رسول اکرمﷺ کا طریقئہ دعوت و تبلیغ

ازقلم: محمد قمرالزماں ندوی
استاذ: مدرسہ نور الاسلام، کنڈہ پرتاپ گڑھ رابطہ نمبر 9506600725

قرآن مجید نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی کواسوۂ حسنہ کی حیثیت سے پیش کیا ہے ۔ فرمایا :’ لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ ‘‘(الاحزاب: ۲۱ )(اور تمہارے لئے اللہ کے رسول ؐ میں بہترین نمونہ ہے )۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت جہاں کئی جہت و اعتبار سے اور کئی حیثیتوں سے ہمارے لئے اسوہ اور نمونہ ہے ، وہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ؐ بحیثیت داعی و مبلغ اور معلم ومربی ہمارے لئے سب سے بہترین نمونہ اور عمدہ آئیڈیل اور اسوہ ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و تربیت اور دعوت و تبلیغ میں حکمت و فراست، لوگوں کی ذھنی سطح اور معیار کا خیال اور مزاج و مذاق کی رعایت کے بھر پور نمونے ملتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعوت و تبلیغ میں لوگوں کی نفسیات اور ذہنی سطح کا بھی خاص خیال رکھتے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں ۔
ذیل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسلوب دعوت وتربیت اور دعوت و تبلیغ میں حکمت و فراست اور لوگوں کی نفسیات کی رعایت کے تعلق سے چند نمونے پیش خدمت ہیں :
۱۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ صحابہؓ کی تعلیم وتربیت کے سلسلہ میں مناسب اوقات کاانتظار کیاجائے اور یہ دیکھا جائے کہ کب اور کس وقت یہ نصائح صدق دل سے قبول کرسکتے ہیں ۔عبد للہ بن مسعود رضی اللہ عنہ راوی ہیں ۔ کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، یتخولنابالموعظۃ فی الایام کراھیۃ السامۃ علینا ۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وعظ و ارشاد میں تخول(وقفہ وقفہ ) سے کام لیتے تھے، تاکہ روزانہ اور ہروقت کی نصیحت سے طبائع اکتا نہ جائیں ،
تعلیم و تربیت کایہ انداز جس کی اہمیت و افادیت کو اس دور کے بہت سے تربیتی اداروں نے اپنایا ہے،اور اس حقیقت کومان لیا ہے کہ تعلیم اسی وقت صحیح نتائج پیدا کرسکتی ہے، جب طلبہ کی نفسیات کا بھی خیال رکھا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ کب اور کس وقت ان کا ذھن وقلب حاضر ہے؟ اور اس لائق ہے کہ تعلیم و تربیت کے اصولوں سے صحیح معنوں میں بہرہ مند ہوسکے ۔
۲۔ حکمت وسلیقہ ایک عجیب عمل ہے اس سے مخاطب کے دل میں رغبت پیداہوتی ہے، اور قبولیت کی فضا ساز گار ہوتی ہے ، نبی کریم ﷺ مخاطب کی نفسیات کاخاص خیال رکھتے تھے ۔ اور ہر ایک کی تربیت ان کے مزاج کوسامنے رکھ کر فرمایا کرتے تھے ، طبرانی کی روایت ہے، کہ قریش کاایک نوجوان جوحیوانیت کے جذبات سے مغلوب تھا، آنحضرت ؐ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ مجھے زنا کی اجازت مرحمت فرمادیجئے ۔ اس کا کہنا تھا کہ حاضرین اس پر لپکے اور اس گستاخی پراس کو خوب ڈانٹا ڈپتا ، آپ ؐ نے یہ دیکھا تو فرمایا: اس سے تعرض نہ کرو، اس کو اپنے قریب بلاکر پوچھا :’’اتحبہ لأمّک ‘ ‘ کیاتم اسے اپنی ماں کے لئے پسند کروگے ؟ اس نے جواب دیا بخدا ایسانہیں ہوسکتا، اس پر آپ ؐ نے فرمایا ، توکیا چاہو گے کہ تمہاری بیٹی کے ساتھ کوئی شخص یہ سلوک روا رکھے ؟ اس نے جواب دیا جی نہیں، میں اسے ہرگزپسند نہیں کرتا۔ اس طرح آپ ؐ نے اس کے دیگر رشتے دار خواتین کا ایک ایک کرکے ذکر کیا اور پوچھا کیاتم پسند کروگے کہ ان سے یہ معاملہ روا رکھاجائے ، تو اس نے ہرسوال کے جواب میں یہی رویہ اختیار کیا،اور کہا ہرگز نہیں ۔ اس کے بعد آپؐ نے اس کی مغفرت کی دعا فرمادی ۔ روایت میں آتا ہے کہ تفہیم و تعلیم کے اس انداز سے یہ اس درجہ متأثر ہوا کہ اس کے بعد یہ ہمیشہ کے لئے تائب ہوگیا اور پھرکبھی گناہ کی طرف ملتفت (متوجہ) نہ ہوا ۔
۳۔ ہرشخص کی ذہنی سطح اور مدارج عقلی میں اختلاف پایا جاتاہے ، آنحضرت ؐ کاقاعدہ تھا کہ آپ ؐ دعوت وتبلیغ اور وعظ وارشاد کے سلسلہ میں ہرشخص کی ذھنی سطح اور اس کے مدارج عقلی کا پورا خیال رکھتے تھے،شہری لوگوں سے ان کے انداز و معیار کے مطابق گفتگو فرماتے تھے ، اور بدوی سے اس کی ذھنیت کے مطابق بات کرتے ، اس کی بہترین مثال حضرت ابو ھریرہؓ کی روایت میں ملے گی، جس میں بنی فزارہ کے ایک شخص کاذکر کیا گیاہے، جو بدوی تھا، ان کا کہنا ہے کہ یہ شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اور کہامیرے یہاں ایک لڑکا پیدا ہوا ہے، جو سیاہ رنگ کا ہے ، میں نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا ہے ۔ کیونکہ ہم میاں بیوی میں کوئی سیاہ رنگ کانہیں ہے ، آنحضرت ؐ نے اس کی سمجھ اور پیشے کے مطابق جواب مرحمت فرمایا۔
اس سے پوچھا : ھل لک من ابلٍ ٫ کیا تمہارے پاس کچھ اونٹ ہیں؟ اس نے کہا ’’جی ہاں ‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا :’’وہ کس رنگ کے ہیں؟‘‘ اس نے کہا’’سرخ رنگ کے ‘‘ آپ نے اس پر سوال کیا ،ان میں کوئی اورق یعنی خاکستر ی رنگ کا یا کم سیاہ رنگ کاکوئی اونٹ بھی ہے؟ اس نے کہا ،ہاں ،ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا: اب تم ہی بتاؤ کہ سرخ رنگ کے اونٹوں میں یہ سیاہی کیسے آگئی ۔ اس شخص نے اس کے جواب میں کہا ممکن ہے، اس کے نسب میں کوئی اونٹ خاکستری یاسیاہ رنگ کا ہو اور اس کی جھلک ہو، جب بات یہاں تک پہونچی تو آپﷺ نے یہ کہہ کراس کے شبہ کودور کردیا ۔ و ھٰذا عسیٰ ان یکون نزعۃ عرقٍ کہ یہاں بھی معاملہ ایسا ہوسکتا ہے کہ یہاں بھی نسب کا کرشمہ کار فرما ہو ،اور اس میں تمہاری بیوی کاکوئی قصور نہ ہو ۔
۴۔ آسانی اور تیسیر بھی ایک اصول تھا، جس کو آںحضرت ﷺ احکام و عبادات میں خصوصیت سے ملحوظ رکھتے تھے ، اور لوگوں کواس بات سے باز رکھتے تھے کہ احکام ومسائل میں تضییق یاتنگی سے کام لیں، عبادات میں تصنع اور سختی کو اپنائیں ،حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے، کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :علموا و یسرو ا ولا تعسروا لوگوں کوتعلیم دو اور آسانی پیدا کرو اور مشکلات سے پر ہیز کرو۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’خیر دینکم ایسر و خیر العبادۃ الفقہ ‘‘ تمہارے دین کا وہ حصہ زیادہ بہتر ہے جو زیادہ آسان اور سہل ہو ، اور بہترین عبادت احکام کی سمجھ بوجھ ہے ۔
۵۔ آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گفتگو میں سامع کے لب و لہجہ ۔ محاورات اور طرز ادا کا بھی خیال رکھتے تھے ، اور یہ بھی دیکھتے تھے کہ اس کاتعلق کس خاندان اور قبیلے سے ہے ، اور خاندان اور قبیلے میں کس نوعیت کی زبان رائج ہے ، خطیب بغدادی ؒ نے عاصم ا شعری ؒ سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو مخاطب فرمایا ۔’’لیس من امبر امصیام فی امسفر‘‘ کہ سفر کے دوران روزہ رکھنا نیکی نہیں،اس طرز تخاطب سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ آپ ﷺ اگر چہ افصح العرب تھے، اور فصیح ترین زبان میں گفتگو فرماتے تھے، تاہم تیسیر، آسانی اور تفہیم کوہرشئی پر مقدم جانتے تھے ۔
۶۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ کا یہ پہلو بھی قابل ذکر ہے کہ آپ ﷺ جب صحا بہ کرامؓ کوکوئی دینی حکم سمجھانا چاہتے ، تو اس کو تین تین مرتبہ دہراتے تاکہ بات نہ صرف دل کی گہرائی میں اتر ے بلکہ لوح قلب پر مرتسم ہوجائے ۔
لیکن اس سے یہ نہ سمجھاجائے کہ یہ آپﷺ کادائمی معمول تھا، آپ ﷺ موقع اور مناسبت کاخیال رکھتے اور اسی انداز میں گفتگو فرماتے جو مقام و محل کے موافق ہو۔
الغرض :پیارے نبی ؐ کاانداز تفہیم ، اسلوب دعوت اور انداز تربیت بڑا پیارا اور دلربا ہواکرتا تھا ، کبھی آپ ﷺ زمین پر لکیریں ڈال کرمخاطب کو سمجھاتے ، تو کبھی واقعات کو زبانی سمجھاتے اور کبھی اشاروں کنایوں کے ذریعہ تفہیم کاحق ادا فرماتے بسااوقات ایسا بھی ہوتاکہ غلطی کرنے والے کی سنگین غلطی کے باوجود اس کی نفسیات کے پیش نظر اسے ڈانٹنا تو دور کی بات ہے، دانٹنے والوں پر آپ ﷺ کا عتاب نازل ہوتا۔ اس کی اصلاح اس محبت و اپنائیت سے کرتے کہ غلطی کرنے والے کی اصلاح بھی ہوجاتی اور اس کے جذبات بھی مجروح نہ ہوتے ۔ کبھی ایسا ہوتا کہ خاطی (غلطی کرنے والے) کی غلطی پر فوراً تنبیہ کرنے کی بجائے اصلاح حال کے لیے مناسب موقع اور محل کا انتظار فرماتے، اور کبھی تو آپﷺ غلطی کی اصلاح کے لیے لوگوں کو جمع فرماتے ۔ اور ارشاد فرماتے :’مابال اقوام یفعلون کذا وکذا ‘لوگوں کوکیا ہوگیا ہے کہ وہ فلاں فلاں حرکتیں کیے جارہے ہیں ۔
اس طرز اصلاح سے جہاں غلطی کرنے والے کی تربیت و اصلاح ہوجاتی ،وہیں دوسرے حضرات متنبہہ ہوجاتے اور ویسی غلطی دہرانے کی ہمت نہ کرتے ۔ بسا اوقات دانستہ غلطی کرنے والے پر سخت ناگوار ی اور ناراضگی کا اظہار بھی فرماتے ،ایک مرتبہ مسجد کی دیوار پر تھوکا ہوا دیکھ کر آپ ﷺ کے چہر ے پر غیض وغضب کے آثار نمودار ہوئے ۔ معاملہ یہ تھا کہ جرم کی سنگینی جاننے کے باوجود اس غلطی کا ارتکاب کیاگیا تھا ، اس لئے اس غلطی کی قباحت اس جیسے طریقۂ تربیت سے دور ہوسکتی تھی ، اور ساتھ ہی آپ ﷺ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے اس گندگی کوصاف کرکے اس فعل کی قباحت کومزید واضح فرمادیا ۔
یہ تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انداز دعوت اور طریقۂ تربیت، لیکن افسوس ہے کہ کتابوں میں آپ ﷺ کا یہ پہلو اور پیار ا اسوہ پڑھنے کو تو ملتا ہے اور تقریروں میں سننے میں آتا ہے ،مگر اس کا عملی نمونہ دیکھنےکو آج آنکھیں ترستی ہیں ، حد تو یہ ہے کہ مدارس عربیہ اور دینی دانشگاہوں میں جہاں دن رات قال اللہ اور قال الرسول کی صدائیں گو بختی ہیں اور جن مدارس کا شجرہ صفۂ نبوی سے ملتا ہے، وہاں بھی اس طریقۂ نبوی ؐ کا خیال نہیں کیا جاتا ، بسا اوقات طالب علم مربی اور اساتذہ حضرات کے نارو اسلوک اور سختیوں کی وجہ سے تعلیم چھوڑ نے پر مجبور ہوجاتے ہیں ، نیکی اور شرافت کے راستے کوہمیشہ کے لیے سلام کہہ دیتا ہے، مگر اس کا نوٹس لینا تو کجا ،اس کا احساس تک نہیں کیاجاتا ہے :

رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی سے معاف
آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے

ناشر/ مولانا علاء الدین ایجوکیشنل، سوسائٹی دگھی، گڈا، جھارکھنڈ 9506600725

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے