ناموس رسالت ﷺ، بڑھتی گستاخیاں اور رد عمل !

ایک مسلمان کا اس سے بڑھ کر امتحان کچھ نہیں ہو سکتا کہ وہ عقل و حواس رکھتا ہو اور اس کے سامنے شان رسالت ﷺ میں گستاخی جیسے جرائم انجام دئیے جا رہے ہوں۔ اس کی ایمانی غیرت و حمیت کو ملعونوں اور مجرموں کی طرف سے بار بار للکار لگائی جا رہی ہو۔ اس موقع پر ہر مسلمان کا حواس باختہ ہوجانا ایک فطری بات ہوگی، کیونکہ رسول ﷺ کی محبت کو تمام دانا شخص کے لیے سب سے پہلی حیثیت و منزلت حاصل ہے، والدین ہوں یا بھائی بہن، یا کوئی اور عزیز و اقارب سب پر آپ ﷺ کی محبت کو فوقیت دینا ہی دراصل ایمان کامل کی علامت ہے، لا يؤمن أحدكم حتى أكون أحب إليه من والده و ولده و الناس أجمعين۔ یہ حکم تو جملہ انسانی کے لیے ہے، مگر اس سے پہلے خود خالق کائنات نے آپ کی شخصیت کو یوں پرزنٹ کیا ہے کہ "ورفعنا لک ذکرک "۔ قرآن مجید جو کہ سراپا ہدایت نامہ ہے، اللہ کی زبان ہے، اسی پر جب ہم غور کرتے ہیں تو معلوم چلتا ہے کہ صرف ورفعنا لک ذکرک ہی نہیں بلکہ ایک حروف، لفظ، جملہ، آیت، صفحہ اور پارہ تک میں آپ ﷺ کا عکس جمیل نظر آتا ہے۔ 

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ کسی نے ان سے کہا کہ اللہ کے رسول ﷺ کے بارے میں کچھ بتلائیے تو اماں عائشہ نے دریافت فرمایا: کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ 

علامہ سید سلیمان ندوی ؒ نے آنحضرتﷺ کی شخصیت کو چار حصوں (تاریخیت، تکمیلیت، جامعیت، عملیت) میں تقسیم کیا ہے، اور مدلل انداز میں یہ واضح کر دیا کہ آنحضرتﷺ کی زندگی محض ایک وقت، مذہب، ملک یا طبقہ کے لیے خاص نہیں تھی بلکہ آپ ﷺ ایک عالمگیر شخصیت تھے، ایسی عالمگیریت جس کی شہادت قرآن مجید ان الفاظ دیتا ہے "وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین”۔ 

اسی طرح ایک عظیم محقق مسٹر رابرٹ نے ارادہ کیا کہ دنیا کی سو عظیم ترین و اکمل ترین شخصیت کا تعارف پیش کریں گے، یہ ان کا اپنا اور ذاتی خیال تھا، اسے لکھنے کے لیے کسی شخص یا ادارے کا کوئی جبر بھی نہیں تھا، مسٹر کو اختیار تھا کہ وہ جس حساب سے چاہیں، جسطرح سے چاہیں، جس کو چاہیں، جہاں چاہیں وہاں رکھ دیں، ظاہر ہے اس عظیم کام کے لیے انہیں باقاعدہ تلاش و جستجو کی ضرورت تھی، چنانچہ پوری تیاری اور تگ و دو کے بعد جب سو عظیم شخصیات کی فہرست سازی مع تعارف کا پروجیکٹ دنیا کے سامنے پیش کیا تو عقلیں حیران و ششدر رہ گئیں، بہتوں نے گمان کر رکھا ہوگا کہ مسٹر رابرٹ عیسائی ہیں تو وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اول مقام دیں گے، مگر انہوں نے صداقت و دیانت کا مظاہرہ کیا، اور حضرت محمد ﷺ کو اپنی فہرست میں پہلا مقام دیا، کیونکہ آپ ﷺ کی شخصیت اکیلی سماج و معاشرے کے ایک ایک پہلو کی رہنمائی قولی و عملی دونوں انداز میں کرتی ہے۔ 

مگر ان سب کے باوجود کیا بات ہے کہ کبھی یوروپین ممالک میں تو کبھی خود اپنے برصغیر ہند و پاک میں ایسی عظیم و اعلیٰ ترین شخصیت کے خلاف بعض لوگ کچھ بھی تبصرہ کرنے کی جسارت کر لیتے ہیں، ڈنمارک، اٹلی، ناروے وغیرہ سے اظہارِ رائے کی آزادی کے نام پر جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ اب ہندوستان میں بھی خوب پھل پھول رہا ہے، کملیش تیواری، نپور شرما کے علاوہ اب رام گیری مہراج اور یتی نرسمہا نند سرسوتی جیسے بے شمار حقیر و کم ترین نیز لعین ترین شخص یہاں بھی ہر گلی و نکڑ میں تھوک کے بھاؤ دستیاب ہیں، ان لوگوں کے اندر آخر یہ جسارت آتی کہاں سے ہے؟ اس سلسلے میں یہ چند وجوہات ہیں جس کے سبب ہمارے ملک و معاشرے میں اہانت رسول ﷺ کا مسئلہ دراز ہوتا جا رہا ہے۔

مذہبی تعصب: بعض افراد اور گروہ اسلام اور مسلمانوں سے پوری دنیا میں عموماً اور ہندوستان میں خصوصاً تعصب رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ ایسے اقدامات کرتے ہیں جو اہانت رسول ﷺ کا باعث بنتے ہیں۔ 

اسلاموفوبیا: دنیا میں بڑھتا ہوا اسلاموفوبیا، جہاں اسلام کو انتہاپسند اور متشدد مذہب کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، مسلمانوں کے خلاف نفرت کو بڑھاوا دیتا ہے۔

سیاسی اور سماجی عوامل: ملک میں بعض سیاسی، سماجی و مذہبی شخصیت مذہب اسلام و پیغمبر ﷺ کی شخصیت کو ایجنڈے کے طور پر استعمال کرتے ہیں، اور اپنے مفاد کے لیے مسلسل نشانہ بناتے ہیں۔ 

میڈیا اور سوشل میڈیا کا غلط استعمال: جدید میڈیا اور سوشل میڈیا پر بغیر کسی سنسرشپ کے آزادی اظہار کی آڑ میں اہانت رسول ﷺ جیسے واقعات کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ 

جہالت و نادانی: اہانت رسول ﷺ کا جرم سرزد ہونے کی ایک بڑی وجہ اللہ کے رسول ﷺ کی ذات و صفات سے ناواقفیت ہے، یہ ناواقفیت کبھی جہالت پر بھی مبنی ہو سکتی ہے، اور کبھی نادانی و طغیانی پر۔ 

آزادی اظہار رائے: اسلام و مسلمان سے حسد و دشمنی رکھنے والی بعض طاقتیں اظہار رائے کی آزادی کا مکھوٹا پہن کر اللہ کے رسول ﷺ کی ذات میں گستاخانہ تبصرے کرتے ہیں۔ 

ظاہر ہے جب کسی مذہب کے خلاف زبان درازی ہوگی تو اس ردعمل بھی سامنے آئے گا، تو اس سلسلے میں ہمارا ردعمل کیا ہو چند باتیں پیش ہیں۔ 

احتجاج: ملک میں مسلمان سڑکوں پر نکل کر پر امن چنندہ جگہوں پر احتجاجی خیمے لگائیں، اور حکومت کو وارن کریں کہ جب تک مجرم پر متعینہ قانون کے تحت کاروائی نہیں ہو جاتی تب تک کوئی ہمارے خیمے نہیں ہٹیں گے۔ 

سوشل میڈیا کمپینز: اس موقع پر ہم سوشل میڈیا کا بھی استعمال کر سکتے ہیں، کہ اس کے مختلف پلیٹ فارم کا استعمال کرتے ہوئے اہانت رسول ﷺ کے عالمی مہم چلائیں، تاکہ گستاخی کا جرم بند ہو اور سابقہ مجرمین پر کاروائی ہو۔ 

قانونی کارروائی: آئین ہند کی روشنی میں ہم 295(A) کے تحت کاروائی کی مانگ کر سکتے ہیں، کیونکہ یہ وہ دفعہ ہے جس کی وجہ سے کسی بھی مذہبی شخصیت، عقائد و عبادات کو جان بوجھ کر نادانستہ نقصان و ٹھیس پہنچانا قابل گرفت جرم ہے۔ 

اقتصادی بائیکاٹ: ردعمل کے طور پر بائیکاٹ بھی ایک نہایت کارآمد ہتھیار ہے، ابھی فلسطین و اسرائیل جنگ میں بھی اسی بائیکاٹ مہم کی وجہ سے اسرائیلی کمپنیوں کو کافی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس لیے اس طریقہ کار کو بھی ہم اختیار کر سکتے ہیں۔ 

دعوت اور تبلیغ: یہ طریقہ بھی نہایت اہم ہے، اس کی وجہ سے معاشرے میں تاخیر ہی صحیح مگر دیر پا پیغام جائے گا، لوگوں کے درمیان سے غلط فہمی دور ہوگی، اور انہیں اسلام کو سمجھنے کا موقع ملے گا۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہمیں ایک متوازن ردعمل کی ضرورت ہے، بعض اوقات شدید غصے اور جذبات میں آکر مسلمان ایسے ردعمل دیتے ہیں جو اسلام کی تعلیمات اور نبی کریم ﷺ کی سیرت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اسلام ہمیشہ امن، تحمل اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے، اور نبی ﷺ نے خود بھی مخالفت کا سامنا صبر اور حکمت سے کیا، مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسے واقعات کا سامنا پرامن اور تعمیری طریقے سے کریں، تاکہ اسلام کی حقیقی تصویر دنیا کے سامنے آئے اور نفرت کے ماحول کو ختم کیا جا سکے۔

تحریر: اظفر منصور، ندوۃ العلماء لکھنؤ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے