رسول اللہﷺ کا سفر طائف اور اس کی عصری معنویت

خطاب جمعہ

ازقلم: محمد قمر الزماں ندوی، مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ

دوستو، بزرگو اور بھائیو !
ہم اور آپ سب ماہ ربیع الاول کے مہینے سے گزر رہے ہیں، یہ مہینہ یقینا انسانیت کے لیے پیام امن اور باد بہاری کا مہینہ ہے ،اسی لیے تو اس مہینے کو ماہ ربیع کہا جاتا ہے ۔
اس مہینہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے مختلف گوشوں کو اجاگر کرنا یقینا باعث ثواب ہے ۔ آپ کی زندگی اور کار نبوت کا ایک اہم گوشہ اور حصہ دعوت اسلام کے لیے آپ کا طائف کا سفر بھی ہے ،وہاں آپ کے ساتھ جو سلوک ہوا ،وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا سب سے مشکل اور دشوار مرحلہ تھا ،آپ نے اپنی زبان مبارک سے اس کا اظہار فرمایا ۔۔ آج کی اس مجلس اور خطاب جمعہ میں سفر طائف اور اس کے اثرات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا تاکہ اس کے تذکرہ سے موجودہ مشکل حالات سے مقابلہ کرنا اور اپنے اندر عزم و ہمت پیدا کرنا آسان ہوسکے ۔
حضرات !
آپ ﷺ کی حیات طیبہ کا ایک انتہائی اہم پہلو اور دعوتی سرگرمی کا حصہ اور گوشہ سفر طائف بھی ہے، اس کی وجہ یہ تھی کہ، مکہ والوں کی مسلسل ضد، عناد اور ہٹ دھرمی اور آپؐ کی دعوت حق کا مسلسل انکار ہوتا رہا، لیکن داعی حق آنحضور ﷺ نے کبھی بھی مایوس و ناامید نہیں ہوئے اور ہمت نہیں ہاری اور برابر دعوت دین و اقامت دین کیلئے اپنی جدوجہد کو جاری رکھا، چنانچہ ایک مرتبہ آپؐ نے اسی سلسلہ میں طائف کی طرف رخ فرمایا تا کہ طائف والوں تک دین کی بات پہنچائی جاسکے۔
سیرت نگاروں نے سفر طائف کے غرض و غایت کے تعلق سے یہ بھی لکھا ہے، کہ،، ابو طالب کے انتقال کے بعد رسول ﷺ کو وہ بہت سی تکلیفیں اور اذیتیں پہنچیں، جن کی ہمت ابو طالب کی زندگی میں قریش والے نہیں کرتے تھے، جب ان اذیتوں کا سلسلہ دراز ہونے لگا اور مشرکین و کفار کی اسلام سے کراہت اور اس کی ناقدری اور حقارت بڑھ گئی، تو رسول ﷺ نے طائف کا قصد فرمایا،، راجح قول یہ ہے، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ سفر نبوت کے دسویں سال شوال کی آخری تاریخوں میں ہوا، (خاتم النبیین از شیخ ابو زہرہ ۵۸۰/ بحوالہ نبی رحمت ص، ۱۹۰ )۔
آپ کا ارادہ اور نیت یہ تھی کہ قبیلہ ثقیف کو اسلام کی دعوت دیں اور ان سے مدد و نصرت کے خواستگار ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو باشندگانِ طائف سے کچھ خیر اور بھلائی کی امید تھی اور اس میں حیرت اورتعجب کی کوئی بات بھی نہیں تھی، اس لیے کہ آپ کے ایام رضاعت قبلیہ بنی سعد میں گزرے تھے، جو طائف کے قریب آباد تھا۔
طائف کی جغرافیائی اہمیت بھی تھی، طائف کا شہر اپنی تمدنی و ثقافتی اہمیت، آبادی کی وسعت، خوشحالی و فارغ البالی میں مکہ کے بعد سکنڈ درجے پر تھا۔ قرآن پاک میں قریش کی زبان سے اسی بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے،،۔
،،و قالوا لولا نزل ھذا القرآن علی رجل من القریتین عظیم،، (سورہ زخرف ۳۱.)
اور یہ بھی کہنے لگے کہ یہ قرآن دونوں بستیوں یعنی مکہ اور طائف میں سے کسی بڑے آدمی پر نازل کیوں نہ کیاگیا۔
یہ شہر طائف مشہور بت،،لات،، کی عبادت کا مرکز بھی تھا، جہاں باقاعدہ لوگ عبادت اور تیرتھ کی غرض سے جاتے تھے، اس بات میں وہ مکہ کا ہم سر و ہم ردیف تھا، جو قریش کے سب سے بڑے بت ہبل کی عبادت کا مرکز تھا، طائف میں موسم گرما میں خوش حال طبقہ گرمیاں گزارتا تھا، عہد اسلامی اور اس کے بعد بھی اس کو یہ اہمت حاصل رہی۔ اموی شاعر عمر بن ربیعہ کا شعر ہے۔
تشتو بمکة نعمت۔۔۔۔۔و مصیفھا بالطائف
اہل طائف زمین دار اور کاشتکار تھے، ان کے پاس بڑے بڑے باغات بھی تھے، اس دولت و ثروت،باغات اور پھلوں کی کثرت اور زمیں داری نے ان کے اندر نخوت، غرور، گھمنڈ،تکبر اور ناز پیدا کردیا تھا۔
بہرحال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نبی مکرم ﷺ نے اپنے ہمراہ زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن حارث کو ساتھ لے کر پیدل سفر کرتے ہوئے طائف کی طرف چل پڑے، جو کہ مکہ سے تقریباً ساٹھ ستر میل کی دوری پر واقع ہے۔ ازراہ سفر آپ ﷺ نے طائف سے قبل دو ۲/ قبیلوں سے ملاقات فرمائی اور انہیں بھی دعوت پیش کی گئی ، لیکن ان قبیلوں نے بھی آپؐ کا ساتھ دینے سے انکار کردیا۔ الغرض آپﷺ نے اپناسفر جاری رکھا، یہاں تک کے آپؐ طائف میں داخل ہوئے۔ آپؐ وہاں پہنچ کر سب سے پہلے ان سرداروں سے ملاقات فرمائی، جو اس علاقے میں اچھا اثر رکھتے تھے، جو آج کی جدید اور ماڈرن اصطلاح میں (VIP)کہا جاتا ہے،غرض کہ آپؐ نے ان کے سامنے وہی بات رکھی کہ تم لوگ اللہ تعالیٰ پر ایمان لاو توحید کے قائل ہو جاؤ ،اور میری رسالت کا اقرار کرو ، تا کہ خسران آخرت سے بچ سکو۔ لیکن ان سرداروں نے بھی آپؐ کی دعوت کے جواب میں بڑا حقارت آمیز رویہ اختیار کیا اور آپؐ کی بات نہ مانی، پھر آپؐ ان منکرین حق سے یوں گویا ہوئے، کہ تم لوگ اپنے ان ، منفی،ناپاک اور نا معقول خیالات و افکار اپنے پاس ہی رکھو ، یعنی اپنے ان خیالات سے لوگوں کو گمراہ مت کرو، یہ بات فرما کر آپؐ نے عام لوگوں کی طرف اپنی دعوت کا رخ پھیر دیا اور اس کام میں آپؐ مصروف ہوگئے ، لیکن اس طرح نبی کریم ﷺ کا عوام الناس کو دعوت دین پیش کرنا طائف کے ان سرداروں کو ناگوار گذرا اور ان ظالموں نے آپؐ کے پیچھے آوارہ، بدقماش اور بدماش لڑکوں کو لگادیا اور آپؐ جہاں بھی جاتے یہ اوباش و بدقماش لڑکے آپؐ کو گالیاں بکتے ہوئے، آپ ﷺ کا پیچھا کرتے اور ڈھیلے اور پتھر مارتے،آپؐ کے خادم حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن حارث ہر طرح سے آپؐ کو زخمی ہونے سے بچاتے، لیکن سرداران طائف کی طرف سے لگادیئے گئے، ان بدماشوں کا انبوہ مسلسل پتھروں کی بارش کرتا ہوا آپؐ کا پیچھا کرتے ہوئے آگے بڑھتا یہاں تک کے نبی ﷺ اور آپؐ کے خادم حضرت زیدؓ (خادم رسول) بھی زخمی ہوگئے اور نبی کریم آقا ئے دو جہا ںصلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت ہوچکی تھی کہ جسم اطہر سے نکلا ہوا خون آپؐ کی جوتیوں میں اس طرح جم چکا کہ آپؐ کے پیر مبارک ان جوتیوں سے چمٹ گئے اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ظالموں نے اپنے ظلم کی انتہا کردی۔
روایت میں آتا ہے کہ
ایسے موقع پر ایک فرشتہ آتا ہے، اور آپؐ سے درخواست کرتا ہے کہ اگر آپؐ اجازت دیں، تو میں پہاڑ اٹھاکر ان اہل طائف پر ڈال دوں ، لیکن آپؐ کو جو کہ رحمت عالم بناکر مبعوث فرمایا گیا تھا ، اسی لئے آپؐ نے فرشتہ کی درخواست کو قبول نہیں فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ یہ قوم مجھے نہیں سمجھ رہی ہے۔ آئندہ ان کی نسلو ںمیں میری دعوت قبول کرنے والے پیدا ہوں گے ، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آج طائف میں ہر طرف مسلمان پائے جاتے ہیں۔
جب عتبہ بن ربیعہ اور شیبہ بن ربیعہ نے آپ کی یہ حالت دیکھی تو ان کا دل کچھ نرم پڑا اور ان کی رگ انسانیت میں کچھ حرکت اور جنبش پیدا ہوئی، ان دونوں نے ایک نصرانی غلام کو بلایا، جس کا نام،، عداس،، تھا، اور اس سے کہا لو یہ انگور کا خوشہ ایک طباق میں رکھ کر، اس شخص کے پاس لے جاؤ اور کہو کہ یہ ان کے کھانے کے لیے ہے، عداس نے اس پر عمل کیا، اور رسول ﷺ کی گفتگو سن کر اور آپ صلی اللہ علیہ کے اخلاق کریمانہ دیکھ کر مسلمان ہوگیا، (سیرت ابن ہشام جلد ۱/ ۴۱۹/۴۲۲)
طائف میں آپ کو جتنا ستایا گیا وہ مشرکین مکہ کی ایذا رسانیوں سے کہیں زیادہ تھا، اس مشکل اور کٹھن موقع پر بے ساختہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب و زبان پر یہ دعا جاری ہوئی اور آپ نے اللہ تعالیٰ سے اپنی کمزوری، بے سروسامانی اور لوگوں کی نگاہ میں بے وقعتی کی فریاد کی اور اللہ سے نصرت و تائید کے ان الفاظ میں خواستگار ہوئے۔
الھم الیک اشکو ضعف قوتی، وقلت حیلتی، وھوانی علی الناس، یا ارحم الراحمین انت رب المستضعفین الی من تکلنی، الی بعید یتجمھنی، ام الی عدو ملکتہ امری، ان لم یکن بک غضب علی فلا ابالی، غیر ان عافیتک ھی اوسع لی، اعوذ بنور وجھک الذی اشرقت لہ الظلمات و صلح علیہ امر الدنیا و الآخرة من ان ینزل بی غضبک اویحل علی سخطک، لک العتبی حتیٰ ترضی ولا حول ولا قوة الا باللہ۔۔
بارالہا ! اپنی کمزوری، بے سروسامانی اور لوگوں میں تحقیر کے بابت تیرے سامنے فریاد کرتا ہوں تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے، درماندہ اور عاجزوں کا مالک تو ہی ہے اور میرا مالک بھی تو ہی ہے ، مجھےکس کے سپرد کیا جاتا ہے، کیا بیگانہ ترش رو کے، یا اس دشمن کے جو کام پر قابو رکھتا ہے، اگر مجھ پر تیرا غضب نہیں تو مجھے اس کی پرواہ نہیں، لیکن تیری عافیت میرے لیے زیادہ وسیع ہے، میں تیری ذات کے نور سے پناہ چاہتا ہو جس سے سب تاریکیاں روشن ہوجاتی ہیں، اور دنیا و دین کے کام اس سے درست ہوجاتے ہیں کہ تیرا غضب مجھ پر اترے یا تیری نارضا مندی مجھ پر وارد ہو، مجھے تیری ہی رضا مندی اور خوشنودی درکار ہے اور نیکی کرنے یا بدی سے بچنے کی طاقت مجھے تیری ہی طرف سے ملتی ہے۔ ( نبی رحمت)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مکہ واپسی کے بعد پھر دشمنان اسلام کی طرف سے آپ ﷺ پر مصائب و الام کا لامتنائی سلسلہ جاری رہا۔ اس دین رحمت کی خاطر آپ پتھر کھائے اور اسی دین حنیف کے غلغلہ کیلئے آپؐ نے اپنے وطن عزیز شہر مکہ کو چھوڑا اور ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لے گئے اور اسی دین فطرت کی خاطر کفاران قریش کی طرف سے جنگ مسلط کردی گئی تھی،آپؐ اور آپ کے اصحابؓ کو مدینے میں بھی چین سے رہنے نہ دیا گیا لیکن داعی اعظم،رحمت عالم محمد ﷺ نے خدا کے دین کوخدا کے بندوں تک پہنچانے اور اس کے احکام اس کی زمین پر نافذ کرنے،کلمہ حق کو بلند کرنے اور کلمہ کفر کو پست کرنے اور ختم کرنے کیلئے اور اقامت دین کی خاطر پوری شدت کے ساتھ او رحکیمانہ انداز سے جمے رہے اور اپنے اصحابؓ کو بھی اسی کی تلقین فرماتے رہے اتنی مشکلات اور مصائب جھیلنے کے باوجود آپ ﷺ اور آپؐ کے صحابہؓ کی استقامت میں ذرا برابر فرق نہیں آیا۔
تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ نبی ﷺ کی ۲۳ سالہ انتھک جدوجہد کے نتیجہ میں اللہ نے سرزمین عرب سے شرک کا خاتمہ کردیا اور توحید کا بول بالا ہوگیا، نبی کریم ﷺ کی عظیم قیادت میں اسلامی تحریک کا قافلہ روز بروز آگے بڑھتا گیا اور اس راستہ میں اہل ایمان ہر طریقے سے اپنی قربانیاں پیش کرتے رہے اور اللہ کی طرف سے جو بھی آزمائش ہوتے رہی اس میں ثابت قدم رہے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں فتح عطا فرمائی یعنی ایک دن ایسا بھی آچکا کہ جو لوگ محض اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کی پاداش میں مکہ مکرمہ سے نکالے گئے تھے وہی لوگ اپنے عظیم قائد سرکار دو جہاں ﷺ کے ساتھ فاتحانہ حیثیت سے مکہ شہر میں داخل ہوئے مرکز توحید کعبۃ اللہ کے اندر جتنے بت تھے یہ سب کے سب نکال دیئے گئے ایک وہ وقت بھی آگیا کہ دنیا کا ایک بڑا حصہ اسلامی پرچم تلے جمع ہوگیا۔
آج شیطان ملعون پرانے مشرکانہ عقائد و اعمال کو نیا لبادہ پہنا کر اولاد آدم کے سامنے پیش کررہا ہے،صیہونی طاقتیں اسلام کے خلاف کچھ اس طرح کی نامسعود حکمت عملیاں اپنائے ہوئے ہیں جو بظاہر نظر نہیں آتیں۔
زر پرستی علانیہ ہورہی ہے،مقابلہ حسن کے حسین نام پر قومو ںکی بیٹیاں برہنہ کردی جارہی ہیں، جہیز کی لعنت کی بنا پر روز انہ سینکڑوں خواتین کو تیل ڈال کر آگ لگائی جاری ہے اور دیگر طریقوں سے ان معصوموں کی جان لی جارہی ہے،دختر کشی کا عمل بھی ہورہا ہے،خواتین و لڑکیوں کی عزت و آبرو لوٹی جارہی ہے،زنا بالجبر کے واقعات عام سی بات ہوکر رہ گئی ہے،فحاشی و زنابالرضا اور عریانیت انسانی سماج میں پائی جارہی ہے،بناو سنگھار کے بیجا اظہار نے صنف نازک کو تباہی کی طرف لے جارہی ہے مخلوط تعلیمی ادارہ جات نے نوجوانوں کو اخلاقی پستی کی طرف ڈھکیل رہے ہیں،صرف بڑی عمر ہی کے نہیں بلکہ نوجوان طبقہ بھی شراب نوشی کا عادی ہوچکا ہے۔ علاوہ ازیں،اونچی ذات نیچی ذات کے احمقانہ مفروضے قائم ہوگئے ہیں۔ اسلام سے قبل کا وہی سودی نظام پوری شدت کے ساتھ نافذ ہوچکا،جس کی بدولت سرمایہ دار طبقہ غریبوں کا خون چوس رہا ہے،انسانوں کے بنیادی حقوق سلب کرلئے جارہے ہیںاور جس طرح ایام جاہلیت میں بڑے بڑے طاقتور قبیلوں کی اجارہ داری قائم ہوچکی تھی ٹھیک اسی طرح ایک دوسرے انداز سے طاقتور ممالک اور گروہ اپنی اجارہ داری اور دادا گری قائم کرچکے۔
اسلام کے نام سے اٹھنے والی ہر آواز کو دبانے کیلئے ہر طرح کی کوششیں کی جارہی ہیں، یہود و نصاری اور دیگر مشرکین،آقائے نامدار،سرکار دو عالم ﷺ کی شان اقدس میں گستاخیاں کرنے کیلئے نت نئے طریقہ اپنائے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کے قبلہ اول پر ناجائز قبضہ ہوچکا، وہاں کے اصلی باشندوں کو جیل نما علاقہ تک محدود کردیا گیا، اور جب چاہے بم باری کرتے ہوئے ان کے گھروں کو تباہ و برباد کردیا جارہا ہے۔ خود ہمارے اپنے ملک عزیز میں تاریخی بابری مسجد کو جنونیوں نے شہید کردیا اور دیگر عبادت گاہوں پر بری نظریں جمائے ہوئے ہیں۔
مسلمانوں کے تشخص اور ملی شناخت کو ختم کرنے کی دنیا بھر میں کوششیں کی جارہی ہیں اور ملت اسلامیہ کی حالت یہ ہوچکی کہ ان کے ہاتھ لوگوں کو کچھ دینے کیلئے بنائے گئے تھے، لیکن یہی ہاتھ اب صاحب اقتدار لوگوں کے سامنے کچھ تحفظات کیلئے پھیلائے جارہے ہیں یہ اور اس طرح کی دیگر باتیں مسلمانوں کو بحیثیت مرد مومن لمحہ فکر دے رہے ہیں۔
جہالت قدیمہ اور جہالت جدیدہ
حکومت و اقتدار کی خواہش میں ناجائز طریقے اختیار کرنا ذخائر سم و زر کی حرص، بے روک ٹوک جنسی خواہشات کی تکمیل، زن و مرد کی مخلوط تہذیب،عریانی و بے حیائی، جوا شراب نوشی، وطن پرستی و قوم پرستی، جیسے انسانیت سوز اعمال موجب فخر و ناز تھے۔ انسانوں پر انسانو ںکی حکومت تھی۔ یہ حالت صرف عربو ںکی ہی نہیں تھی بلکہ کم و بیش پوری دنیا کی حالت یہی تھی۔( عبد الحفیظ صاحب کی ایک طویل تحریر سے مستفاد)
آج پھر وہی زمانہ جاہلیت کی تصویر دہرائی جارہی ہے، ضرورت ہے کہ دین کے خادم اور داعی اس مقابلے کے لیے تیار ہوں اور نبی کریم ﷺ کی مشن، دعوت اور حکمت عملی کو اپنا کر انسان کو انسان بنانے کا فریضہ انجام دیں اور راہوں کی کٹھنائیوں پریشانیوں اور دشواریوں کو ذرہ برابر رکاوٹ خیال نہ کریں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی و مدنی زندگی سفر طائف، صلح حدیبیہ اور دیگر تمام غزوات اس بات پر گواہ ہیں کہ دین کی راہ میں تکلیفیں اور مصیبتیں آتی ہیں، حالات ناموافق کا سامنا کرنا پڑتا ہے، انبیاء اور رسولوں کی تاریخ ابتلاء و آزمائش سے بھری پڑی ہے۔ حالات و مشکلات اور ابتلاء و آزمائش کے بعد ہی دین کا بلندی اور دین کا غلغلہ ہوتا ہے۔
سفر طائف سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ دین کے داعی اور مبلغ کو حالات اور دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لہذا انہیں حالات سے کبھی بھی ناامید اور مایوس نہیں ہونا چاہیے۔
اگر اپنے تجربہ اور قیاس کی بنیاد پر یہ توقع ہو کہ فلاں علاقہ کے لوگ ہماری بات اور ہماری دعوت کو مان سکتے ہیں، تو وہاں کا سفر کرکے ہ وہاں کے لوگوں میں تبلیغ کرنی چاہیے۔
سفر طائف سے یہ پیغام بھی ملتا ہے، کہ آدمی رخصت پر نہیں عزیمت پر عمل کرے اور کبھی بھی مدعو قوم کے حق میں بددعا نہ کرے اور یہ امید رکھے کہ یہ نہیں تو ان کی آنے والی نسلیں اور اولاد و احفاد ضرور ایمان لائیں گی۔ فرشتے طائف میں آپ کی خدمت میں مدد کے لیے آئے لیکن آپ نے بدعا نہیں کی اور فرمایا بشر ہیں بے خبر ہیں ان کی ہلاکت کی دعا کیوں مانگوں یہ نہیں تو ان کی اولاد ضرور ایمان لائے گی۔
سفر طائف سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ دعوت عوام و خواص دونوں کو دینی چاہیے۔ افراد سازی کے لیے خواص سے خصوصی ملاقات کرنی چاہیے کیونکہ اگر خواص کے دل میں بات بیٹھ جائے تو عوام بھی بات مان لیتی ہے، کیونکہ خواص کے تابع عوام ہوتی ہے، اسی لیے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ ثقیف کے سرداروں سے ملاقات کی۔
سفر طائف سے یہ پیغام بھی ملا کہ دعوت کے کاموں میں تسلسل ہو کبھی انقطاع نہ ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر طائف سے بظاہر ناامید لوٹے لیکن شکست خوردہ نہیں ہوئے، فورا مکہ میں اگلے مشن پر کوشش و عمل اور دعوتی سرگرمی شروع کردی۔
سفر طائف نے یہ بھی بتایا کہ لاکھ دشمنی ہو لیکن خاندانی محبت اور تعلق کی بنیاد پر رگ انسانیت جاگ اٹھتی ہے، عتبہ بن ربیعہ اور شیبہ بن ربیعہ کا دل اسی لیے نرم پڑ گیا اور ضیافت کے لیے کجھور کا خوشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھجوایا۔
سفر طائف سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ داعی کی زندگی پریشانیوں دشواریوں اور ابتلاء و آزمائش سے پر ہوتی ہے ، لیکن ان کے پیچھے نصرت اور فتح چھپی ہوتی ہے۔
سفر طائف سے یہ پیغام بھی ملتا ہے کہ داعی اور خادم دین کو دعوت کے لیے مرکزی علاقہ کا پہلے انتخاب کرنا چاہیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مکہ کے بعد طائف کا سفر کیا جو دوسرے نمبر کا مرکزی شہر تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین تھا کہ اگر طائف کے لوگ مسلمان ہوگئے تو اسلام اور مسلمانوں کو طاقت و قوت حاصل ہوجائے گی اور آس پاس کے لوگ پھر آسانی سے اسلام قبول کرلیں گے کیونکہ طائف کے لوگ اور قبیلہ ثقیف مکہ کے بعد سب سے بااثر لوگوں میں ہیں۔۔۔

ناشر/مولانا علاؤ الدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ 9506600725

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے