تنظیم ابنائے ندوہ بہار کی جانب سے شاہ صاحب کو پر خلوص خراج عقیدت
پٹنہ: 22 ستمبر
حضرت مولانا سید شاہ تقی الدین فردوسی ندوی ندوۃالعلماء کے ممتاز فرزند، خانوادہ منیر شریف کے تابندہ چراغ،خانقاہی عظمت اور اسلاف کی پاکیزہ روایتوں کے امین تھے،انہوں نے پر وقار زندگی گزاری اور آنے والی نسلوں کے لئے انمٹ نقوش ثبت کئے ہیں، ان خیالات کا اظہار حضرت مولانا سید شاہ مشہود احمد قادری ندوی پرنسپل گورنمنٹ مدرسہ اسلامیہ شمس الھدیٰ،پٹنہ ،نائب کنوینر تنظیم ابنائے ندوہ بہار، صدر جمیعۃ علماء ضلع پٹنہ نے کیا،تنظیم ابنائے ندوہ بہار، پٹنہ کی جانب سے منعقد تعزیتی نششت سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شاہ صاحب نے اپنےعلم و عمل سے بہار کا نام عالم عرب میں بھی روشن کیا، ان کی زندگی کا بیشتر حصہ عرب ممالک میں گزرا، باوجود اس کہ وہ اپنے وطن سے ہمیشہ جڑے رہے، اور سبکدوشی کے بعد مستقل بہار میں قیام پذیر ہو گئے،ان کی وفات کا سانحہ بڑا ہے،ان کے انتقال سے بڑا علمی خلا پیدا ہو گیا ہے،اس موقع پر مولانا پروفیسر سرور عالم ندوی صدر شعبہ عربی پٹنہ یونیورسٹی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مولانا سیدشاہ تقی الدین فردوسی ندوی کی شخصیت علم وعمل کے جامع تھی،حضرت مولانا علی میاں ندوی اور حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کے تربیت یافتہ اور ان کے نقش جمیل تھے، عربی زبان پر ان کو مہارت حاصل تھی، انہوں نے عربی اور اردو میں کئ علمی تحقیقی کتابیں تصنیف کی ہیں جو اپنے معیارو مقام کے اعتبار سے بہت اہم ہیں، ان کے انتقال سے ہم نے ایک سرپرست کو کھو دیا اور ندوہ ایک ممتاز شخصیت سے محروم ہو گیا، مولانا غلام سرور ندوی نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ شاہ صاحب بڑے خانوادہ کے عظیم فرد تھے، ان کے ظاہر وباطن میں یکسانیت تھی، ان سے مل کر اپنائیت کا احساس ہوتا تھا، وہ عزیزوں سے بھی بڑی محبت کے ساتھ ملتے تھے، ان کا علمی اشتغال، تحقیقی ذوق اور نظام الاوقات کی پابندی نسل نو کے لیے راہ عمل ہے، مولانا ڈاکٹر نورالسلام ندوی نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شاہ صاحب کا علمی مقام بہت بلند ہے، انہوں جو علمی، ادبی، تحقیقی اور تصنیفی کارنامے انجام دیے ہیں ان کی بدولت وہ تادیر زندہ رہیں گے،ان کو ندوہ اور ندویوں سے بڑی محبت تھی، ندوہ کا تذکرہ نہایت والہانہ انداز سے کرتے، اور حضرت مولانا علی میاں ندوی اور حضرت مولانا رابع حسنی ندوی کا جب تذکرہ کرتے ہو آنکھیں اشکبار ہو جاتیں، وہ بے لوث محبت کرنے والے اور ٹوٹ کر ملنے والوں میں تھے، وہ تنظیم ابنائے ندوہ بہار کے سرپرست تھے، اور اس کے قیام سے بہت خوش تھے،مولانا حامد حسین ندوی نے کہا کہ مولانا کی شخصیت مثالی تھی،ان کو مختلف علوم اور مختلف زبانوں پر مہارت حاصل تھی،مولانا طلحہ نعمت ندوی نے کہا کہ شاہ صاحب کی شخصیت علم و روحانیت کا سنگم تھی،فکر ونظر وسیع اور علم ومطالعہ گہرا تھا،تعزیتی نششت کا آغاز مولانا عمار احمد قادری کی تلاوت قرآن پاک سے ہوا، اس موقع پر مولانا معراج احمد ندوی اور مولانا عبد الحنان ندوی نے بھی اپنے تاثرات کا اظہار کیا، تعزیتی نششت کا اہتمام تنظیم ابنائے ندوہ بہار کی جانب سے مدرسہ اسلامیہ شمس الہدی، پٹنہ میں کیا گیا،تعزیتی نششت میں شاہ صاحب کے لیے مغفرت اور رفع درجات کےلئے دعائیں کی گئیں،اور ان کی دینی وعلمی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔