مسلمانان ہند اور اسد الدین اویسی

یہ سچ ہے کہ سیاست ایک ایسے گلیارے کا نام ہے جہاں ہر عمل کا ایک رد عمل ہوا کرتا ہے اس کی مثال ندی یا نہر سی ہے جس کے ایک سرے پر کی جانے والی حرکت کا اثر دوسرے سرے پر یقینی طور پر ہوتا ہے، یہ کوئی کھیل تماشہ نہیں بلکہ دنیا میں عزت وعظمت کے ساتھ جینے کا ایک مضبوط ستون ہے جس سے کنارہ کشی بہر صورت کسی بھی قوم کو زندگی کے دھارے سے الگ کرنے کا کام کرتی ہے۔

ع ۔ جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

ملک عزیز بھارت کی تاریخ کا ایک طویل ترین باب ہے اور ہر باب اپنے آپ میں بہت کچھ سموئے ہوئے ہے، یہ مختلف ادوار میں متعدد تہذیبوں اور مذہبوں کا مرکز رہا ہے آج بھی اسے دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے، ملک کا قانون اور آئینی کتاب اس کی منہ بولتی تصویر ہے لیکن پچھلے ستر سالوں سے عام طور پر اور دس سالوں سے خاص طور پر ملک کو جس سمت لے جانے کی کوشش کی جارہی ہے وہ بھی کسی سے مخفی نہیں جہاں اصحاب اقتدار ہی آئین وطن کو مسخ کرنے کی قسم کھائے بیٹھے ہیں ، ایسا معلوم ہوتا ہے انہوں نے آئین کی پاسداری کرنے کے بجائے اس کو ختم کرنے کا حلف لے رکھا ہے ۔

یہ کوئی جذباتی تحریر نہیں بلکہ ملک کا وہ منظر نامہ ہے جس کو میڈیا کے غلط استعمال سے چھپایا جا رہا ہے اور لوگوں کو سبز باغ دکھا کر ملک اور اہالیانِ ملک کے مستقبل سے اعلانیہ کھلواڑ کیا جارہا ہے بالخصوص مسلمانوں کو نشانہ بنا کر ملک کی فضا کو مسموم کیا جا رہا ہے ہر انصاف پسند باشندہ وطن جس کا گواہ ہے ، بابری مسجد کی ناجائز اور ظالمانہ شہادت کے بعد سے مسلسل مسلمانوں کی نبض ٹٹولنے کا سلسلہ ہنوز جاری ہے اور معاملہ اس حد تک پہونچ چکا ہے کہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں نازیبا کلمات کہے جاتے ہیں اور پورا ملک خاموش تماشائی بنا رہتا ہے سیکولر جماعتوں کا رونا کیا روئیں مسلمان جس کے ایمان کی بنیاد ہی محبت رسول ہے وہ بھی مصلحت کی دبیز چادر اوڑھ کر اسے برداشت کرتا دکھائی دے رہا ہے اس مجرمانہ خاموشی کے بیچ اگر کوئی آواز اٹھاتا ہے تو انہیں پاگل کہنے والا کوئی اور نہیں مسلمان ہی ہوتا ہے ۔۔۔

نوبت بایں جا رسید کہ انصاف کی آواز لگانے والوں پر سوالیہ نشان لگایا جارہا ہے ، ملک میں مسلمانوں کی حالت زار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں جہاں ہر نئے دن ان کے وجود کو مٹانے کی عملی کوشش کی جارہی ہے برسر اقتدار جماعت کے افراد علی الاعلان آئین مخالف باتیں کرتے ہوئے ملک کی دوسری بڑی اکثریت کے خلاف قانون نافذ کرتے ہیں اور ہم مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ ہم کسی پر اتفاق کرنے کو تیار نہیں، جب کہ مسلم طبقہ کے پاس ایک ایسا چہرہ موجود ہے جس کی قیادت کو تسلیم کرتے ہوئے سیاسی اتفاق نہ صرف یہ کہ ممکن ہے بلکہ بڑی حد تک پیش آمدہ مسائل کا حل موجود ہے لیکن سب سے بڑا مسئلہ ذاتی مفاد کا ہے جہاں ہر ایک کا پانی مرتا ہے، جب تک ذاتی مفاد پر ملت کے مفاد کو ترجیح دینے کا فیصلہ نہیں لیا جائے گا اور ایک مضبوط آواز پر جو اویسی صاحب کی شکل میں موجود ہے اتفاق نہ کیا جائے گا اس وقت تک سیاسی صورت حال کی درستگی انتہائی مشکل امر ہے ۔۔۔

قوم وملت کے فکر مندوں کو ملکی سطح پر اس طرف توجہ دینے کی ضرورت وقت کا تقاضہ ہے امید کہ اس بات کو مثبت رخ سے سمجھنے کی کوشش کی جائے گی ۔۔۔

إن الله لا يغير ما بقوم حتى يغيروا ما بأنفسهم

تحریر: زين العابدين ندوى
مقیم حال لکھنؤ
zainullahkhan786@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے