مرحوم کی وفات سےجہاں اہلِ خانہ مضطرب ہیں وہیں علاقےبھرکےخواص وعوام بالخصوص مصباح العلوم روضہ کےتمام ترانتظامیہ،اساتذۂ کرام،ملازمین،طلباوطالبات انگشت بدنداں
رحلتِ عبدالرشیداب کرگئی یوں سوگوار
خطۂ مہولی میں برپاہےیکایک ہاہاکار
13ستمبر2024جمعہ کی شب میں ساڑھےگیارہ بارہ بجےکےدرمیان ہمارےاستاذمرحوم حافظ عبدالرشیدصاحب کےسب سےبڑے برادرزادے(بھتیجے) حافظ عبداللہ صاحب نے موبائل پریہ جانکاہ خبردی کہ حافظ چچا(حافظ عبدالرشیدصاحب)جوابھی دوچارروزقبل ہی تلوجہ فیزٹومیں صاحبزادی کےیہاں بغرضِ علاج فروکش ہوئےاوریکایک طبیعت کی ناسازی پرڈی وائی پاٹل ہاسپٹل نئی ممبئی میں داخل کرائےگئےتھے،اب اس دنیامیں نہیں رہے،پھریہی خبرتکرارکےساتھ کبھی مرحوم کےچھوٹےصاحبزاداےحافظ محمدافضل تواگلےہی آن میں حافظ صاحب کےمرحوم دامادحافظ رفیع احمدصاحب کےبڑےبھائی جناب الحاج عبدالحمید صاحب اور بھتیجوں نےبھی سنائی سچ کہتاہوں کہ میری سماعتوں میں اس خبرکوسننےکی تاب نہیں تھی پوراسراپاتھراگیاآنکھیں بھرآئیں زبان گنگ سی ہوگئی دل ہی دل میں اناللہ واناالیہ راجعون ان للہ مااخذولہ مااعطٰی وکل شیئ عندہ باجل مسمٰی کہہ کرخودکوسنبھالا۔
جس وقت یہ خبرموصول ہوئی کئی جامعہ سراج العلوم بھیونڈی کےکئی اساتذہ اوردیگرمخلص احباب ساتھ تھےحضرت مولاناناصرجمال صاحب قاسمی،
مولاناعبدالعلیم صاحب قاسمی،مولانامحمدایوب صاحب القاسمی،مولاناابوالقمرصاحب،قاری ظفیرالدین صاحب،مومن محمدآصف ابن مرحوم حاجی ابوبکرصاحب اورانصاری شمیم جناب نےسنبھالادیاتسلی کےکلمات کہےاورسبھوں نےمرحوم کےحق میں فی الفوردعائےمغفرت اوربارگاہِ رب العزت میں بلندیِ درجات کی استدعاکی،میں نےجامعہ کےامامِ نمازِفجراورشعبۂ حفظ کےاستاذحافظ عبدالعلیم قاسمی کوبعدِنمازعمومی دعا بعدِتلاوت خصوصی طورپر حضرت حافظ صاحب مرحوم اورپوری امت کےحق میں ایصالِ ثواب،دعائےمغفرت وبلندیِ درجات کےلئےکہہ دیااوریقیناًیہ کام توحضرت مرحوم کےتمام شناساؤں نےیقینی طورپراپنےاپنےحلقۂ اثر میں ضرورہی کیاہوگابس اللّٰہ تعالٰی سےیہی دعاہےکہ مولٰی ان کی قبرکونورسےمنورفرمائے،جنت کےباغوں میں سےایک باغ بنائےاورہمیشہ ان کی تربت پراپنےفضل وکرم کاسائبانِ رحمت وراحت درازرکھے،آمین
حضرت حافظ صاحب مرحوم کی طبیعت عرصہ دوچارماہ سےعلیل چل رہی تھی،بستی،گورکھپوراورلکھنؤکےمعالجین علاج کررہےتھےحافظ صاحب مرحوم کےبڑےصاحبزادےتوسعودی میں ملازمت کی غرض سےدورتھےلیکن ان کےچھوٹےصاحبزادےحافظ محمدافضل صاحب نےماشاءاللہ اپنی طاقت اوربساط سےبڑھ کروالدصاحب کی خدمت کاحق اداکردیا،اللہ تعالٰی حضرت کےدونوں بیٹوں کوصحت وسلامتی اورہرطرح کی سعادتوں سےمالامال فرمائے،آمین
حافظ عبدالرشیدصاحب کی تمام بیٹیوں نےبھی صحت وتندرستی دونوں زمانوں میں باپ کی خدمت کرکےمنظورِنظربنی رہیں،لیکن اب یکایک اس سایۂ عاطفت سےمحرومی یقیناًان بیٹیوں کےلئےسوہانِ روح ہےاللہ تعالٰی تمام اولاداوربھائی بھتیجوں،اعزہ واقرباءکوہمت وحوصلہ کےمرحوم کےجانےکاصدمہ برداشت کرلینے کی طاقت دے،آمین
مرحوم کی علالت وبیماری کی خبرصرف اہلِ خانہ ہی کےلئےبےچینی کاباعث نہیں تھی بلکہ ان کےتمام شاگرد،دوست،احباب اور متعلقین سب کبیدہ خاطر
تھےحضرت کےچہیتےشاگردحضرت مولاناوصی احمدصاحب قاسمی اوردیگراحباب بالخصوص حضرت مولانازبیراحمدصاحب قاسمی،حضرت مولاناابوالحسن صاحب مظاہری،حافظ ابوالکلام صاحب،ہمارےمحترم دوست حضرت مولاناعبدالواحدصاحب قاسمی اورمولاناعبدالغفارصاحب مظاہری باربارفون کرکےحضرت مرحوم کی علالت ونقاہت کی خبریں تسلسل کےساتھ موبائل کےذریعے دیتےرہتےتھےانتقال پرحضرت مولاناعبدالواحدنےصرف ایک جملہ لکھ کراپنےدائمی رنج وکرب کایوں اظہارکیاکہ کہ اب اپنےحلقۂ احباب میں بھی کوئی ایسانظرنہیں آتاجس سےکھل کردل کی بات اوردل کادردسناسکیں۔
واقعی حافظ صاحب مرحوم انتہائی وضع دار،خلیق،ملنساراورمرنجاں مرنج شخصیت کےمالک تھےآپ سےملاقات کرکےہرشخص ایک اپنائیت محسوس کرتاتھا،آپ بڑےصائب الرائےتھےلوگ اپنےمعاملات میں مشورےکےلئےآپ سے رجوع کیاکرتےتھے،سب کی خوشی اورغم میں شرکت لازمی سمجھتےتھے،لوگوں کی کڑوی کسیلی سن کربھی لبوں پرمسکان بکھیرکربرداشت کرلیتےتھے،اسی لئےعوام یاخواص،چھوٹےہوں یابڑےپورےعلاقےمیں سب کےنزدیک حضرت کی ذات گرامی مقبولیت ومحبوبیت کاعکسِ جمیل تھی اورکیوں نہ ہوتی جب کہ مرحوم کی تربیت ایک ایسی عظیم المرتبت ہستی نےکی تھی،جس کےشب وروزکےمشاغل ومعمولات ایسےلائقِ صدرشک تھےکہ جوان سےایک بارملتاان کےحسنِ اخلاق اورشاندارکردارسےایسامتاثرہوتاتھاکہ پھرانھیں زندگی بھر نہیں بھولتاتھااوروہ حضرت مولانامقبول احمدصاحب جونپوری نوراللہ مرقدہ سابق مہتمم مدرسہ عربیہ مصباح العلوم روضہ سنت کبیر نگریوپی کی ذاتِ گرامی مرتبت تھی جنھوں نےاپنی زندگی کاصالح سرمایہ خطۂ مہولی اورآس پاس میں تاحیات لٹایااوراپنی علمی وتربیتی ضیاپاشیوں سےجہالت ،رسوم وخرافات کے تیروتارماحول کوختم کرکےسنت وشریعت انوارات وبرکات سےپورےخطےکوروشن ومنورکردیابہرکیف حضرت حافظ صاحب مرحوم حضرت مولانامقبول احمدصاحب جونپوری سےوالہانہ لگاؤرکھتےتھےاورحضرت بھی انہیں دل سےچاہتےاوراپنی توجہات وعنایات سےبلاخوف لومۃ لائم مالامال کرتےتھے۔
یوں توحضرت حافظ صاحب مرحوم موضع سمری ضلع گورکھپورکےرہنےوالےتھےلیکن انھوں نےمہولی بازارمیں اپنامکان اورکاروبارآبادکرکےاسی کواپناوطن بنالیاتھاآبائی گاؤں میں بھی آناجانارکھتےتھےبھائی بھتیجے،اولادواحباب سےبےانتہاپیارکرتےتھےآپ کا روحانی تعلق قطبِ زماں حضرت مولاناقمرالزماں صاحب دامت برکاتہم العالیہ سےتھابارہااس تعلق اورربط کومہمیزکرنےکےلئےحضرت کےدراقدس پرالٰہ آبادحاضری دیتےاورمعمولات کی پابندی میں کوشاں رہتے تھےنہایت شریف الطبع،بےضررقسم کےبھولےبھالےفرشتہ صفت انسان تھے۔
ہمارےعزیزدوست مولاناعزیزاللہ صاحب(پرنسپل مصباح العلوم ایجوکیشنل سوسائٹی روضہ) صدیقِ محترم حضرت مولاناحبیب اللہ صاحب،
مولانامحمدوسیم صاحب،قاری ثناءاللہ،قاری محمدسلمان صاحب،مولانانظام الدین صاحب قاری عبدالوہاب صاحب ،جناب ماسٹر ارشدصاحب،قاری صغیراحمدصاحب اوردیگرتمام اساتذۂ کرام ٹیچرزحضرات اورہم سب احباب باہم بیٹھ کرتعلیمی وتربیتی امور کےساتھ ساتھ ہنسی مزاح کی باتیں بھی بڑی بےتکلفی سےکرلیاکرتےکرتےتھےلیکن مرحوم کی پیشانی پرکبھی بَل نہیں دیکھا۔
مدرسہ مصباح العلوم روضہ کےمہتمم مفتی منصوراحمدصاحب قاسمی ہوں یامصباح العلوم ایجوکیشنل سوسائٹی روضہ کےمینیجرجناب منشی محمدحسین صاحب یادیگراراکین سب کےسب اس سانحےسےنڈھال ہوکررہ گئےان کےجانےسےجوخلاءپیداہواہےوہ ناقابلِ تلافی سامحسوس ہوتاہے مگرہم اللہ کی ذات سے
پُرامیدہیں کیونکہ خداوندقدوس کاارشاد ہے وماذالک علی اللہ بعزیزبلامبالغہ واضح کرتاچلوں کہ حضرت مرحوم راقم الحروف(حفیظ اللہ حفیظ قاسمی)سےبہت محبت فرماتےتھے،مصباح العلوم روضہ کےنہایت مضبوط ستون ہونےکی حیثیت سےاس کوپروان چڑھانے میں ہمیشہ کوشاں رہتے،سال میں دوباررمضان المبارک اورششماہی تعطیل کےموقعہ مالی فراہمی کی غرض سےجب بھیونڈی واردہوتےتومشرق میں ناچیزاورمغرب میں حاجی سعیداحمدصاحب(سلمٰی عطروالے) حضرت مرحوم کےمیزبان ہواکرتےتھے۔
سوءاتفاق دیکھئےحضرت حاجی سعیداحمدصاحب دنوں کولہاٹوٹ جانےکی وجہ سےآپریشن کےبعدڈاکٹری صلاح کےبموجب بیڈریسٹ کےمکلف اورمامورہیں دعافرمائیں کہ اللہ تعالیٰ حاجی صاحب کوشفاءکاملہ نصیب فرمائے اورانھیں جلدازجلدپیروں پرکھڑاکردےاسی طرح ناچیزکوجب کبھی بھیونڈی سےگاؤں جانےکےلئےاسبابِ کشش کی دل میں جستجوپیداہوتی تھی توکشش کاایک اہم ترین سبب حضرت حافظ عبدالرشیدصاحب مرحوم کی زیارت،ملاقات اورباہم نشست وبرخاست بھی ہواکرتی تھی،
بخدامرحوم کی رحلت میراذاتی نقصان ہے،چنانچہ جب یہ اطلاع میں نے حضرت مولانا حلیم اللہ صاحب قاسمی جنرل سیکریٹری جمعیۃ علماء مہاراشٹر کودی تووہ خودحیرت واستعجاب میں پڑگئےاناللہ پڑھامغفرت کی دعاکی مجھےبھی تسلی دی اورجمعیۃ علماءمہاراشٹرکی طرف سےتمام پسماندگان کےحق میں حصولِ صبروسکون کی دعافرمائی اورجمعیۃ علماء سےوابستہ احباب سےمرحوم کےحق میں ایصالِ ثواب اوردعائےمغفرت کرنےکی گزارش بھی کی۔
اللہ تعالٰی سےایک بارپھرہم سب دعاگوہیں کہ اللّٰہ تعالٰی حضرت کوکروٹ کروٹ جنت الفردوس نصیب فرمائے اورتمام اہلِ خانہ،پسماندگان،متعلقین ومنسبین کوصبرجمیل عطاءفرمائے،آمینایں دعاازمن وازجملہ جہاں آمین باد 14ستمبر2024سنیچرکےروزدوپہرکےوقت مرحوم کی نعش مبارک ہاسپٹل سےاولاًبڑی صاحبزادی کےگھرتلوجہ فیز2میں لائی گئی،تجہیزوتکفین کےبعدنیرول سیکٹر4قبرستان میں لےجائی گئی شام ساڑھےچاربجےنمازجنازہ پڑھی گئی اورڈھیرسارےسوگواروں کی موجودگی میں تدفین عمل میں آئی ۔
حررہ العبد
حفیظ اللہ حفیظ قاسمی بستوی
ناظم تعلیمات جامعہ سراج العلوم بھیونڈی وناظم تنظیم جمعیۃ علماء مہاراشٹر