رسول اللہﷺ کی آمد ہر ایک کیلئے رحمت ہے۔۔۔۔۔!

ازقلم: (مولانا) محمد عبدالحفیظ اسلامی، سینئر کالم نگار وآزاد صحافی حیدرآباد
Cell:9849099228

نبیؐ کی حیات طیبہ میں نوع انسانی کے لیے ہمدردی اور، دنیا وآخرت کے خسارے سے اِنہیں بچانے کےلیے آپؐ کی جو فکر مندی رہی ہے وہ رہتی دنیا تک بہترین مثال ہے۔ اب ہم اسکی ایک جھلک طائف کے اس واقعہ میں دیکھ سکتے ہیں؛ یعنی
سردار دو جہاں کا طائف کا سفر بڑا کٹھن اور انتہائ صبر آزمارہا جو داعیان اسلام کے لیے ہمت و حوصلہ پیدا کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔!!!
چنانچہ آپ ﷺ ، مکہ والوں کی طرف سے ضد اور ہٹ دھرمی اور آپ کی دعوت حق کا مسلسل انکار ہوتا رہا لیکن داعی حق آنحضور ﷺ نے کبھی بھی ہمت نہیں ہاری اور برابر دعوت دین و اقامت دین کیلئے اپنی جدوجہد کو جاری رکھا چنانچہ ایک مرتبہ آپ نے اسی سلسلہ میں طائف کی طرف رخ فرمایا تا کہ طائف والوں تک اپنی بات پہنچائی جاسکے۔ نبی مکرم ﷺ نے اپنے ہمراہ زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن حارث کو ساتھ لے کر پیدل سفر کرتے ہوئے طائف کی طرف چل پڑے جو کہ مکہ سے ساٹھ میل کی دوری پر واقع ہے۔ ازراہ سفر آپ ﷺ نے طائف سے قبل دو قبیلوں سے ملاقات فرمائی اور انہیں بھی دعوت پیش کی گئی لیکن ان قبیلوں نے بھی آپ ﷺ کا ساتھ دینے سے انکار کردیا۔ الغرض آپ ﷺ نے اپناسفر جاری رکھا یہاں تک کے آپ طائف میں داخل ہوئے۔ آپ ﷺ وہاں پہنچ کر سب سے پہلے ان سرداروں سے ملاقات فرمائی جو اس علاقے میں اچھا اثر رکھتے تھے جو آج کی اصطلاح میں (VIP)کہا جاتا ہے، غرض کہ آپ ﷺ نے ان کے سامنے وہی بات رکھی کہ تم لوگ اللہ تعالیٰ پر ایمان لائو اور میری رسالت کا اقرار کرو تا کہ خسران آخرت سے بچ سکو۔ لیکن ان سرداروں نے بھی آپ ﷺ کی دعوت کے جواب میں بڑا حقارت آمیز رویہ اختیار کیا اور آپ ﷺ کی بات نہ مانی پھر آپ ﷺ ان منکرین حق سے یوں گویا ہوئے کہ تم لوگ اپنے ان ناپاک اور نا معقول خیالات اپنے پاس ہی رکھو یعنی اپنے ان خیالات سے لوگوں کو گمراہ مت کرو، یہ بات فرما کر آپ ﷺ نے عام لوگوں کی طرف اپنی دعوت کا رخ پھیر دیا اور اس کام میں آپ مصروف ہوگئے لیکن اس طرح نبی کریم ﷺ کا عوام الناس کو دعوت دین پیش کرنا طائف کے ان سرداروں کو ناگوار گذرا اور ان ظالموں نے آپ ﷺ کے پیچھے آوارہ اور بدماش لڑکوں کو لگادیا اور آپ ﷺ جہاں بھی جاتے یہ اوباش و نابکار لڑکے آپ کو گالیاں بکتے ہوئے آپ ﷺ کا پیچھا کرتے اور ڈھیلے مارتے، آپ کے خادم حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن حارث ہر طرح سے آپ ﷺ کو زخمی ہونے سے بچاتے لیکن سرداران طائف کی طرف سے لگادیئے گئے ان بدمعاشوں کا انبوہ مسلسل پتھروں کی بارش کرتا ہوا آپ کا پیچھا کرتے ہوئے آگے بڑھتا یہاں تک کے نبی ﷺ اور آپ کے خادم حضرت زیدؓ (خادم رسول) بھی زخمی ہوگئے اور نبی کریم آقا ئے دو جہا ںصلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت ہوچکی تھی کہ جسم اطہر سے نکلا ہوا خون آپ ﷺ کی جوتیوں میں اس طرح جم چکا کہ آپ کے پیر مبارک ان جوتیوں سے چمٹ گئے۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ظالموں نے اپنے ظلم کی انتہا کردی۔
حضور ﷺ رحمت عالم
ایسے موقع پر ایک فرشتہ آتا ہے اور آپ ﷺ سے درخواست کرتا ہے کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں پہاڑ اٹھاکر ان اہل طائف پر ڈال دوں لیکن آپ ﷺ کو جو کہ رحمت عالم بناکر مبعوث فرمایا گیا تھا اسی لئے آپ ﷺ نے فرشتہ کی درخواست کو قبول نہیں فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ یہ قوم مجھے نہیں سمجھ رہی ہے۔ آئندہ ان کی نسلوں میں میری دعوت قبول کرنے والے پیدا ہوں گے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آج طائف میں ہر طرف مسلمان پائے جاتے ہیں۔
دشمنان اسلام کی طرف سے آپ ﷺ پر مصائب و آلام کا لامتنائی سلسلہ جاری رہا ہے۔ اس دین رحمت کی خاطر آپ پتھر کھائے اور اسی دین حنیف کے غلغلہ کیلئے آپ ﷺ نے اپنے وطن عزیز شہر مکہ کو چھوڑا اور ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لے گئے اور اسی دین فطرت کی خاطر کفاران قریش کی طرف سے جنگ مسلط کردی گئی تھی، آپ ﷺ اور آپ کے اصحاب کو مدینے میں بھی چین سے رہنے نہ دیا گیا لیکن داعی اعظم،رحمت عالم محمد ﷺ نے خدا کے دین کوخدا کے بندوں تک پہنچانے اور اس کے احکام اس کی زمین پر نافذ کرنے،کلمہ حق کو بلند کرنے اور کلمہ کفر کو پست کرنے اور ختم کرنے کیلئے اور اقامت دین کی خاطر پوری شدت کے ساتھ او رحکیمانہ انداز سے جمے رہے اور اپنے اصحابؓ کو بھی اسی کی تلقین فرماتے رہے اتنی مشکلات اور مصائب جھیلنے کے باوجود آپ ﷺ اور آپ کے صحابہؓ کی استقامت میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا۔
تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ نبی ﷺ کی ۲۳ سالہ انتھک جدوجہد کے نتیجہ میں اللہ نے سرزمین عرب سے شرک کا خاتمہ کردیا اور توحید کا بول بالا ہوگیا، نبی کریم ﷺ کی عظیم قیادت میں اسلامی تحریک کا قافلہ روز بروز آگے بڑھتا گیا اور اس راستہ میں اہل ایمان ہر طریقے سے اپنی قربانیاں پیش کرتے رہے اور اللہ کی طرف سے جو بھی آزمائش ہوتی رہی اس میں ثابت قدم رہے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں فتح عطا فرمائی یعنی ایک دن ایسا بھی آچکا کہ جو لوگ محض اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کی پاداش میں مکہ مکرمہ سے نکالے گئے تھے وہی لوگ اپنے عظیم قائد سرکار دو جہاں ﷺ کے ساتھ فاتحانہ حیثیت سے مکہ شہر میں داخل ہوئے مرکز توحید کعبۃ اللہ کے اندر جتنے بت تھے یہ سب کے سب نکال دیئے گئے ایک وہ وقت بھی آگیا کہ دنیا کا ایک بڑا حصہ اسلامی پرچم تلے جمع ہوگیا۔
حالات حاضرہ
آج شیطان ملعون پرانے مشرکانہ عقائد و اعمال کو نیا لبادہ پہنا کر اولاد آدم کے سامنے پیش کررہا ہے، صیہونی طاقتیں اسلام کے خلاف کچھ اس طرح کی نامسعود حکمت عملیاں اپنائے ہوئے ہیں جو بظاہر نظر نہیں آتیں۔
زر پرستی علانیہ ہورہی ہے،مقابلہ حسن کے حسین نام پر قومو ںکی بیٹیاں برہنہ کردی جارہی ہیں، جہیز کی لعنت کی بنا پر روز انہ سینکڑوں خواتین کو تیل ڈال کر آگ لگائی جاری ہے اور دیگر طریقوں سے ان معصوموں کی جان لی جارہی ہے،دختر کشی کا عمل بھی ہورہا ہے،خواتین و لڑکیوں کی عزت و آبرو لوٹی جارہی ہے،زنا بالجبر کے واقعات عام سی بات ہوکر رہ گئی ہے،فحاشی و زنابالرضا اور عریانیت انسانی سماج میں پائی جارہی ہے،بنائو سنگھار کے بیجا اظہار نے صنف نازک کو تباہی کی طرف لے جارہی ہے، مخلوط تعلیمی ادارہ جات نے نوجوانوں کو اخلاقی پستی کی طرف ڈھکیل رہے ہیں،صرف بڑی عمر ہی کے نہیں بلکہ نوجوان طبقہ بھی شراب نوشی کا عادی ہوچکا ہے۔ علاوہ ازیں،اونچی ذات نیچی ذات کے احمقانہ مفروضے قائم ہوگئے ہیں۔ اسلام سے قبل کا وہی سودی نظام پوری شدت کے ساتھ نافذ ہوچکا،جس کی بدولت سرمایہ دار طبقہ غریبوں کا خون چوس رہا ہے،انسانوں کے بنیادی حقوق سلب کرلئے جارہے ہیںاور جس طرح ایام جاہلیت میں بڑے بڑے طاقتور قبیلوں کی اجارہ داری قائم ہوچکی تھی ٹھیک اسی طرح ایک دوسرے انداز سے طاقتور ممالک اور گروہ اپنی اجارہ داری اور دادا گری قائم کرچکے۔
اسلام کے نام سے اٹھنے والی ہر آواز کو دبانے کیلئے ہر طرح کی کوششیں کی جارہی ہیں، یہود و نصاریٰ اور دیگر مشرکین،آقائے نامدار،سرکار دو عالم ﷺ کی شان اقدس میں گستاخیاں کرنے کیلئے نت نئے طریقہ اپنائے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کے قبلہ اول پر ناجائز قبضہ ہوچکا، وہاں کے اصلی باشندوں کو جیل نما علاقہ تک محدود کردیا گیا، اور جب چاہے بم باری کرتے ہوئے ان کے گھروں کو تباہ و برباد کیا گیا خواتین ومعصوم بچوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں اور اب ملت اسلامیہ کی یہ حالت ہوچکی کہ ان کے ہاتھ لوگوں کو کچھ دینے کیلئے بنائے گئے تھے لیکن یہی ہاتھ اب صاحب اقتدار لوگوں کے سامنے کچھ تحفظات کیلئے پھیلائے جارہے ہیں یہ اور اس طرح کی دیگر باتیں مسلمانوں کو بحیثیت مرد مومن لمحہ فکر دے رہے ہیں کہ وہ سچے وپکے مسلمان بن جائیں ۔

جہالت قدیمہ اور جہالت جدیدہ میں اب کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا،
حکومت و اقتدار کی خواہش میں ناجائز طریقے اختیار کرنا ذخائر سم و زر کی حرص، بے روک ٹوک جنسی خواہشات کی تکمیل، زن و مرد کی مخلوط تہذیب،عریانی و بے حیائی، جوا شراب نوشی، {حب الوطنی کی جگہ} وطن پرستی ، (انسانی ہمدردی کی جگہ) قوم پرستی، جیسے انسانیت سوز اعمال موجب فخر و ناز تھے۔ انسانوں پر انسانو ںکی حکومت تھی۔ یہ حالت صرف عربو ںکی ہی نہیں تھی بلکہ کم و بیش پوری دنیا کا یہی نقشہ تھا۔ ذرا غور سے دیکھئے، تو معلوم ہوگا کہ آج کی نام نہاد مہذب اور ترقی یافتہ دنیا کی بھی وہی حالت ہے۔ مذہبی دنیا ہو کہ لا مذہب دنیا، ان کے معاشرے ان کی تہذیب، ان کے اخلاق و معاملات، ان کی حکومت اور سیاست کا جائزہ لیجئے تو صاف نظر آتا ہے کہ جہالت قدیمہ اور جہالت جدیدہ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ چپہ چپہ پر فتنہ و فساد کی جو آگ بھڑک رہی ہے،انسان انسان ہی سے بد ظن و خائف ہے۔ مزدوروں اور سرمایہ داروں کی جو کشمکش ہے مخلوط تہذیب کے جو حیا سوز کارنامے ہیں، انسانوں پر انسانوں کی حکومت کی جو تباہ کاریا ںہیں یہ تمام جہالت ہی کی ہنگامہ آرائی ہے۔
جہالت قدیمہ بھی الٰہی تعلیم کو بھول جانے کا قدرتی رد عمل تھا اور جہالت جدیدہ بھی الٰہی تعلیم سے اعراض و روگرداں ہونے کا رد عمل ہے، یہ ترقی یافتہ دنیا دراصل ترقی یافتہ جہالت ہے۔ (حوالہ کتاب ’’اسوہ حسنہ ‘‘ حضرت مولانا صفوۃ الرحمن صابرؒ؛ بانی ادارہ اہل سنت الجماعت کمان سلطان شاہی حیدراباد۔ یاد رہے مذکورہ کتاب تقریباً 60 برس قبل لکھی گئی تھی)
نبی کریم ﷺ کی یوم ولادت با سعادت کے مبارک موقع پر دنیا کے سارے مسلمان خوشی مناتے ہیں، خوشی کا اظہار کیوں نہ کریں جبکہ ایک ایسی عظیم ہستی دنیا میں تشریف لائی ہے جو حقیقت میں بہار انسانیت کی نوید لائی ہے لیکن مسلمان صرف سال میں ایک مرتہ چند گھنٹوں کیلئے خوشی کا اظہار کرلیں اور باقی تمام سال آپ ﷺ کی بعثت کے مقصد کو فراموش کردیں،اگر ایسا ہورہا ہے تو فوری اس طرز عمل میں تبدیلی لانا انتہائی ضروری ہے کیونکہ سال میں صرف ایک بار آپ ﷺ کو یاد کرلینا اور باقی ایام میں آپ ﷺ کے اصل مشن کو پس پشت ڈال دینا اہل ایمان کی شان کے خلاف بات ہوگی۔
مختصر یہ کہ رسول اللہ ﷺ کے مشن کو جاری رکھنا اب ہم مسلمانوں کا دینی فریضہ ہے کیونکہ جہاں پر اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو رحمۃ للعالمین کا اعلیٰ اعزاز عطا فرمایا ( جو کہ پہلے کسی کو عطا کیا گیا تھا نہ قیامت تک کسی کو عطا ہوگا) وہیں پر آپ ﷺ کی امت کو بہترین امت کے لقب سے سرفراز فرمایا ہے۔ اس سلسلہ میں ارشاد باری تعالیٰ یوں ہوا ’’تم بہترین امت ہو تمہیں لوگوں کی بھلائی کیلئے نکالا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور بدی سے لوگوں کو روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ پر بھاری ذمہ داری ڈالی ہے کہ نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آپ ﷺ کے مشن (دین حق کے قیام کے لیے ) محنتیں کرتے رہیں تا کہ دنیا سے ظلم و بربریت کا خاتمہ ہو،انسانوں کو ان کے حقوق ملیں،اولاد آدم ایک خدا کی بندگی و غلامی اختیار کریں،زمین پر جھوٹی خدائی کا خاتمہ ہو اور حقیقی معبود کی ہر طرف بڑائی چلے اور سارے عالم میں حقیقی مقتدر اعلی کا قانون جاری و نافذ ہوسکے۔ اس راہ میں اہل ایمان کو تن، من،دھن کی بازی لگانا پڑے گا اور حقیقت یہ ہے کہ ’’مومنوں کی جان و مال اللہ تعالیٰ نے جنت کے عوض خرید لیا ہے۔
اسطرح اب نبیؐ کا لایا ہوا دین اور آپکی شریعت رہتی دنیا تک رحمت ہی رحمت ہے۔
غرض یہ کہ نبیؐ کی اتباع و اطاعت میں سارے انسانوں کی حیات ہے اور اس میں انکی زندگی کی بہار ہے اس کے بغیر نو انسانی ناکام ونامراد ہے۔ تو آئیے !!! آج ہم سب ملکر ؛ خدا تعالی کے بھروسہ اجتماعی طور پر اور انفرادی اساس پر بھی اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ بنیؐ کے مشن کو لیکر اٹھیں گے اور دنیا کو امن امان اور اللہ کی رحمت عامہ میں لے آنے کی جد وجہد کریں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے