حسن کردار سے نور مجسّم ہوجا

تحریر: شیرین رحمانی
جبل پورن(7869867896)

اخلاق عربی زبان کے لفظ خلق سے ملکر بنا ہے خَلَقَ کے معنیٰ ہے عدم سے وجود میں لانا ۔اور خلُقَ کا معنیٰ عادت اور ظاہری شکل صورت ہے، پْرانا ’ہونا یا بوسیدہ ہونا۔ اسی طرح عادات ایک چیز کو بار بار کرنے سے بنتی ہے جب وہ چیزیں ہمارے اندر راسخ ہو جاتی ہیں ، ہم سے بے اختیار ہو جا یا کرتی ہیں،ہماری سوچ ہماری ذات کا حصّہ بن جاتی ہے اخلاق کہلاتی ہیں ۔دوسرے لفظوں میں انسان کی وہ عادات اور انسان کا وہ مزاج جو مسلسل ایک کام کے بعد پختہ ہو جا تا ہے اخلاق کہاتا ہے ۔خلق ،اندر کی اس کیفیت کو کہتے ہیں جس کے مطابق ہمارے اعمال ہوتے ہیں ,یعنی ہمارے رویّہ ہمارے اندرکی کیفیت کے تابع ہوتے ہیں ۔
ہم میں سے ہر شخص خوبصورتی پسند کرتا ہے ۔ شاید ہی دنیا میں کوئی ایسا شخص ملے جسے خوبصورتی پسند نہیں ۔ خواہ وہ خوبصورتی کسی کی صورت میں ہو ، پھولوں میں ہو یا کائنات میں ہو جو اسے پسند آتی ہو یہی وجہ ہے کہ ہم میں ہر کوئی اپنی شکل و سیرت یا اپنی ذات کے لئے بہت محتاط رہتا ہے اور وہ اسکو سجانے سنوارنے کی فکر میں لگا رہتا ہے اور اس کے لئے مال بھی خرچ کرتا ہے چونکہ ظاہری شکل و صورت سبھی کو نظر آتی ہے اس لئے ہم اسکی صفائی کا بھی خیال رکھتے ہیں اور صرف صفائی ہی نہی بلکہ میک اپ بھی لگاتے ہیں اور پھرصاف ستھر ا لباس نہیں بلکہ پریس کیا ہوا لباس بھی پہنتے ہیں۔ اور ساتھ میں میچنگ کے ساتھ اور ان سبھی چیزوں میں ہماری توجّہ مرکوزرہتی ہے، لیکن یہ یاد رکھیں کہ کوئی بھی انسان ظاہری شکل و صورت میں خوبصورت نہیں بنا کرتا ہے ،ظاہری شکل و صورت دوسروں کے لئے کشش کا باعث بن سکتی ہیں لیکن انسا ن کی اصل خوبصور تی انسا ن کی اچھی عادات میں ہے ،اس کے اخلاق میں ہیں ، اسکے معاملات میں ہے ، اسکے رویّہ میں ہے اس کے اس طرزِ عمل میں ہے جو انسان دوسروں کے ساتھ اختیار کرتا ہے اور یہ چیزیں ایک دن میں نہیں بنتی۔
تو گویا اچھا اخلاقی محاسن بننے کے لئے صرف مصنوعی ، آرٹیفیشیل ،ظاہری اور وقتی کوششیں فائدہ نہیں دیں گی جب تک کہ ہمار ے اند ر نہیں سنورتا، جب تک یہ چیزیں ہمارے اندر راسخ نہیں ہوتی جب تک ہمارے اندر ان کی بنیاد نہیں بنتی اور جب تک ہم انکو بار بارنہیں کرتے ۔ خلق کو امام غزالی نے فرمایا :‘‘خلُق اندر کی ایک مستقل کیفیت کا نام ہے جس کے مطابق ہمارے اعمال ہوتے ہیں’’
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنانے کے ساتھ ساتھ انسان کو حق اور باطل کا فرق بتانے والی کتاب عطا کی اور انسان کو صحیح اور غلط کی تمیز دی۔ اور اس کو زمین میں اختیارات دینے کے ساتھ ساتھ مسخر کر دیا ۔ اور اس کو یہ آزادی دی کی وہ چاہے تو اس آزادی کا استعمال شریعت کے بتائے ہوئے طریقے پر کرے اور سماج اور معاشرے میں امن و سکون کو قائم کرے ۔ یا پھر بے لگام آزادی کی روش اختیار کرکے انسانی معاشرہ کو نقصان پہنچائے ۔ جس کا نقصان سماج اور معاشرہ کے ساتھ ساتھ اسکی ذات کو بھی ہوتا ہے ۔
آج کے اس دور میں جہاں فحاشی اور عریانیت بڑھتی جار ہی ہے بے پردگی عام ہو رہی وہاں انسان محفوظ نہیں ہے۔ اسلام نے عورت کو کسی بھی فیلڈ میں جانے سے منع نہیں کیا،عورت ہر فیلڈ میں جا سکتی ہے بس اسکاطرزاسلامی ہونا ہو چاہئیے اسکی گفتار اسکا کردار اسکا حلیہ اسکا کلچر اسلامی ہونا چاہئیے ۔ہمیشہ اس کی نگاہیں حدود الٰہی میں رہنا چاہئیے جہا ں اللہ تعالیٰ سوررہ نور میں عورتوں کو پردہ کرنے کا حکم دیا ہے ہے وہیں سب سے پہلے مردوں کو نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم ہے۔
اے نبی ﷺ مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچاکر راور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں(24:30)
اے نبی ﷺ مومن عورتوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچاکر راور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ سنگار نہ دکھائیں بجز اس کے کہ خود ظاہر ہوجائے۔(24:31)
موڈرن کلچر اور رہن سہن لوگوں پر حاوی ہو رہا ہے۔ ہر انسان آزادی آزادی چیخ رہا ہے ۔ عورتوں کو پردے سے آزادی ، مردوں کو کمانے کی آزادی ، بچوں کو اپنی مرضی کی آزادی،۔۔۔جیسے جیسے موڈرن کلچر، موڈرن پرھائی رہن سہن لوگوں پر حاوی ہو رہا ہے ویسے ویسے ہر انسان نفس پرستی میں مبتلا ہوتا چلا جا رہا ہے ۔ جس سے انسانی معاشرہ میں جرائم اور گناہ بڑھتے جا رہے ہیں انسان ذہنی امراض کامریض بنتا جا رہا ہے اپنی خواہشوں کے پیچھے بھاگ رہا ہے جسکے نتیجے میں لوگ نشے کی لت کا شکار ہورہے ہیں نشے کی لت ،فحش ویب سائٹ اور ایپس انسانوں کو ذہنی امراض کا شکار بنا رہے ہیں جسکی وجہ سے خودکشی بھی بڑھتی جا رہے ہے ۔ دنیا میں ہر سال آٹھ لاکھ افراد خودکشی کرلیتے ہیں۔یہ لوگ خدا پرستی سے دور ہوکر نفس کی غلامی میں گرفتار ہوکر سماج اور معاشرے میں خرابی کا سبب بنتے ہیں۔
بے لگام آزادی سے انسان اپنے فائدے کے لئے دوسروں کو نقصان پہچا رہا ہے جس سے معاشرے میں زیادہ تر انسان ، بے امنی ، بے چینی اور ذہنی ا مراض میں مبتلا ہورہے ہیں ۔ وہیں لوگ سوشل میڈیا کے جال میں پھنستے جا رہے ہیں ،جو شیطان کے بچھائے ہوئے ہیں ۔ whatsappاور face book نے انسانوں کے اندر جو ذہنی بدتمیزی کے جال بچھائے ہیں اس کے نقصان سے اللہ ہماری اور ہماری نسلوں کی حفاظت فرمائے۔قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو مخاطب کرکے فریا:
اے لوگوں جو ایمان لائے ہو شیطان کے نقش قدم پر نہ چلواس کی پیروی کوئی کریگا تو وہ اسے فحش اور بدی ہی کا حکم دیگا۔(24:21)
اگر آج سے اس پر غور نہ کیاجائے اس صورتِ حال سے نکلنے کے لئے معاشرے کو بیدار نہ کیا جائے تو اس کا خمیازہ ہماری آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑیگا۔اس کے لئے سماج کے ہر فرد کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے ۔ اس کے لئے سماج کے ہر فرد کو اپنی زندگی قرآن اور سنت کی روشنی میں گزارنے کا عہد کرنا چاہئیے اور یہ بات ذہن میں رکھنا چاہئے اور آپﷺ کواپنی زندگی کا رول ماڈل بناناچاہئیے۔
اچھا اخلاق ہماری زندگی کا ایک قیمتی سرمایا ہے ، جس سے ہماری زندگی ایک مثالی نمونہ بن سکتی ہے۔ اسی طرح اچھے اخلاق والے انسانوں سے ہمارا سماج ایک مثالی سماج بن سکتا ہے ۔ اگر انسان میں اخلاق ختم ہو جائے تو اس میں اورجانور میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ حسنِ اخلاق کا دوسرا نام انسانیت ہے ۔ قوم یا معاشرے کی بنیاد اسی جذبے پر قائم ہوتی ہے۔ جو قوم اور سماج خوش اخلاقی جیسی صفت نہیں اپناتی ان کی بنیادیں کھوکھلی اور نا پائیدار ہو جاتی ہیں ۔ حسنِ اخلاق خندہ پیشانی اور اچھے برتاؤ کی کیفیت ہوتی ہے ۔

حسن کر دار سے نورِ مجسّم ہو جا
کہ ابلیس بھی تجھے دیکھے تو مسلماں ہوجائے

رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا:‘‘ قیامت کے روز میرے سب سے زیادہ نزدیک وہ ہوگا جس کا اخلاق اچھا ہے ’’
اخلاقی محاسن میں بلند انسان ہمیشہ دوسروں کے ساتھ محبت اور احترام کے ساتھ پیش آتا ہے جس طرح پھول خوشبو کے بغیر پھول کہلانے کا حق دار نہیں اسی طرح انسان اخلاق کے بغیر نا مکمل ہے۔ خوش اخلاقی انسان کی فطرت میں ٹھہراؤ پیدا کرتی ہے ۔ عاجزی اور انکساری پیدا کرتی ہے۔ اور معاشرے میں پھیلی برائیوں کا خاتمہ کرنے میں مدد کرتی ہے ،منفی رویوں کا کا اثر زائل کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ صحت مند معاشرہ کی تعمیر میں بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ انسان کے نیک اعمال میں انسانیت اورخوش اخلاقی سے تعلق رکھنے والے افعال سب سے زیادہ خوش گوار ہوتے ہیں۔ اخلاق کے بغیر انسان ایک بے جان جسم کے مانند ہے ۔
آپ ﷺ نے فرمایا :
(بروزقیامت ) مومن کے اعمال میں سے جو چیز میزان میں سب سے زیادہ بھاری ہوں گی وہ اس کے اچھے اخلاق ہوں گے۔ ؑ
آزادی کی ضمانت انسان کو تبھی مل سکتی ۔ جب معاشرے کا ہر انسان اپنے اندر چھپے ہوئے جوہر کو نکھارے۔اپنے اندر رحم دلی ، ایثار و قربانی،کا جذبہ پیدا کریں ۔ آج سے بلکہ ابھی سے ہمیں ہمارے معاشرے کے سدھار کے لئے آگے آنا ہوگا ۔ اور ایک صحت مند معاشرہ بنانے کی پہل کرنا ہوگا۔اس کے لئے سماج کے، معاشرے کے ہر فرد کو ایک اچھا اخلاقی محاسن بننا ہوگا ۔ اور اپنی آنے والی نسلوں کو اچھا اخلاقی محاسن بنانے کی جدّو جہد کرنی ہوگی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے