خلیفہ مَجاز یا خلیفہ مُجاز ؟

‘خلیفہ مَجاز’ (بہ فتحِ میم) ہوتا ہے یا ‘خلیفہ مُجاز’ (بہ ضمِ میم) ؟ بہت سے لوگ اس میں غلطی کرتے ہیں۔ عربی سوم کے سال میں نے دیکھا کہ ہمارے مدرسے میں پیر ذوالفقار احمد نقشبندی دامت برکاتہم کے ایک خلیفہ مجاز تشریف لائے ہیں۔ اب جب ظہر کے بعد ان کے بیان کا اعلان کرنے والے نے اعلان کیا ، تو اس لفظ کا بالکل غلط تلفظ کیا۔ مجھے بڑی حیرانی ہوئی۔ حیرانی اس لیے کہ اعلان کرنے والا کوئی چھوٹا موٹا شخص نہیں ؛ بلکہ ادارے کے ایک ذمے دار ، مؤقر اور عربی درجات کے ایک بڑے استاذ تھے۔ صحیح بات یہ ہے کہ یہ ‘خلیفہ مُجاز’ (بہ ضمِ میم) ہے نہ کہ خلیفہ مَجاز (بہ فتح ِ میم)۔ ‘مُجاز’ (بہ ضمِ میم) در اصل عربی کے مصدر ‘الاجازۃ’ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے۔ اس کے معنی ہیں : وہ شخص جس کو اجازت دی گئی ہو۔ یہ لفظ در اصل تصوف کا اصطلاحی لفظ بھی ہے۔ اصطلاحِ تصوف میں ‘خلیفہ مُجاز’ (بہ ضمِ میم) اس شخص کو کہا جاتا ہے ، جس کو اس کے شیخ نے ارادت اور اصلاح احوال کے بعد دوسروں کو مرید کرنے کی اجازت دے دی ہو۔ ‘خلیفہ مَجاز’ (بہ فتح میم) یہاں پر بالکل بے معنیٰ ؛ بلکہ غلط ہے۔ لہذا درست اور صحیح لفظ بولنا چاہیے!

ازقلم : خالد سیف اللہ صدیقی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے