ناموس رسالت کا تحفظ ہی ہماری بقاء ہے

رب العالمین کے بعد جس شخصیت کا ہم پر سب سے زیادہ احسان ہے وہ رحمت للعالمین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اطہر ہے اللہ تعالی نے کائنات کو انسان کے لیے اور حضرتِ انسان کو اپنی بندگی کے لیے پیدا فرمایا. مگر حضرتِ انسان صرف اپنی ناقص عقل سے اللہ کی معرفت، اس کی عبادت اور اس کی رضا کے راستوں کو معلوم نہیں کرسکتا تھا۔ لہٰذا حضرتِ انسان کو صحیح طریقے پر گامزن کرنے کے لیۓ حضراتِ انبیاء علیہم السلام کو وقفے وقفے سے رب العالمین مبعوث فرماتے رہے. جنہوں نے حضرتِ انسان کی کامل رہنمائی کی صرف اعتقاد اور عبادت ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ معاشرت، تعلیم، حقوق، حسنِ اخلاق، تزکیہ وغیرہ تمام ضروریات حیاتِ زندگی ضروریات دین کے سلسلے میں اعتدال کی راہ بتائی۔ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام نے بے لوث ہوکر امت کی رہنمائی کی اور اللہ تعالیٰ کے محبوب بندے ہونے کا ثبوت دیا. مگر دنیا کا قانون ہے کہ ہر شئی کا مبدأ اور منتہیٰ ہوتا ہے ۔ لہذا نبوت کا نقطہ آغاز حضرتِ ابو البشر سیدنا آدم علیہم السلام کو اور نقطۂ انتہاء حضرت خاتم الرسل امام الانبیاء حضرت محمدﷺ کو بنایا ۔ بلکہ یوں کہا جائے کہا نبیاء کوئی معمولی انسان نہیں ہوا کرتے ہیں بلکہ وہ اللہ کے محبوب ترین خصوصی فضل کی وجہ سے تمام انسانی خوبیوں کے پیکر ہوتے تھے اور تمام انسانی و حیوانی رذائل سے پاک ہوتے تھے جنہیں اسلامی اصطلاح میں معصوم کہا جاتا ہے۔ اہل سنۃ والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ انبیاء معصوم ہیں اور صحابہ محفوظ ہیں اور اولیاء موفّق ہیں۔ اللہ کے رسولﷺ کی ذات اقدس اللہ تعالیٰ کے تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ پاکیزہ بااخلاق اور بابرکت ذات ہے اسی لیے مسلمانوں کو ان کی اطاعت، ان سے سچی محبت اور آپ کی عقیدت و محبت کا حکم دیا گیا ہے چنانچہ فرمان الہی ہے : { إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُوا نِي يُحْبِبْكُم الله ” آپ کہہ دیجئے اگرتم اللہ کی محبت چا ہتے ہو تو میری اطاعت کرو اللہ تم سے محبت کرنے لگ جائیں گے ۔ اطاعت رسولﷺ اور رسولﷺ سے محبت کرنا اور جان و مال یہاں تک اپنے والدین اور اہل و عیال سے زیادہ محبت کرنا فرض عین ہے. مگر افسوس آج کل مسلمان اپنے مقصد کو چھوڑ کر اپنے زندگی میں مست ہے کیا ایسی زندگی گزاری جاتی ہے ؟ ایسے تو دوسرے مخلوق بھی زندگی گزار رہی ہے افسوس صد افسوس ہےکہ امت محمدیہ اس مقصد سے نا آشنا اور نادانی میں ایک دوسرے کی مخالفت پر اتر آئی ہے. جس کا فائدہ غیروں نے اٹھانا شروع کردیا اور قرآن پر، رسول پر، شریعت پر، کیچڑ اچھالنے پر تلا ہے اور ہم بس اپنے ہی اختلاف میں مست‌ ہیں۔ آج کل یہ بات عام ہو گئی ہے کہ کوئی پاکھنڈی بابا بناوٹی صوفی سادھوسنت، اور عجیب و غریب طرح کے رنگین کپڑے زیب تن کیے ہوئے، گائے کے نجاست کو پاک اور تبرک سمجھ کر نوش فرمانے والا، کفر کی گندگی میں لت پت، خبیث قسم کے لوگ اپنی گندی زبان سے ہمارے نبیﷺکے شانِ اقدس میں زبان درازی اور گستاخی کرتا ہے اور نازیبہ الفاظ بکتا ہے مگر ہم ہے کہ یا تو خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں یا پھر مصلحت کی گولی کھائے بیٹھے ہیں، اگر کچھ زیادہ ہمیں غصہ آجائے تو ان کے خلاف کاغذی کاروائی کر کے مطمئن ہیں، یا پھر نعرے لگاتے پھرتے ہیں، یا واٹس ایپ پر سٹیٹس لگاتے ہیں گستاخ نبی کی سزا سر تن سے جدا سر تن سے جدا جس کا خاطر خواہ فائدہ نظر نہیں آتا ہے. وقتی طور پر تو جوش اتا ہے لیکن امت محمدیہ ہوش کھو بیٹھ جاتی ہے سچ یہ ہے کہ دنیا اب اسلام کی مخالفت کرتے کرتے تھک چکی ہے دین و شریعت کے ہر حصے کو مجروح کرنے کا پنیترا رَچ کر وہ اب سِپَر ڈالنے کی تیاری میں ہے۔ اس نے ہر وقت اپنی غیر مسعود کاوشوں میں منہ کی کھائی ہے۔ ہر بار اسے ہزیمت و شکست کا سامنا کرناپڑا ہے۔ اپنی اسی بوکھلاہٹ میں اب وہ مسلمانوں کے جزبات سے کھلواڑ کرنے کے لیئے نیا ایک طریقہ آزمایا ہے اور وہ حربہ ہے: ناموسِ کی توہین وتحقیر اور یہ عمل اس طرح عام ہورہاہے کہ دنیا کے مختلف خِطّوں میں اپنی ذات کے دشمنوں اور انسانیت کے نمک حراموں نے اس ناپاک حرکت کا سلسلۂ جاری کر رکھا ہے وہ دلوں میں بھڑکتی ہوئی اسلام دشمنی کی آگ کو اس ذریعے تسکین بخشنے کی ناکام سعی کرہ رہیں۔ اسلام دشمن کوششوں میں ہر طرف ناکامیاب ہونے کے بعد بالآخر انہوں نے ناموسِ رسالت سے کھلواڑ کا سہارا لیا ہے. ایسی ایسی گندی زبان کا استعمال کیا ہے ان دشمنان اسلام نے کہ جن کے الفاظ نقل کرتے ہوئے میرا قلم رک جائے سہم جائے.

اب پھر سے وقت آن پڑا ہے کہ علمائے دیوبند کی رگِ رحمیّت پھڑک اٹھے اور اپنی خداداد صلاحیتوں اور اسلاف کی برکاتِ باقیات سے ملی ہوئی امدادِ ربانی و فراستِ ایمانی کو بہ روئے کار لائیں اور اس پُر غلاظت حرکتوں کے بارے میں ایسا لائحہ عمل طے کریں جس سے وہ اپنے قدیم دستور کے مطابق اس فریضہ نبوی سے سبکدوش ہو سکیں. اسکے بعد نبوی تعلیمات کی مکمل پیروی اور غیر اسلامی نظریات، افکار، خیالات، عادات، اطوار، تہذیب و تمدن، معاشرت و معیشت، سیاست وغیرہ سے کلی اجتناب کرنا ہوگا. خاص طورپر فیشن پرستی اور مادی افکار کو پوری ہمت اور استقلال کے ساتھ چھوڑنا ہوگا. عالمی طورپر تمام مسلمانوں کو متحد ہوکر U N O(اقوام متحدہ)کو ایسے قانون وضع کرنے پر مجبور کرنا ہوگا، جس میں انبیاء کرام علیھم السلام کی اہانت کرنے والوں کو قتل کی سزا دی جائے.اور اگر ایسا نہ تو ناموسِ رسالت پر حملہ کرنے والوں کو کسی تدبیر سے سزا دینے (قتل کرنے) کی کوشش کرنی چاہئیے ۔

حرف آخر:
ان طریقوں سے ناموس رسالت کی تحفظ کرنی چاہئیں اور اسلامی تعلیمات کو عام کرنا ہوگا اسکے لئے ہر علاقے میں اصلاح معاشرہ کے مجلسوں کے ذریعہ سے انبیاء علیہم السلام کی عظمت پیدا کرنا ہوگا خصوصی طور پر آپﷺ کے تعلیمات کو عام کرنا ہوگا اور آپﷺ کی محبت لوگوں میں پیدا کرنا ہوگا اللہ تعالیٰ ہم سب کو ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے تحفظ کیلئے قبول فرمائیں اور جو دشمنان اسلام ناموسِ رسالت ﷺ کے شان اقدس گستاخی کرتے ہیں انکو دونوں جہانوں میں نیست ونابود فرمائے. آمین

از قلم: شیخ محمود الرحمٰن، گنٹور آندھراپردیش
متعلم دورۂ حدیث دارالعلوم وقف دیوبند

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے