وقف ایکٹ پر جلسے جلوس

ازقلم: مدثر احمد ، شیموگہ
9986437327

مرکزی حکومت کی جانب سے وقف ایکٹ پر جو جس جے پی سی کی تشکیل دی گئی ہے اور جے پی سی کے ذریعے سے ایکٹ پر اپنے اعتراضات اور تجاویزات پیش کرنے کے لئے ہدایت دی گئی ہے اسکے بعد ملک میں ایک طرح سے افراتفری کا ماحول ہے ، کچھ دن قبل تک مسلمان ہی سوشیل میڈیا پر وقف ایکٹ کی مخالفت میں اپنی رائے پیش کرنے کے لئے ای میل کی مہم چلا رہے ۔ بعض جگہ پر تو یہ بھی دیکھا گیا تھا کہ مسلمانوں کے کچھ مذہبی شخصیات سربازار اعلانات کرتے ہوئے مسلمانوں سے وقف ایکٹ کی مخالفت کرنے کے لئے اُکسا رہے تھے ، جس کام کو مسلمان حکمت اور صبر کے ساتھ انجام دے سکتے تھے اس کام کو کھلے عام کرتے ہوئے اب غیروں کو بھی جوابی کارروائی کرنے کا موقع دے چکے ہیں ۔ دو تین دنوں سے ملک کے مختلف مقامات پر ہندو تنظیمیں کھلے طورپر وقف ایکٹ کی حمایت میں رائے حاصل کررہے ہیں جس طرح سے مسلمان مخالفت کرتے ہوئے ای میل بھیجنے کا سلسلہ شروع کئے تھے ۔ ہمیں نہیں لگتاکہ جے پی سی عوامی رائے کو اس قدر سنجیدگی سے لے گی ۔ البتہ مسلمانوں کی جانب سے رائے اکھٹا کرنے کے لئے جو شور شرابہ کیا جارہاہے اس سے یہ بات تو واضح ہے کہ ین آر سی اور سی اے اے کے دوران جیسے ہندو مسلم کا معاملہ گرمایا تھا اسی طرح سے اس معاملے میں بھی ہندو شدت پسند تنظیمیں شدت اختیار کرینگی ۔ ویسے بھی جے پی سی کے سربراہ بھاجپائی ہی ہیں اور وہ جس طرح سے اس معاملے کو لے کر رائے اور تجویز حاصل کرسکتے تھے وہ طریقہ اختیار نہیں کیا ۔ ہر کوئی ایراغیرا حمایت یا مخالفت میں ای میل بھیج دے تو کیا وہ قابل قبول ہے ؟۔ اب یہ بھی دیکھا جارہاہے کہ مختلف سیاسی جماعتوں کے نوجوان اپنی سیاسی روٹیاں سینکھنے کے لئے سڑک کنارے کھڑے ہوکر موبائل فون پر لوگوں سے رائے حاصل کرنے کی کوشش کررہےہیں اور بعض لوگ آنے والے انتخابات کے چلتے اس معاملے کو سیاسی مدعا بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ۔ اس درمیان بعض مقامات پر وقف ایکٹ ، وقف املاک پر بیداری مہم چلانے کے مسلم تنظیموں اور بعض شخصیات کی جانب سے پیش رفت بھی ہورہی ہےاور اسی مقصد کے تئیں جلسوں کا انعقاد کرنے کا منصوبہ بنایا جارہاہے ۔ یقین جانئے مسلمان اپنے مسائل کو جس قدر عوامی سطح پر لےجائینگے اس کا فائدہ فرقہ پرست طاقتیں اتنے ہی بڑے پیمانے پر اٹھائینگے ۔ جب مسلمانوں کے پاس جمعہ کا خطبہ ایک بہترین موقع مسلمانوں کو اپنی بات پہنچانے کے لئے ہے تو اسکے لئے مخصوص پروگرام کرنے کی ہرگز بھی ضرورت نہیں ہے ۔ جمعہ کے خطبات کو ہی بیداری لانے کے استعمال کیاجاسکتاہے ۔ کچھ لوگ ایسےبھی ہیں جو ایسے موقعوں کا فائدہ اٹھاکر اپنا فائدہ حاصل کرتے ہیں ، کچھ لوگوں کے لئے ایسے جلسوں میں شرکت کرنا سیزن ہے جس میں وہ ہدیہ تو نہیں مانگتے بلکہ خوشی سے کچھ نہ کچھ لے لیتے ہیں ۔ کیاکبھی آریس یس کو ایسے پروگراموں کا انعقاد کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے ؟۔ کیا آریس یس کے جلسے عوامی جلسوں کے طور منعقد کئے جاتے ہیں ؟۔ نہیں بالکل نہیں ، کیونکہ آریس یس اپنے ہر کام کو مخفی ، سنجیدگی اور حکمت کے ساتھ انجام دیتی ہے جبکہ مسلمان کھایا پیا کچھ نہیں گلاس پھوڑا بارہ آنے کا کی طرح شور کرتے ہوئے اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی مار لیتے ہیں ۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ وقف ایکٹ پر عوامی جلسوں کاانعقاد کرنے کے بجائے دانشور طبقے کو ساتھ لے کر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے