تحریر: (مفتی) محمد ثناءالہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ
اسلام میں انفاق فی سبیل اللہ اور صدقہ نافلہ کی بڑی اہمیت ہے، یہ زکوٰۃ، صدقات واجبہ اورایسے نسبی رشتوں پر خرچ کی جانے والی رقم سے الگ ایک چیز ہے، جن کا نان ونفقہ واجب ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے انفاق کی تلقین کی ہے، اور فرمایا کہ جو بچ جائے اسے خرچ کیا کرو اور جو کچھ بھی تم مال خرچ کرتے ہو اس میں تمہارا ہی فائدہ ہے، ایک اور آیت میں اللہ رب العزت نے واضح کر دیا کہ تم بھلائی کے مقام کو اس وقت تک پا نہیں سکتے جب تک تم اپنی محبوب چیز کو خرچ نہ کرو۔
انسان کی سب سے پسندیدہ چیز جان ومال اور اولاد ہیں، ان کی محبوبیت دلوں میں اس قدر بیٹھی ہوئی ہے کہ آدمی اپنا سب کچھ اس کے حصول کے لیے قربان کرنے کو تیار رہتا ہے، جہاد میں جان ومال اور سماجی تقاضوں اور ضرورتوں کی تکمیل کے لیے اللہ رب العزت نے انفاق فی سبیل اللہ کی تلقین کی، یہ صدقات نافلہ، قرض حسنہ کی شکل میں عموما ہوا کرتے ہیں، اللہ رب العزت نے اس پر بڑے اجر کا وعدہ فرمایا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: مَنٓ ذَالذِیْ یُقْرِضُ اللہَ قْرْضاً حَسَناً فَیُضَاعِفَہٗ لَہٗ وَلَہٗ اَجْر کَرِیْم۔لیکن مال میں منقولہ اور غیر منقولہ ہر قسم کی مالیت اور ملکیت شامل ہے، اس لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد سے ہی اللہ کے راستے میں غیر منقولہ جائیداد کنویں، باغات اور کھیتوں کے وقف کو رواج ملا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف ان کی حوصلہ افزائی فرمائی؛ بلکہ دینے والوں کو مختلف قسم کی بشارتیں دیں۔
کہا جا تا ہے کہ سب سے پہلا وقف خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد قباکی زمین کے حصول کے بعد کیا، مدینہ پہونچنے کے بعد مخیریق نامی یہودی نے سات باغ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مرنے کے بعد پیش کرنے کی وصیت کی تھی، غزوہ احد میں جب وہ مارا گیا تو وہ ساتوں باغ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ (وقف) کردیا، اس کے بعد صحابہ کرام ؓ نے کثرت سے وقف کرنا شروع کیا، چنانچہ حضرت عمر ؓ نے خیبر کی زمین،حضرت عثمان نے ”بئر رومہ“ اور حضرت ابو طلحہ انصاری ؓ نے ”بیر حا“نامی باغ وقف کیا۔ جو اوقاف کی مشروعیت اور اس کی اہمیت بتانے کے لیے کافی ہیں۔
وقف کا اطلاق ہر قابل انتفاع چیزکو اپنی ملکیت سے نکال اللہ کی ملکیت میں دے دینے پر ہوتا ے، جس کا نفع دائمی تو نہیں دیر پا ہو، دائمی اس لیے نہیں کہ یہ دنیاہی فانی ہے، اس لیے یہاں کسی چیز کے بارے میں دوام کے ساتھ انتفاع کی شرط نہیں لگائی جا سکتی۔ ہندوستان میں مساجد، مدارس، خانقاہیں، قبرستان، مزارات، مسافر خانے وغیرہ کے لیے زمینوں کے وقف کرنے کا عام مزاج رہا ہے، جس سے امت کی مختلف قسم کی ضروریات پوری ہوتی رہی ہیں، اسلامی تعلیمات کے مطابق وقف کرنے کے لیے تحریری دستاویز کی بھی ضرورت نہیں ہے، زبانی کہہ دینا کافی ہے، فقہاء نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ کسی نے اپنی زمین میں اپنے صرفہ سے مسجد بنوائی اور عوام الناس کو نماز پڑھنے کی عمومی اجازت دیدی تو اسے مسجد کے طور پر وقف مانا جا ئے گا، جس زمین، دوکان، مکان وغیرہ کو وقف کر دیا گیا تو وہ بندے کی ملکیت سے نکل کر اللہ کی ملکیت میں چلا جاتا ہے، اللہ بے نیاز ہے اسے کسی چیز کی حاجت نہیں، اس لیے ملکیت اللہ کی اور اس کا نفع بندگان خدا کے لیے ہوا کرتا ہے، یعنی اللہ کی ملکیت میں جانے کے بعد کسی کے لیے یہ ممکن نہیں کہ اس کی ملکیت تبدیل کر دے، اسی لیے اوقاف کی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کی خرید وفروخت کسی کے لیے درست نہیں ہے، اوقاف کی زمینوں کو بار آور بنانا ایک دوسری چیز ہے اور اس کو فروخت کرکے دوسرے کے نام کرنا الگ چیز ہے، فروختگی سے اس کی ملکیت اور اوقاف کی حیثیت عرفی زائل ہوجاتی ہے، اس لیے کسی کو اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی، بعض مخصوص حالتوں میں قاضی شرع کی اجازت سے کچھ تغیر وتبدل کی گنجائش ہے، لیکن عمومی طور پر ایسا کرنے کی گنجائش کسی مرحلے میں نہیں ہے۔
وقف کردہ جائیدادیں چوں کہ اللہ کی ملکیت میں چلی گئیں، اس لیے اسلام نے اس کے انتظام وانصرام کا الگ سے نظام بنایا، چنانچہ اس کی دیکھ ریکھ کے لیے جب تک واقف حیات سے ہے وہ خود یا جس کو چاہے متولی کی حیثیت سے نامزد کر سکتا ہے،ا س کو انتظام وانصرام کے لیے اوقاف کی تولیت دوسروں کو منتقل کرنے کا پورا اختیار ہے وہ اگر یکے بعد دیگرے متولی کی تعیین کرنا چاہے تو اس کی بھی اسے اجازت ہے، لیکن متولی کا مالکانہ حق نہیں ہوتا کہ وہ جیسے چاہے اس میں تصرف کرے اور جب متولی کویہ اختیار نہیں ہے تو سرکار کی قائم کردہ وقف کو نسل، ریاستی وقف بورڈ، وقف بورڈ کی ضلعی کمیٹیاں اور ضلع کے کلکٹر کو بھی اسے خرد بُرد کرنے کا حق نہیں ہے، اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو یہ شرعی اور قانونی طور پر بھی جرم ہے،کیوں کہ وہ امانت میں خیانت کا مرتکب ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ”لا ایمان لمن لا امانۃ لہ“ جس کو امانت کا پاس نہیں اس کا ایمان معتبر نہیں، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ وہ گوشت جو حرام چیزوں سے تیار ہوا،وہ جہنم کا زیادہ مستحق ہے، حضرت عائشہ کی ایک روایت میں ہے کہ اگر کسی نے ایک بالشت زمین بھی ظلما لیا تو اس کی گردن میں سات زمینوں کا طوق ڈالا جائے گا۔
متولی کبھی خود واقف ہوتا ہے یعنی جس نے اللہ کی رضا کے لیے بندوں کی ضروریات کو سامنے رکھ کر کسی چیزکو اللہ کی ملکیت میں بشکل وقف دے دیا، اس کا نفع کہاں خرچ ہوگا، یہ واقف کی تعیین پر موقوف ہے، واقف نے جس کا م کے لیے دیا ہے اور اس نے جن مقاصد کے لیے اسے وقف کیا ہے، اس سے سرمو انحراف کی گنجائش نہیں ہے، اگر اس نے غرباء، یتامیٰ، مساکین اور ضرورت مندوں کی ضروریات کی تکمیل کے لیے وقف کیا ہے تو اس کی آمدنی ان ہی مدات میں خرچ کی جائے گی، لیکن اگر اس نے مدارس، مساجد، مسافر خانے وغیرہ کے لیے وقف کیا ہے تو اس کی آمدنی دوسری چیزوں پر خواہ وہ جس قدر بھی ضروری ہوں، خرچ نہیں کی جا سکتی، اسلام میں واقف کی منشا اور مقاصد کی تعیین کا وہی مقام ہے جیسا قرآن واحادیث میں مذکور احکام کا ہے، اسی لیے منشاء واقف کو ”کنص الشارع“ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
کبھی کبھی واقف یہ چاہتا ہے کہ اس کی زمین تقسیم نہ ہو اور اس سے اس کی اولاد ہی نفع حاصل کرے تو وہ اپنے اولاد پر وقف کر دیتا ہے، جس کو وقف علی الاولاد کہتے ہیں، اس کی تولیت کی شکلیں طے کرتا ہے اور ان زمینوں کی آمدنی کا کچھ حصہ خیراتی کاموں کے لیے وقف کر دیتا ہے، شریعت میں اس کی بھی گنجائش ہے اور ہندوستان میں بہت سارے اوقاف کی حیثیت وقف علی الاولاد کی ہے۔
اسی طرح بہت ساری زمین وقف کی وہ ہیں جو نہ تو وقف بورڈ میں درج ہیں اور نہ ہی ان کے کاغذات موجود ہیں، لیکن برسہا برس اور بعضے سینکڑوں سال سے مسجد، قبرستان اور دوسرے کاموں میں استعمال ہو رہے ہیں، شریعت کی نظر میں وہ بھی وقف ہی ہیں اور ان کو نہ تو سرکار کو دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس میں کوئی تبدیلی کی جا سکتی ہے، شریعت نے پورا نظام وقف مسلمانوں کو دیا ہے اس کی ضرورت اور اہمیت کے ساتھ اس کی نفع بخشی اور انتظام وانصرام کا جامع طریقہئ کار بھی عطا کیا ہے، ہم اس کے پابند ہیں کہ اس کے تحفظ کے لیے شرعی نظام کے حساب سے لگے رہیں اور چوں کہ اس کو تبدیل کرنے کا حق کسی کو نہیں ہے اس لیے ایسی تمام کوششوں کو ہم مداخلت فی الدین سمجھیں اور ہر سطح پر دین میں مداخلت کرنے والی قوتوں کو ناکام کرنے کی سعی کریں۔
ہندوستان میں کثرت سے سروے کرنے والوں نے قبرستان اور غیر مزروعہ عام کو بہار سرکار لکھ دیا ہے، حالاں کہ قبرستان کی زمینیں مسلمان مردوں کو دفن کرنے کے لیے وقف کی گئی ہیں، اس لیے سروے میں اسے بہار سرکار لکھ دینا اوقاف کی زمین پر سرکاری قبضہ کے مترادف ہے، بہار میں جدید سروے کا کام شروع ہو گیا ہے، ایسے میں اپنی زمین وجائیداد کے ساتھ گاؤں میں اوقاف کی زمینوں کا سروے بھی وقف کی حیثیت سے کرنا چاہیے، اور اس کے لیے گاؤں اور محلوں کے لوگوں کو سرگرم ہونا ہوگا تاکہ اوقاف کی زمینوں پر سرکاری قبضہ کو روکا جا سکے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی مجلس عاملہ نے ترمیمی بل آنے کے قبل ہی عوام کو بیدار کرنے کے لیے مختلف زون میں وقف بیداری کانفرنس کرنے کا فیصلہ لیا تھا اور طے پایا تھا کہ بہار اڈیشہ جھارکھنڈ اورمغربی بنگال کے خواص کا ایک اجتماع پٹنہ میں کیا جائے اس کی ذمہ داری مفکر ملت، امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم سکریٹری آل انڈیامسلم پرسنل لا بورڈکو دی گئی۔حضرت دامت برکاتہم نے ہم خدام امارت شرعیہ (جن میں کئی آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ارکان ہیں) کے ذریعہ ایک بڑی کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیا، جو پندرہ ستمبر کو باپو مہا سبھاگار نزد گاندھی میدا ن پٹنہ میں منعقد ہو رہا ہے۔ اسی دن شام میں ایک اجلاس ”تحفظ مدارس اسلامیہ“ کے عنوان پر بھی المعہد العالی امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ کے ہال میں منعقد ہوگا، جس میں ناموس مدارس پر ہونے والے حملے کی دفاع کی صورت اور اس کے طریقہ کار پر تفصیلی گفتگو ہوگی، اس سلسلہ کا دعوت نامہ بھی چاروں صوبوں کے ذمہ داران مدارس اور وفاق المدارس الاسلامیہ سے ملحق مدارس تک پہونچا دیا گیا ہے۔
معاملہ وقف کا ہو یا مدارس کا، وقف ایکٹ میں مجوزہ ترمیمات کی بات ہو یا مدارس اسلامیہ کی حیثیت کے ختم کرنے پر بچوں کو اسکول میں داخل کرانے کی سرکاری مہم، دونوں انتہائی خطرناک ہیں، اور اس سے ہمارے ملی وجود اور دین کو خطرہ ہے، اللہ کا شکر ہے کہ مختلف ملی تنظیموں نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی اس مہم پر لبیک کہا ہے اور انہوں نے اپنے اپنے بینر تلے تحفظ اوقاف کی مہم چلا رکھی ہے،امارت شرعیہ مختلف ملی تنظیموں کو اپنے ساتھ لیکر چل رہی ہے اور سرکاری وزراء اور سیاست دانوں سے مل کر مشترکہ میمورنڈم پیش کر رہی ہے،گفتگو کی حد تک ان کی جانب سے مثبت باتیں سامنے آ رہی ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف تنظیموں کے ذریعہ الگ الگ میمورنڈم بھی پیش کیا جا رہا ہے، ہمارے نزدیک یہ طریقہ کار مناسب ہے، جو امارت شرعیہ کر رہی ہے۔ الگ الگ میمورنڈم میں یہ خطرہ ہے کہ کچھ متضاد باتوں کا اندراج میمورنڈم میں نہ ہو جائے؛اس لیے کہ ترمیمی بل کے مسودات کو پڑھ کر نتائج کا اخذ واستنباط اپنی اپنی فہم پر مبنی ہے، ترمیمات کے الفاظ وہی ہیں، لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر آدمی اس کو پڑھ کر وہیں پہونچ جائے، جو حکومت کی منشا ہے، خصوصا اس شکل میں جب قانون کے الفاظ اور اس کے محل استعمال کی نوعیت عام جگہوں پر اس کے استعمال سے الگ ہو اور اس کی معنویت کچھ اور کی متقاضی ہو، بہر کیف کوششیں جس طرف سے بھی کی جا رہی ہیں، قابل تحسین ہیں، اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہندوستان کی چھوٹی بڑی سبھی ملی تنظیمیں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ساتھ ہیں اور سب مسلم پرسنل لا بورڈ کی تجویز کے مطابق ہی آگے بڑھ رہی ہیں، یہ بڑی اچھی بات ہے، امت کا اتحاد ہی ہماری طاقت وقوت کا سر چشمہ ہے اور ہمیں اسے ہر حال میں باقی رکھنا چاہیے