عدم تشدد کے مبلغ تحریک آزادی کے علمبردار گاندھی جی

از قلم : مجاہد عالم ندوی
متعلم : ( ایم ۔ اے اردو ) مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد
رابطہ : 8429816993

موہن داس کرم چند گاندھی 2/اکتوبر 1869ء کو پور بندر گجرات میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد کرم چند اتم چندر پور بندر راج کوٹ کے دیوان تھے ۔ گاندھی جی کے دادا پور بندر اور جونا گڑھ کے دیوان رہ چکے تھے ۔ ان کی والدہ پتلی بائی بڑی مذہبی خاتون تھیں ۔ گاندھی جی پر ان کا اثر زندگی بھر رہا ۔ گاندھی جی بھارت کے سیاسی اور روحانی رہنما اور آزادی کی تحریک کے اہم ترین کردار تھے۔ انہوں نے ہمیشہ ستیہ گرہ اور اہنسا کو اپنا کردار بنایا ۔ یہی طریقہ کار ہندوستان کی آزادی کی وجہ بنا ۔ بھارت میں انہیں احترام سے مہاتما گاندھی یا باپو کہا جاتا ہے ۔ گاندھی جی کی یوم پیدائش بھارت میں قومی تعطیل کا درجہ رکھتی ہے۔ اس دن گاندھی جی کے نظریۂ عدم تشدد کو اس طرح سے بیان کیا جاتاہے کہ نئی نسل بھی ان کے اس فلسفہ سے آگاہ ہو سکے ۔ مہاتما گاندھی ایک تاریخ ساز شخصیت کے مالک تھے ۔ انہوں نے اپنے قول ، مضبوط عزائم اور اصولوں کی پابندی کا مظاہرہ کر کے ہندوستان کو غیر ملکی حکومت سے نجات دلانے کے ساتھ ساتھ دنیا کے کئی دوسرے ملکوں کو بھی غیروں کی غلامی سے آزاد ہونے کی راہ دکھائی ۔ گاندھی جی نے ہمیں جو پیغام دیا اور جس پر خود زندگی بھر عمل پیرا رہے ، جن میں قومی اتحاد ، فرقہ وارانہ خیر سگالی، عدم تشدد کا فلسفہ ، ستیہ (صداقت) اور ستیہ گرہ اس قابل ہیں کہ ان پر پوری دیانت داری کے ساتھ آج بھی اگر عمل کیا جائے تو ملک کے اندر اور ملک کے باہر پنپنے والے تشدد اور عدم برداشت کے ماحول کو ہم دور کرسکتے ہیں ۔ گاندھی جی ” ستیہ اور اہنسا” اور ” قومی اتحاد ” پر یقین رکھتے تھے اور بڑے خلوص اور سچی لگن کے ساتھ اس پر عمل کرتے رہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ستیہ اور اہنسا کے ہتھیاروں سے ہی غیر ملکی طاقتوں کو ہرایا جاسکتا ہے۔ اسی لیے ان ہتھیاروں سے کام لینا اپنے ہندوستانی بھائیوں کو سکھانا ہی انہوں نے اپنی زندگی کا خاص مقصد بنا لیا تھا ۔ گاندھی جی نے ستیہ اور اہنسا کے اصولوں کو عملی جامہ پہنا کر ہندوستان کو ذہنی اور سیاسی غلامی سے نجات دلایا۔ اس عظیم طاقت سے ، جس کی حکومت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا ۔یعنی برطانوی سامراج سے پورے پچاس سال تک لڑنا ۔ یہی نہیں وہ صرف برطانوی سامراج کے خلاف لڑتے رہے اور اپنے ملک کے سماجی مسئلوں اور کمزوریوں کو جوں کا توں چھوڑ دیا ۔ ان کی عظمت تو اسی طرح بڑھتی ہے کہ وہ آزادی کے لیے ایک مثالی سپاہی کی طرح لڑتے رہے اور دوسری طرف سماج کی اصلاح اور اس کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتے رہے ۔ آزادی کی جنگ کو انہوں نے اتنی جلدی سماج سے قریب تر کر دیا کہ سماج صدیوں کی غلامی کے لباس کو اتارنے کے لیے فوراً تیار ہو گیا ۔ گاندھی جی دنیا کی راہ سے ہٹ کر اپنے طریقے سے کس طرح کام کرتے تھے اس کی مثال اس سے بڑھ کر کیا ہوگی کہ جب دنیا ایٹمی اور نئے ہتھیاروں کے پیچھے دوڑ لگا رہی تھی تب گاندھی جی اہنسا کو اپنا ہتھیار بناکر پورے ملک میں گھوم رہے تھے۔ گاندھی جی نے اہنسا ستیہ کو بڑے نپے تلے انداز میں بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں : ” اہنسا اور سچائی میرا خدا ہے ۔ جب میں اہنسا کی تلاش کرتا ہوں تو سچائی کہتی ہے اسے میرے ذریعہ تلاش کرو ۔ اور جب میں سچائی کی تلاش کرتا ہوں تو اہنسا کہتی ہے اسے میرے واسطے سے ڈھونڈھو ۔ اہنسا اور ستیہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں ۔ تاہم اہنسا ذریعہ ہے تو سچائی مقصد ہے۔ گاندھی جی ہندوستان سے اہنسا پر عمل کرنے کی اپیل کرتے تھے کیونکہ عدم تشدد کا مقصد یہ ہے کہ غلط کام کرنے والے کو صحیح راستے پر لایا جائے اور پھر ایک نیا اور منصفانہ سماجی نظام قائم کرنے میں اس کی مدد کی جائے ۔ گاندھی جی نے بہت سے موقعوں پر ستیہ گرہ کی، جس میں ملک کے لاکھوں مردوں اور عورتوں نے حصہ لیا ۔ ان کو قابو میں رکھنا اور اہنسا کے راستے پر چلانا کوئی آسان کام نہ تھا ۔ اس کے باوجود ان لوگوں نے جس طرح سے( گاندھی جی کے کہنے کے مطابق ) عمل کیا وہ ایک معجزہ ہی ہے ۔ سچائی اور اہنسا پر مبنی ستیہ گرہ پر عمل کرنا ان معنوں میں ایک بالکل نیا تجربہ تھا کہ سماجی اور سیاسی نا انصافیوں کو دور کرنے کے لیے اتنے وسیع پیمانے پر اس وصول کو انسانی تاریخ میں پہلی بار بروئے کار لایا گیا ۔ گاندھی جی کا کہنا تھا کہ : ” ستیہ اور اہنسا دونوں کی مدد سے آپ دنیا کو اپنے قدموں میں جھکا سکتے ہیں ۔ ستیہ گرہ کا نچوڑ اس کے سوا کچھ نہیں کہ سیاسی و قومی زندگی میں سچائی اور شرافت کو داخل کیا جائے ۔ ایک ستیہ گرہی کو برائی اور برائی کرنے والے کے درمیان فرق کو کبھی بھولنا نہیں چاہیے ۔ ستیہ گرہی کو برائی کرنے والے کی ذات کے خلاف کوئی تلخی دل میں نہیں رکھنی چاہیے ۔ ایک ستیہ گرہی ہمیشہ بدی پر نیکی سے ، غصے پر محبت سے ، جھوٹ پر سچائی سے اور ہنسا پر اہنسا سے غالب آنے کی کوشش کرے گا ۔ گاندھی جی کا ہمارے لیے یہی پیغام تھا کہ دنیا کو بدی سے نجات دلانے کا اہنسا سے بہتر اور کوئی راستہ نہیں ۔ گاندھی جی ساری عمر سچائی اور نیکی کی راہ پر چلتے رہے ، اسی کی وہ اپنے قوم کی تلقین کرتے رہے ۔ گاندھی جی نے اس بات پر زور دیا کہ ہمارے کام کرنے کے سبھی طریقے اور اصول ستیہ اور اہنسا کی کسوٹی پر کھرے اترنے چاہیے۔ وہ ہر ہندوستانی کو تن من دونوں سے صحت مند بنانا چاہتے تھے ۔ اس لیے انہوں نے اپنا پیغام ہم ہندوستانیوں کو سونپا اور یہ ہدایت کی کہ ستیہ (صداقت ) کو اپنی منزل سمجھتے ہوئے ، اہنسا کے راستے پر چل کر ، انسانیت کو فروغ دیتے رہنا ۔ گاندھی جی کے مطابق اہنسا انسانیت کا اولین تقاضا ہے جبکہ ہنسا حیوانیت کا ۔ وہ کہتے تھے کہ اگر ہندوستان تلوار کو اپنا اصول تسلیم کر لے تو اسے فوری جیت تو مل سکتی ہے ، لیکن تب ہندوستان کی عظمت میرے دل سے نکل جائے گی ۔ میرے مذہب کی کوئی سیما نہیں ، میری محبت کسی جغرافیہ کی پابند نہیں ہے ۔

گاندھی جی نے اپنی کتاب ” ہند سوراج ” میں اپنے ہم وطنوں سے یہ سوال کیا تھا کہ :

” سیلف گورنمنٹ” اور "ہوم رول” سے تمہاری کیا مراد ہے؟ کیا تم چاہتے ہو کہ ملک کا نظام جیسا ہے ویسا ہی رہے مگر وہ انگریزوں کے ہاتھ میں نہ ہو بلکہ ہندوستانی سیاسی لیڈروں اور حاکموں کے ہاتھوں میں ہو؟ اگر ایسا ہے تو گویا تمہاری خواہش یہ ہے کہ شیر کے پنجے سے چھوٹ جاؤ مگر شیر کی بہیمی خصلت اپنے اندر باقی رکھو، یا تم سوراج کا وہ مطلب سمجھتے ہو جو میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستانی تہذیب کے سب سے اونچے نصب العین کو عملی جامہ پہنایا جائے ان لوگوں کے ہاتھوں جو انفرادی طور پر اپنے نفس پر قابو رکھتے ہیں اور اجتماعی طور پر ستیہ گرہ کے اصول اور طریقے کے مطابق عمل کرتے ہوں”۔

بحوالہ : ( گاندھی جی اور ان کے خیالات ، مرتبہ عبد الطیف اعظمی )

گاندھی جی کی زندگی اور تعلیمات نے ہمیں یہ پیغام دیا کہ کسی بھی شخص کے خلاف کوئی برائی یا دشمنی کا جذبہ نہیں ہونا چاہیے ۔ کسی کو بھی اپنا دشمن نہیں سمجھنا چاہیے ۔ کسی شخص کے دل میں جو زہر ہے ہمیں اس کے خلاف لڑنا چاہیے اور اس کو ختم بھی کرنا چاہیے ۔ مختصر سے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اہنسا گاندھی جی کا سادھن تھا ۔ سیوا کا کرم تھا ۔ اہنسا کا دوسرا نام وہ پریم مارگ (محبت کا راستہ) دیا کرتے تھے ۔ اور اسی عمل کی وہ ہندوستانیوں سے امید بھی کرتے تھے ۔ اسی طرح گاندھی جی نے مذہب پر بھی زور دیا ۔ ان کا ماننا تھا کہ ہرشخص دوسرے مذاہب کا اتنا ہی احترام کرے جتنا وہ خود اپنے مذہب کا کرتا ہے ۔ گاندھی جی ایک ہندو تھے ، لیکن انہوں نے بڑی عقیدت کے ساتھ دوسرے مذاہب کی کتابوں کا مطالعہ کیا ۔ عیسائیت کے بلند پایہ اخلاقی اصول اور اسلام کا مکمل برابری اور مساوات کا سبق ان کی زندگی کا حصہ بن گیا تھا ۔ اسی طرح بدھ مت کی محبت ، نیکی اور امن کے پیغام نے بھی ان پر گہر اثر ڈالا تھا ۔ بار بار انہوں نے تمام مذاہب کی صداقت کا اعلان کیا ہے ۔ اس تناظر میں یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں : ” میں دنیا کے تمام بڑے مذاہب کی بنیادی سچائی کا معتقد ہوں میں مانتا ہوں کہ یہ سب خدا کے دیئے ہوئے ہیں ۔ اور ان لوگوں کے لئے ضروری تھے جن پر ان مذاہب کا نزول ہوا ۔ میرا یہ بھی عقیدہ ہے کہ اگر ہم مختلف مذاہب کی مقدس کتاب کو ان مذاہب کے پیرؤں کے نقطۂ نگاہ سے پڑھ سکیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ بنیادی طور پر یہ تمام مذاہب ایک ہی ہیں اور ایک دوسرے کے معاون ہیں”۔

( مہاتما گاندھی کا پیغام ، مرتب ، یو ۔ ایس ۔ موہن راؤ )

گاندھی جی لوگوں سے یہ اپیل کرتے تھے کہ وہ ہر مذہب کامطالعہ اس مذہب کے پیروؤں کے زاویہ نگاہ سے کریں ۔ وہ کہتے تھے کہ مذاہب انسان کو انسان سے جد اکرنے کے لیے نہیں ، بلکہ ان کو باہم ملانے کے لیے ہیں ۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ تمام مذاہب کے لوگ شانہ بشانہ کام کریں اور ان میں پورے طور پر رواداری ہو۔ میں کثرت میں وحدت دیکھنا چاہتا ہوں ۔ گاندھی جی ہندو مسلم اتحاد کے زبردست حامی تھے ۔ ان کا خیال تھا کہ اگر ہندو اور مسلمان امن و بھائی چارہ کے ساتھ زندگی گذارنا نہیں سیکھ لیتے تو اس ملک کا جسے ہم بھارت کے نام سے جانتے ہیں اس کا وجود ختم ہو جائے گا ۔ انہیں اس بات کا احساس تھا کہ ہندوستان کو اس وقت تک آزادی نہیں مل سکتی جب تک کہ یہاں رہنے اور بسنے والے دو بڑے فرقے آپس میں مل جل کر رہنا نہیں سیکھ لیں ۔ اگر آزادی مل بھی گئی تو حقیقت میں وہ آزادی نہیں ہوگی، جس کے ہم سب خواہش مند ہیں ۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو جس میں گاندھی جی کی ہندوستانیوں کے لیے فکر دکھائی دے رہی ہے : ” میری اپنے ہم وطنوں سے درخواست ہے کہ وہ فرقوں کے باہمی تعلقات کو درست کرنے اور سوراج حاصل کرنے کے لئے عدم تشدد کو مستقل عقیدے کے طور پر اختیار کرلیں”۔

مندرجہ بالا باتوں سے واضح ہوتا ہے کہ گاندھی جی نے ذات ، مذہب ، علاقائیت ، رنگ و نسل اور لسانی سطح پر مختلف طبقات کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی ایک دیانت دارانہ کوشش کی تھی ۔ قومی یکجہتی کا یہی نظریہ ان کی فکر کی بنیاد ہے ۔ جس پر وہ ایک خوشحال قوم کی تعمیر کرنا چاہتے تھے ۔

گاندھی جی نے تعلیم پر بہت ہی زور دیا ۔ ان کو یقین تھا کہ تعلیم ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے ہندوستانی سماج ترقی کرسکتا ہے ۔ ان کے مطابق سماج ایسا ہو جس میں سب مل کر رہ سکیں اور یہ کام تعلیم کے ذریعہ ہی ممکن تھا ۔ انہوں نے محنت مزدوری کو عزت کی نگاہ سے دیکھنے کے لیے تعلیم کو ایک بہت ہی اہم اوزار بنایا ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری تعلیم سماجی ضرورتوں کا آئینہ ہوتی ہے اس لیے تعلیم سماجی ضرورتوں کے مطابق ہونی چاہیے ۔ گاندھی جی کی عظیم شخصیت نے ہماری زندگی کے جن متعدد اور متنوع پہلوؤں کو متاثر کیا ہے ، ان میں سے ایک تعلیم بھی ہے ، جہاں ان کے افکار و خیالات کی بدولت نمایاں نتائج بر آمد ہوئے ہیں ۔ ان کے تعلیمی تصورات کی تشکیل میں ان کا نظریۂ حیات پورے طور پر کار فرما نظر آتا ہے ۔ یوں تو ہمیشہ انہیں اپنے سیاسی اور سماجی کاموں میں انسانی شعور کی بیداری کا خیال دامن گیر رہا ، لیکن اپنی زندگی کے آخری دس گیارہ سال میں تو وہ ایک مدبر اور معمار قوم کی حیثیت سے بخوبی جان چکے تھے کہ نظریے کی درستی اور زندگی کی استواری میں سب سے زیادہ اہمیت تعلیم ہی رکھتی ہے ۔

وہ ایسا نظام تعلیم چاہتے تھے جو ہندوستان کو اپنی روح دریافت کرنے میں مدد پہنچائے اور حق و صداقت کی آواز بلند کرسکے ۔

گاندھی جی عدم تشدد کے مبلغ اور پجاری تھے ۔ ان کا پیغام محبت تھا ۔ اور شعار حق و صداقت کی جستجو ۔ وہ سماج سیوا پر زور دیتے تھے اور خدمت خلق کو نجات کا ذریعہ سمجھتے تھے ۔

گاندھی جی ہمیں آگے چلنے کے راستے دکھا گئے ، کام بتا گئے ، کام شروع کر گئے ، مگر کام ختم کرکے نہیں گئے ، اب اس کام کو کرنا ہمارا فرض ہے ۔ کاش! ہم سب یہ عزم کر سکیں کہ اس کام کو پورا کریں گے ، اپنی زندگیاں اس کام میں لگائیں گے ، اس کے لیے زندگی وقف کر دیں گے ۔ ضرورت ہوگی تو اس کے لیتے مریں گے بھی ۔

گاندھی جی کی زندگی اور تعلیمات ساری دنیا کے لیے ہیں ۔ وہ بنیادی طور پر ایک روحانی اور اخلاقی طاقت تھے ، جس نے انسان کے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے ۔ وہ مذہب ، قوم یا نسل کے نام کوئی تفریق نہ رکھتے تھے ۔ وہ بین الاقوامیت میں گہرا یقین رکھتے تھے اور بنیادی طور سے تمام انسانوں اور قوموں کو ایک سمجھتے تھے ۔

مندرجہ بالا نظریئے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ گاندھی جی نے تشدد کے بغیر ہندوستان کی آزادی میں ناقابل یقین کردار ادا کیا ۔ انگریزوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا ، انہوں نے ظلم و زیادتی برداشت کیں ، لیکن اپنے اصولوں پر قائم رہے ، آنے والی نسلوں کے لیے اپنے قدموں کے نشان چھوڑ گئے ، جو کامیابی کے کلید ہیں ۔ یقینی طور پر موہن داس کرم چند گاندھی کی بڑی قربانی اور ناقابل فراموش کارنامہ ہیں ، جس نے گاندھی جی کو مہاتما کے لقب سے سرفراز کیا ۔ اس میں ہر ہندوستانی کے لیے یہ پیغام بھی پنہاں ہے کہ نفرت ، تشدد و تعصب کے بغیر بھی اپنی منزل کو حاصل کیا جاسکتا ہے ۔

گاندھی جی کی تعلیمات سے ہمیں یہ روشنی ملتی ہے کہ صداقت اور حق پر ستی کے نور کو اپنے دلوں میں پیدا کی جائے ۔ اس کی روشنی میں زندگی کے مسائل کو دیکھو اور جو کچھ دیکھو اسے دوسروں کو دکھاتے رہے ، یعنی صداقت کی روشنی کو پھیلاتے رہو اور یہی ان کا پیغام ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے