کے مودی سرکار کے فیصلے کو آئینی حیثیت کہوں دےدی؟
ایسے ہی کئی سارے معاملات ہیں جن میں چندرچوڈ صاحب کی سربراہی میں آنے والے فیصلے مودی سرکار کے لیے راحت رسانی کا ہی سبب بنیں، اب مودی کے چندرچوڈ کے گھر پر پہنچ جانے سے ان فیصلوں پر مزید سوالات کھڑے ہوگئے ہیں !
حالانکہ آزاد جمہوریہ کے لیے عدالتوں کی خودمختاری اور ان کی واضح ترین شفافیت بہت لازمی ہے ورنہ ملک کی عوام کا نظام سے اعتماد اٹھ جائے گا اس لیے ہمارے ملک میں عدالتوں اور سرکاروں کے درمیان تفریق کرنے کے لیے doctrine of separation of powers موجود ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ ججوں کے لیے Code of Conduct for judges کے طور پر ایک مضبوط ضابطہ اخلاق موجود ہے ، ججوں کے لیے Code of Conduct کہتا ہے کہ:
"ایک جج کو اپنے عہدے کے وقار کو برقرار رکھنے کے لیے ایک حد تک الگ تھلگ رہنے کی مشق کرنی چاہیے، اس کی طرف سے کوئی ایسا کام یا کوتاہی نہیں ہونی چاہیے جس سے اُس اعلیٰ عوامی عہدے کی عزت خراب ہو، جس پر وہ فائز ہے”
اس روشنی میں بھی جائزہ لیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ ایک پرائیویٹ مذہبی تقریب کے لیے سپریم کورٹ کا چیف جسٹس ہوتے ہوئے نریندر مودی کا اپنے گھر پر استقبال کرکے چندرچوڈ صاحب نے ضابطہ اخلاق کے خلاف ورزی کی ہے ۔
سپریم کورٹ کی مایہ ناز وکیل اندرا جے سِنگ نے مودی اور چندرچوڈ کی اس پرائیویٹ میٹنگ پر انتہائی سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: ” چیف جسٹس آف انڈیا نے ایگزیکٹو اور عدلیہ کے درمیان اختیارات کی علیحدگی کے اصول پر سمجھوتہ کیا ہے۔ ان کی آزاد چیف جسٹس والی حیثیت سے ہمارا اعتماد اٹھ گیا ہے۔ سپریم کورٹ کی بار کاؤنسل کو اس واقعے کی سخت مذمت کرنی چاہیے "
میں بھی اس مطالبے کی تائید کرتا ہوں بار کاؤنسل آف سپریم کورٹ انڈیا کو اس واقعے کے خلاف اپنے اختیارات اور دائرہء کار کا استعمال کرنا چاہیے ۔
گزشتہ دنوں ایک اور خبر نے عدلیہ کی سیاست سے آزادی پر سوال کھڑے کیے تھے اس خبر کے مطابق سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے 30 ریٹائرڈ ججوں نے دہلی میں وشو ہندو پریشد جیسی انتہائی سخت گیر ہندوتوا تنظیم کی میٹنگ میں شرکت کی جس میں بابری مسجد کی طرح مسلمانوں سے مزید مساجد کو حاصل کرنے سے لےکر مسلمانوں کی اوقاف پر قبضے کے منصوبے پر مشورہ ہوا، اور ایسے مشورے میں ہندوستانی عدلیہ کے 30 ریٹائرڈ ججوں نے شرکت کی ، اس خبر کی تشویش ابھی کم نہیں ہوئی تھی کہ ہندوستان کے آن ریکارڈ چیف جسٹس نے آئینی پروٹوکول اور Code of Conduct کےخلاف جاکر اپنے گھر میں نریندر مودی کا استقبال کیا ، اس سے عدلیہ کی سیاسی دباؤ سے آزادی پر واضح ترین سوالیہ نشان قائم ہوگئے ہیں ۔
مسلمانوں میں عدالتوں کو مقدس گائے کے طور پر پیش کیا گیا تھا جس کی وجہ سے وہ بابری مسجد سے لےکر تین طلاق اور پھر متھرا مسجد سے لےکر کئی ایک معاملات میں عدالتوں کے ذریعے ناانصافی کے شکار ہوتے رہے، ہم امید کرتے ہیں کہ مسلم قائدین ایسی چشم کشا صورتحال سے بھارتی عدالتوں کی متنازعہ نوعیت پر مطلع ہوں گے اور عدالتوں کی ناانصافی کے خلاف بھی آواز اٹھائیں گے،
ہم اس ملک کی عدلیہ کے ججوں کو یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر وہ خود اپنا وقار قائم نہیں رکھیں گے اور انصاف کی کرسی کا حق ادا نہیں کریں گے تو عوام میں ان کے خلاف شور بلند ہوگا ، اس ملک کے لوگ خاص طور پر مسلمان اب تک عدالتوں کی طرف سے فیصلے آنے کے بعد اگر ناانصافی محسوس بھی ہو تو خاموش ہوجاتے ہیں لیکن اگر بار بار ناانصافی کا احساس ہوتا رہا تو یہ خاموشی برقرار نہیں رہے گی اس لیے ہماری عدالتوں کے محترم ججوں کو چاہیے کہ وہ separation of powers اور Code of Conduct کے پروٹوکولز کو برقرار رکھتے ہوئے آئین کی روشنی میں اس ملک کی عوام کو فسطائی طاقتوں کے ظلم سے بچائیں اور انصاف کی فراہمی یقینی بنائیں اگر ایک ہی جج کے اتنے فیصلے سوالات کے گھیرے میں ہوں پھر وہ اپنے منصب پر رہتے ہوئے انتہائی متنازعہ سیاستدان کےساتھ پرائیویٹ میٹنگ بھی کرے اور پھر 30(30 ریٹائرڈ ججز مسلم مخالف ہندوتوا میٹنگ میں شریک ہوں تو logically اس کا عوام کی نفسیات پر کیا اثر ہوگا؟
ازقلم: سمیع اللہ خان
samiullahkhanofficial97@gmail.com