غزل: ہوئے نہ لفظ ترے یا کمند ہوئے

کبھی پسند کبھی مجھ کو ناپسند ہوئے
جو میری زات پہ احسان تیرے چند ہوئے

تری زباں سے جو نکلے ہوئے وہ دل کے پار
ہوئے نہ لفظ ترے تیر یا کمند ہوئے

انہیں جہان میں رتبہ ملا ہے کیا عالی
سخن سے اور جو حکمت سے بحرہ مند ہوئے

مرے خدا مجھے رکھنا قطار میں ان کی
ترے جہان میں جو لوگ سر بلند ہوئے

اسی لیے مرے شعروں میں ہے اثر غم کا
مرے کلام محبت میں قلمبند ہوئے

مرے یہ درد کتابوں میں بند ہیں ایسے
کہ جانے سیپ میں موتی ہیں جیسے بند ہوئے

مرے وجود پہ فرحتؔ کا باب وا نہ ہوا
جو مجھ پہ تیری محبت کے باب بند ہوئے

ڈاکٹر فرزانہ فرحتؔ، لندن

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے