صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محموداسعد مدنی نے کہا کہ بلڈوزر ناانصافی کی علامت بن چکا ہے
نئی دہلی یکم اکتوبر: سپریم کورٹ نے منگل کو جمعیۃ علماء ہند کی عرضی بنام شمالی دہلی میونسپل کارپوریشن رٹ پٹیشن (سول) نمبر ۲۹۵/۲۰۲۲(اور منسلک کیس) پر سماعت کرتے ہوئے ایک بار پھر کہا کہ سزا کے طور پر کسی بھی شخص کے مکان کو مسمار کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ اس موقع پر وکیلوں نے گجرات اور آسام میں بلڈوزر کی کارروائی کی بھی شکایت کی تو عدالت نے کہا کہ انفرادی واقعات کو بھی دیکھیں گے ، پہلے ہمیں ’پان انڈیا گائیڈ لائن‘ پر کام کرنے دیں ۔
اس موقع پر عرضی گزار صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی نےکہا کہ بلڈوزر اس ملک میں ناانصافی کی علامت بن چکا ہے ، انھوں نے کہا کہ یہ عام تاثر ہے کہ فرقہ پرست طاقتیں مسلمانوں کی مساجد و معابد کی نشاندہی کرتی ہیں اور مقامی حکام فوراً منہدم کردیتے ہیں ، اس سلسلے میں چند ایسے واقعات ہوئے ہیںجو انتہائی افسوسناک ہیں ۔ اس لیے سپریم کورٹ سے وا ضح گائیڈلائن کی امید کی جارہی ہے ۔
جسٹس بی آر گاوائی اور کے وی وشواناتھن پر مشتمل بنچ نے آج جمعیۃ علماءہند کے سینئر وکیل ایم آرشمشاد ، ایڈوکیٹ آن ریکاڈر فرخ رشید ودیگر کی طرف سے پیش کردہ گائیڈ لائن پر فریقین کی رائے پر غور کیا۔ واضح ہو کہ جمعیۃ علماء ہند نے گائیڈ لائن سے متعلق اپنے مشورے میں کہا ہے کہ انہدام سے 60 دن قبل نوٹس دیا جائے جو مقامی زبان میں ہو اور اس میں وجہ بھی بتائی گئی ہو نیز متاثرہ شخص کو 15 دنوں کے اندراپیل کا حق ہوگا اور فیصلے تک انہدام کا عمل نہ کیا جائے۔ بصورت دیگر افسران کو سزا اور متاثرین کو معاوضہ دیا جائے ۔ عدالت نے طرفین کی بحثوں کو سننے کے بعد اگلے فیصلے تک بلڈوزر کارروائی پر روک کو بدستور برقرار رکھا اور کہا کہ ہم جلد ایک حتمی گائیڈ لائن جاری کریں گے۔جسٹس گوائی نے کہا کہ ہم جو بھی ہدایات جاری کریں گے وہ پورے بھارت کے لیے یکساں طور پر لاگو ہوں گے۔جسٹس گوائی نے کہا کہ ہم ایک سیکولر ملک ہیں، یہاں کسی ایک مذہب کو نشانہ نہیں بنایاجاسکتا
بنچ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ فوجداری معاملے میں محض الزام کا عائد ہونا یا کسی مقدمے میں سزا بھی کسی کے گھر کو منہدم کرنے کی بنیاد نہیں بن سکتی۔ سالیسٹر جنرل آف انڈیا تشار مہتا، اتر پردیش، مدھیہ پردیش اور گجرات کی ریاستوں کی نمائندگی کرتے ہوئے، اس بات پر متفق تھے کہ مجرمانہ معاملے میں مبینہ طور پر ملوث ہونا کسی کی عمارت کو گرانے کی بنیاد نہیں بن سکتا۔ تاہم ایس جی نے 17 ستمبر کو عدالت کی جانب سےانہدام پر عائد پابندی کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ حقیقی تجاوزات کو ہٹانے میں رکاوٹ بن رہی ہے۔
سماعت کے دوران، عدالت نے مقامی حکام کی طرف سے انہدام پر’عدالتی نگرانی‘ کی ضرورت پر زور دیا۔ بنچ نے اس بات پر زور دیا کہ انہدام کا نوٹس ایک رجسٹرڈ پوسٹ کے ذریعے اصل مالک کو واجب الادا اعتراف کے ساتھ بھیجا جانا چاہیے۔ اس نے یہ بھی تجویز دی کہ مزید شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے نوٹس اور آرڈرز کو ڈیجیٹائز کر کے آن لائن پورٹل پر اپ لوڈ کیا جا سکتا ہے۔بنچ نے یہ بھی کہا کہ انہدام کے حتمی حکم اور اس کے نفاذ کے درمیان وقت کی ایک کھڑکی ہونی چاہیے تاکہ متاثرہ افراد متبادل انتظامات کر سکیں۔
جسٹس وشواناتھن نے جواب میں کہا کہ چاہے اس کی اجازت نہ ہو…خواتین اور بچوں کو سڑک پر دیکھنا خوش کن منظر نہیں ہے۔ بزرگ سڑکوں پر نکل رہے ہیں۔
سینئر ایڈووکیٹ ایم آر شمشاد نے تجویز دی کہ انہدام سے پہلے نوٹس کی مدت میں مزید اضافہ کیا جائے۔ انہوں نےکہا کہ افسران کو ایک رپورٹ تیار کرنی چاہیے جو اس بات کی تصدیق کرے کہ قوانین کی تعمیل کی گئی ہے تاکہ جوابدہی کو یقینی بنایا جا سکے۔ انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ صرف منتخب گھروں کو نشانہ بنانا درست نہیں ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ صرف ایک محلے کا ایک ہی گھر غیر قانونی ہو، لہٰذا انہدام سے پہلے پورے علاقے کا سروے کیا جائے اور یکساں کارروائی کی جائے۔
سینئر ایڈووکیٹ سنجے ہیگڑے دہلی کے جہاںگیرپوری میں گنیش گپتا نامی شخص کی نمائندگی کر رہے تھے، جس کی جوس کی دکان 2022 میں ہنومان جینتی تشدد کے بعد بلدیہ کی انہدامی کارروائی میں مسمار کر دی گئی تھی۔ ہیگڑے نے کہا کہ اس انہدام کو سیاستدانوں نے پہلے سے میڈیا میں مشتہر کیا اور اسے "میڈیا تماشہ” بنایا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے موکل کو کوئی نوٹس نہیں ملا تھا، اور جو نوٹس حکام نے بھیجا تھا وہ کسی شکنتلا نامی شخص کے نام پر تھا جو ان کے موکل سے ناواقف ہے۔ بنچ نے کہا کہ وہ یہ واضح کرے گا کہ نوٹس رجسٹرڈ مالک کو بھیجا جانا چاہیے۔
عدالت نے اقوام متحدہ کے ہاؤسنگ رائٹس کے ماہر اور دیگر کی طرف سے دائر درخواست کو سننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اس نے براہ راست متاثرہ فریقوں کی بات سن لی ہے۔ عدالت نے اقوام متحدہ کے ماہر کی وکیل ورندا گروور کو کہا کہ وہ اپنی ذاتی حیثیت میں تجاویز دے سکتی ہیں۔
پس منظر
سپریم کورٹ میں 2022 میں دائر درخواستوں کا تعلق دہلی کے جہانگیرپوری میں اپریل 2022 میں ہونے والی انہدامی مہم سے تھا، جسے بعد میں روک دیا گیا۔ عرضی گزاروں نے موقف اختیار کیا تھا کہ حکام سزا کے طور پر بلڈوزر کا استعمال نہیں کر سکتے۔ ستمبر 2023 میں سماعت کے دوران، سینئر وکیل کپل دیو نے حکومتی رویے پر تشویش ظاہر کی تھی ۔ انھوں نے آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت گھر کے حق کا دفاع کیا اور مسمار شدہ گھروں کی تعمیر نو کا مطالبہ کیا تھا۔ مدھیہ پردیش اور راجستھان میں انہدامی کارروائیوں کے خلاف ہنگامی ریلیف کی عرضیاں جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے حال میں داخل کی گئیں، اس کے بعد یہ سماعت ہو رہی ہے۔