یوں تو آزادی کی پہلی صبح سے ہی مسلمانوں کے خلاف سازشوں کے ایک نئے دور شروع ہوا اور اس کی شدت میں وقت کے ساتھ اضافہ ہوتا رہا۔ لیکن گذشتہ دس برسوں بالکل منظم طریقے سے سازشیں کی گئیں جس کے تحت مسلمانوں کے ذاتی اور مذہبی معاملات پر ضرب کاری کی گئی ۔ جس کے سبب مسلمانوں کے تمام شعبوں میں واضح اثرات دیکھنے کو ملے۔ لیکن گذشتہ دنوں وقف ترمیمی بل لاکر مرکزی حکومت نے مسلمانوں کے اقتصادیات پر حملہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ ملک کی آزادی کے بعد پہلا موقع ہے جب مسلمانوں کے اقتصادیات کو متاثر کرنے کے لئے براہ راست قانونی شکل کر عظیم کوشش کی گئی ہے۔ اگر ہم تاریخ کے اوراق پلٹیں تو انگریزوں کے ذریعہ مسلمانوں کو دبانے کی ہر ممکن کوششیں کی گئیں۔ انگریزوں نے سلمانوں کے معیشت کو تباہ کرنے کے لئے حمام جائز و ناجائز ہربوں کا استعمال کیا۔ یہ لازم میں تھا کیونکہ انگریزوں نے مسلمانوں سے نے اقتدار چھینا تھا ۔ لہذا مسلمانوں کو دبانے کی ہر ممکن کوشش بھی لازمی تھی۔ لیکن آج ہندوستان کی سرزمین پر اک دیے پہلے قوم کی آخری امید کو پامال کرنے کی کوشش سمجھ سے مرے ہے۔ ملک میں مسلمانوں کی تقریباً 25 کروڑ کی آبادی کا 90 فیصد غربی کی دلدل میں دھتا ہے۔ اگر شہروں، گاؤں اور قصبوں میں اگر مسلمانوں کی چھوٹی چھوٹی دکانیں اور ٹھیلے نظر آتے ہیں۔ تو ان میں سے مسلمانوں کے روزگار کا ایک بڑا حصہ وقف کی زمینوں میں آباد ہے۔ جس قوم کی ایک بڑی آبادی غریبی کے دلدل میں انکھیں کھولتی ہوں اور چندے کے کفن میں دفن ہوتی ہوں کہیں ایسا نہ ہو کہ وقت کی زمین بھی ہمارے بیشتر جنازوں کے حصے میں نہ آئے۔ کہیں کل ایسا نہ ہو کہ مسلمانوں کی میت کو مرنے کے بعد بھی دو گز زمیں کے لئے بھیک مانگتی نظر آئیں۔ اوقاف کا موجودہ مسلئہ اتنا معمولی اور ہلکا نہیں جیسا کہ مسلمان سمجھ رہی ہیں۔ یاد رکھیں انہیں وقف کی زمینوں میں ہماری عید کا ہیں ہیں۔ بزرگوں کے اشنانے ہیں کربلا اور خانقاہیں ہیں تو مساجد اور مدارس قائم ہیں۔ اگر یہ بل قانوں کی شکل لے لینی ہے تو اپنے اوقات کے حالات کا اندازہ لگانا بہت دشوار نہیں۔ وقف کی ملکیت خدا کی راہ میں ہمارے بزرگوں ابا و اجداد کی عطا کردہ نشانیاں ہیں۔ اگر اس دور کے ہندوستانی مسلمان اسکی حفاظت نہ کرتے تو نہ تو ہماری آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریگیں اور ساتھ آخرت میں اپنے اجداد اور رب کے سانے ہمیں شرمندہ ہونا پڑے گا ۔ ہمارے ساتھ جو حالات آئیں گے اس کے ذمہ دار تو ہم خود
ہوں گے ہی ۔
ابھی یہ دیکھا جا رہا ہے کہ ملک مسلمانوں کے بہت ساری تنظیسی اور جماعتیں ای میل کے ذریعہ اپنی رائے کے اظہار کے تعلق سے عاقل ہیں۔ اور غفلت کا مظاہرہ آج
تک جاری ہے۔ میں تمام جماعتوں ، فرقوں اور تنظیموں سے گزارش کروں گا کہ بروز جمعہ 13 ستمبر بعنی کل ای میل کے تعلق سے آخری دن آخری موقع ملک کا پر مسلمان اپنی ذمہ داری سے اس عمل کو خود بھی کرے اور دوسروں کی مدد کریں ۔ ہماری 25 کروڑ آبادی ہونے کے باوجود اب تک ایک کروڑ ای میل کا نہیں جانا حیرت کی بات اور اس مرده قوم کی غفلت کی نشان ہے۔ میں اکثر یہ کہتا ہوں کہ جمعہ کے دن مسجدوں کے ممبروں سے بڑے برے کام لئے جا سکتے ہیں ۔ کل بروز جمعہ ملک کی تمام مسجدوں میں سے یہ اعلان ہو جائے کہ تمام لوگ رہنا انڈریڈ فون لے کر مسجد آئیں ۔ اور تقریباً 20 منٹ کی جو تقریر ہوتی ہے اس وقت پر محلےکے نوجوانوں کی مدد سے جو لوگ اب تک ای میل نہ کئے ہوں ان کے موبائیل سے ای میل کیا جائے ۔ ہمارے نو جوانوں کی ایک ٹیم لوگوں کی مدد کریں۔ کیونکر مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی کی حاضری جمعہ کے دن مسجدوں میں ہوتی ہے۔ تھوڑی سی محنت سے لاکھوں ای میل آدھے گھنٹے میں بھیجے جا سکتے ہیں ۔ تھوڑی سی بیداری لا کر ہم آدھے گھنٹے میں وہ کام کر سکتے ہیں جنا شاید گذشتہ دوہنے کے دوران نہ کر سکیں ہیں۔ یاد رکھیں کل کا یہ مبارک جمعہ وقف کی حفاظت کے تعلق سے ہمارے لئے آخری جمعہ ہے.
ازقلم: شہاب حمزہ
8340349807