ازقلم: محمد عظیم قاسمی فیض آبادی
دیوبند 9358163428
کیا دارالعلوم، مسجد رشید ، اس کے آس پاس اور جہاں کہیں بھی آپ کے علاقے میں اسرائیلی مصنوعات سے سجی دکانوں اور اسرائیلی مصنوعات کا بائکاٹ کرکے ہم اپنی غیرت کا مظاہرہ اورامت مسلمہ کو یہ پیغام نہ دیں کہ ہم ہر لمحہ مظلوم فلسطینیوں، اور غزہ کے معصوم کے ساتھ کھڑے ہیں، ہم اسرائیل کے ناجائز قبضے اس کے ظلم ودرندگی کے مخالف ہیں اور آئے دن غزہ میں اسرائیلی درندگی پر عرب ممالک کی خاموشی ایک جرم ہے۔
ہم فلسطینیوں کے ہمددر ومددگار ہیں یا اسرائیل کے، ہمیں اپنے اعمال کا جائزہ لینے کی ضرورت ہےکہ کہیں ہم اسرائیل کی مدد کرکے مظلوم فلسطینوں کے خون میں شامل تو نہیں ہیں ، کہیں فلسطینیوں پر چلنے والی گولیوں کے پیسے خود ہماری جیبوں سے تو نہیں جارہے ہیں اس بات کو جانچنے کےلئے دیکھیں کہ ہم اسرائیلی مصنوعات کا بائکاٹ کررہے ہیں یا اسرائیلی سامانوں کو خرید کر اس کی مدد کرہے ہیں، اسرائیل آج بھی اپنی درندگی وسفاکیت کا مظاہرہ کر رہاہے، بے گھر فلسطینیوں کی پناہ گاہوں کو نشانہ بنا رہاہے، غاصب صہیونی فوج آج بھی امریکہ اور مغربی ممالک کی فوجی مدد سے غزہ نسل کشی کی بھیانک مہم جاری رکھے ہوئے ہے ، صہیونی آج بھی اپنے ناپاک عزائم کو پورا کرنے کے لئے مشرق وسطیٰ پر جنگ مسلط کئے ہوئے ہے ، صہیونی فوج کی وحشیانہ بمباری میں غزہ ،لبنان تک تباہی کے خوفناک مناظر بھکرے ہقئے ہیں،
آج بھی فلسطینی گولیوں بموں اور گھن گرج کر برستے میزائیلوں کے سائے میں جی رہے ہیں، فلسطینی آج بھی یا تو اسرائیل کی درندگی کا شکار زخموں سے چور اسپتالوں میں موت وحیات کی جنگ لڑ رہے ہیں جو زندہ ہیں وہ کھانے پینے، دوا وعلاج اور بنیادی ضروریاتِ زندگی سے محروم دوسروں کے دست نگر بنے ہوئے ہیں اور ہم ہیں کہ بےغیرتی سے آج بھی اپنے آس پاس کی دکانوں سے اسرائیلی مصنوعات خریدنے اس کو فروغ دینے میں مست ہیں ہمارا ضمیر اتنا مرچکا ہے کہ ہمیں کوئی فرق ہی نہیں پڑتا دکان پر کھڑے ہوکر آرام سے آڈر کرتے ہیں کہ صَرَف ایکسل دیجیئے، ایریل چاہئے، پیپسی چاہئے کوکا کولا دیجئے وغیرہ Thums up ,coca cola,Sprait Fanta Dew کیا ان بوتلوں میں ہمیں کولڈرنک کے بجائے غزہ وفلسطینیوں کے خون نظر نہیں آتے ، صَرَف ایکسل، ایریل، Kit kat, Diary milk, kurkurye, Lays, اور دیگر مختلف اشیاء کو ہم جس بےغیرتی سے استعمال کرتے ہیں
کیا ہمیں اس میں معصوم بچوں کی آہیں سنائی نہیں دے رہی ہیں ، کیا سستکے بلکتے اجڑتے زخموں سے چور تڑپتے لوگوں کی چیخ وپکار سنائی نہیں دے رہی ہے،
افسوس اس بات کا کہ بے غیرت مسلمان اسرائیلی مصنوعات سے اپنی دکانوں کو ساجائے ہوئے ہیں اور معصوم فلسطینیوں کے خون میں ڈوبے نوالے عیش وارام کے گدو پر بیٹھ کو توڑ رہے ہیں اور ایسی بےشمار دکانیں کہیں دور نہیں بلکہ مسلم علاقوں ومحلوں میں دیوبند میں دارالعلوم ومسجد رشید کے آس پاس ہیں
حد تو یہ ہے کہ طلبا بھی ایسی دکانوں کا بائکاٹ کرنے کے بجائے خود اسرائیلی اشیاء خدیدتے اس کا استعمال کرتے ہیں
خدا را فلسطین وغزہ کے مسلمانوں کے لئے اگر کچھ نہیں کرسکتے تو کم ازکم اسرائیلی اشیاء کو فروغ دیے کر ان کے خون میں شامل نہ ہوں
اور ایسی تمام دکانوں کا بائکاٹ کردیں جو اسرائیلی مصنوعات کی زینت بنی ہوئی ہیں۔