جب ساری تعلیم اردو میں ہوتی تھی

آج کوئی مشکل ہی سے یقین کرے گا کہ جب بڑے علاقے پر انگریزوں کی حاکمیت قائم ہوگئی اور جدید علوم کی، جنہیں آپ چاہیں مغربی علوم کہہ لیں، تعلیم شروع ہوئی تو سارے مضامین اردو میں پڑھائے جاتے تھے۔ کیا سائنس، کیا ریاضی، کیا انجینئرنگ اور کیا زبانیں، سب اردو میں پڑھائی جاتی تھیں۔اس سلسلے میں دہلی کالج اور حیدرآباد دکن میں جو بے مثال کام ہوا ، دنیا اسے بھول چلی ہے جس کا دکھ ہوتا ہے۔ جب سارے علاقے میں عوام کی بہبود کے تعمیراتی کام شروع ہوئے تو سو دو سو نہیں، ہزاروں انجینئروں کی ِضرورت پڑی۔ ماہروں کی اتنی بڑی فوج انگلستان سے لانا ممکن نہ تھا۔ تب انگریزوں نے ہمالیہ کے دامن میں چھوٹے سے شہر روڑکی میں ایک بڑا اور جدید سول انجینئرنگ کالج قائم کیا۔ سڑکیں اور نہریں بنانے اور عمارتیں اور تار کا نظام قائم کرنے کے لئے ہندوستانی لڑکوں کو اردو میں تعلیم دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس مقصد کے لئے ماہرین کی خدمات حاصل کر کے ان مضامین کی نصابی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کرایا گیا۔ کالج میں اردو طباعت کا چھاپہ خانہ لگایا گیا اور اس طرح یہ بڑا کام چل نکلا۔
یہاں جی چاہتا ہے اس داستان کے کچھ دلچسپ پہلو بیان کئے جائیں۔سب سے پہلے دیسی ہیڈ ماسٹر مقرر کئے گئے۔ ریکارڈ میں ان کے نام ملتے ہیں: مُنّو لال،رام چندر،مدھو سُدن چٹر جی اور بہاری لال۔اسی طرح نائب ماسٹروں میں مسیح اﷲ، عبدالرحمان، اکبر بیگ، مودود حسین، فصیح الدین، تجمل حسین، رحیم بخش، عبدالغنی اور شیخ بیچا کے نام بھی ملتے ہیں۔یہ سلسلہ سنہ 1847سے 1871 تک جاری رہا۔ان میں کچھ سروے کے استاد تھے اور کچھ ڈرائنگ کے (میرے والد بھی نئی صدی کے آغاز میں ڈرائنگ ماسٹر ہی تھے)، شیخ بیچا تخمینے کے مضمون کے استاد تھے اور سترہ سال تک لڑکوں کو ایسٹیمیٹ پڑھاتے رہے۔
تھامسن انجینئرنگ کالج روڑکی میں کتابیں لکھنے اور چھاپنے کے کام پر آج کے اسکالروں نے کافی تحقیق کی ہے۔بعض نے لکھا ہے کہ شروع میں ساری تعلیم لڑکوں کو انگریزی زبان میں دی جاتی تھی۔ مگر ہمارے پیش نظر کتاب کے مصنف ساجد صدیق نظامی نے بڑے وثوق سے لکھا ہے کہ یہ دونوں باتیں درست نہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ پہلے دن سے ہندوستانی لڑکوں کی تعلیم ہوئی اور ان کی نصابی کتابیں اردو ہی میں چھاپی جارہی تھیں۔ کالج کا اپنا چھاپہ خانہ سنہ 1850 کے آس پاس کام شروع کرچکا تھا۔ یہ بھی لکھا گیا ہے کہ انجینئرنگ جیسے مضمون کی کتابیں ترجمہ کرنے کے لئے کالج میں ایک ترجمہ کمیٹی بھی مقرر کی گئی تھی۔ کسی نے لکھا ہے کہ آزادی تک کالج میں مسلمانوں کا داخلہ تقریباً نا ممکن تھا۔ مگر کالج کے ایک پرانے کیلنڈر میں سنہ 1872 تک داخل ہونے والے لڑکوں کی مکمل فہرستیں ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندو اور مسلمان طلبا کی تعداد تقریباً برابر تھی۔کالج کے قیام سے 1870 تک ہندوستانی لڑکوں کو سارے مضمون اردو میں ہی پڑھائے جاتے تھے۔ اُس وقت جدید مضامین پر کچھ کتابیں دستیاب تھیں لیکن سول انجینئرنگ کی نصابی کتابوں کا کسی نے ترجمہ نہیں کیا تھا۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اس موضوع پر بنیادی کتابوں کا ترجمہ روڑکی ہی میں شروع ہوا۔پہلے پہلے یہ کتابیں سکندرہ (آگرہ) کے آرفن پریس میں چھپتی تھیں، بعد میں کالج کا اپنا چھاپہ خانہ قائم ہوگیا۔
کالج کی زیادہ تر کتابیں دو استادوں نے ترجمہ کیں، وہ تھے منو لال اور بہاری لال۔ دونوں نے چھ چھ کتابیں اردو میں ڈھالیں۔ باقی کتابیں تیار کرنے والوں میں کنہیا لال، شنبھو داس اور شیخ بیچا کے نام شامل ہیں۔منو لال دہلی کے کائستھ تھے۔ ان کے والد سوہن لال کو 1857 کی بغاوت میں انگریزوں کی مدد کے صلے میں بلند شہر کے تین گاؤں جاگیر کے طور پر ملے تھے۔خود منولال نے پہلے آگرہ کے انگلش اسکول میں تعلیم پائی جہاں سے وہ روڑکی آگئے اور تعلیم پوری کرکے یہیں پڑھانے لگے۔اسی دوران حیدرآباد دکن سے سالار جنگ نے روڑکی کالج کے پرنسپل کو لکھا کہ انہیں انجینئرنگ کے ایک استاد کی ضرورت ہے، جس پر منو لال کو وہاں بھیج دیا گیا۔ وہ حیدرآباد انجینئرنگ کالج کے نائب سربراہ مقرر ہوئے۔منولال نے حیدر آباد میں اینگلو ورنا کیولرگرلز اسکول قائم کیا جہاں 1885 میں پچاس ہندو او رچھبیس مسلمان لڑکیا ں تعلیم پا رہی تھیں۔تین سال بعد منو لال کی وفات ہوئی۔
دوسرے مصنف لالہ بہاری لال ہیں جو شروع ہی سے استاد کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ انہوں نے سات کتابیں لکھیں۔ اگلے مصنف کنہیا لال ہیں جن کی کتاب ًتاریخ پنجاب‘ آج تک یاد کی جاتی ہے۔وہ 1830 میں ایٹہ یو پی میں پیدا ہوئے ۔ ثانوی درجات کی تعلیم آگرہ میں پائی جس کے بعد روڑکی میں داخلہ لیا۔ تعلیم پوری کرنے پر لاہور میں سب اسسٹنٹ سول انجینئر مقرر ہوئے اور آخر وہیں ریٹائر ہوئے۔ لاہور کا ریلوے اسٹیشن اور میو اسپتال ان ہی کی نگرانی میں تعمیر ہوا۔ بہت کتابیں لکھیں جن میں گلزار ہندی، یادگار ہندی، ظفر نامہ معروف بہ رنجیت نامہ، مناجا ت ہندی، اخلاق ہندی، تاریخ پنجاب اور تاریخ لاہور آج تک حوالے کے طور پر نظر آتی ہیں۔ بعد میں کالج میں ان کے نام سے ایک انعام بھی جاری ہوا تھا۔ان کی انجینئرنگ کی کتابوں میں ’رسالہ در باب آلات پیمائش‘ قابل ذکر ہے۔سڑکوں یا نہروں کی تعمیر میں بڑا موڑ آجائے تو کیا کرنا چاہئے، تفصیل سے بتایا گیا ہے۔ اسی کتاب میں ایک جگہ ایسی بھی آتی ہے کہ’’جب کبھی ایسا اتفاق آپڑتا ہے کہ سڑک کی سیدھ میں کوئی گاؤں یا اچھا باغ یا کوئی مکان کہ جس کے گرا دینے میں بہت نقصان ہوتا ہو، آجاتا ہے تو اس وقت گاؤں یا مکان کو کیسے بچانا چاہئے‘‘۔
اُس زمانے اور اُن لوگوں کے گزر جانے کے بعد حالات نے ایسی کروٹ بدلی کہ کچھ بھی پہلا جیسا نہ رہا ورنہ ہم تصور کر سکتے ہیں کہ یوں بھی ہوتا کہ ہم اور ہمارے بچے دنیا کا ہر مضمون اپنی زبان میں پڑھ رہے ہوتے اور جب پڑھ رہے ہوتے تو انہیں اچھی طرح معلوم ہوتا کہ کیا پڑھ رہے ہیں۔
اب تو یہ کسی دیوانے کا خواب لگتا ہے۔

تحریر : رضا علی عابدی

پس نوشت :
اردو ایک مکمل، جدید اور زندہ زبان ہے، دنیا کی تمام زندہ زبانوں کی طرح اردو میں بھی سائنس، تاریخ جغرافیہ اور دیگر جدید علوم کی تدریس ہونی چاہیے۔ یہ بات مغرب زدہ اور احساسِ کمتری میں مبتلا لوگوں کو ہضم نہیں ہوتی اور وہ طرح طرح کی تاویلیں دیتے ہیں۔ اردو جاننے والے جاپانی زبان جاننے والوں سے تقریباً دس گنا زیادہ ہیں، یہی تناسب جرمن زبان کا بھی ہے۔ جب جاپانی اور جرمن زبانوں میں جدید علوم کی تدریس ہورہی ہے تو اردو میں کیوں نہیں؟

از : حامد اقبال صدیقی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے