تحریر: ایم۔ ودود ساجد
- (روزنامہ انقلاب میں شائع ہفتہ وار کالم رد عمل)
محض چار دنوں کے وقفہ میں ایران نے اسرائیل پر د وبڑے حملے کرکے مشرق وسطی کی صورتحال میں ڈرامائی تبدیلی پیدا کردی ہے۔ ایک حملہ یکم اکتوبر کو ہوا تھا جب ایران نے اسرائیل کے مختلف شہروں اور خاص طور پر اس کی راجدھانی تل ابیب پر دو سو سے زائد بیلسٹک میزائل برسائے تھے۔ پھر چار اکتوبر کو ایران کے رہبر اعلی خامنہ ای نے جمعہ کے روز خطبہ دے کر دوسرا بڑا نفسیاتی حملہ کردیا۔
ہمیں ان دوہرے حملوں سے کوئی بڑا نتیجہ اخذکرنے کی عجلت نہیں ہے لیکن فوری طور پر اس سے کم کیا نتیجہ نکالا جائے کہ غزہ کے خون خرابہ اور تباہی وبربادی کے حوالہ سے جو عالم اسلام سرنگوں ہوگیا تھا ان حملوں کے بعد اسے سر اٹھانے کا موقع مل گیا اورخلیجی ممالک کو بھی اپنی حکمت عملی تبدیل کرنی پڑی۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسرائیل کے وزیر اعظم نتن یاہو نے مشرق وسطی کو عملاً بارود کے ڈھیر میں تبدیل کردیا ہے۔اسرائیل کے پاس اتنی عسکری قوت ہے کہ وہ غزہ کو تباہ وبرباد کرنے کے بعد لبنان‘ شام‘ عراق اور ایران کو ہی نہیں بلکہ خلیج کے کسی بھی ملک یا تمام ملکوں کو تباہ و برباد کرسکتا ہے۔ نتن یاہو نے فی الواقع ایسی ہی کھلی دھمکی دی ہے۔ لبنان میں اس نے اس دھمکی پر عمل شروع بھی کردیا ہے۔ وہ اب تک دوہزار سے زیادہ شہریوں کو شہید کرچکا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل ’انٹونیو گوتریس‘اس کے خلاف کھل کر بول رہے ہیں اور دنیا کو ایک بڑے خطرے سے آگاہ کر رہے ہیں۔ لہذا اسرائیل نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کوہی ’ناپسندیدہ شخصیت‘ قرار دے کر ان پر اسرائیل میں داخلہ پر پابندی عاید کردی ہے۔ گزشتہ27 ستمبر کو نتن یاہو نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہمارے لمبے ہاتھ ایران کے ہر مقام تک پہنچ سکتے ہیں اور یہی بات خلیج کے تمام ممالک کیلئے بھی اتنی ہی درست ہے‘۔ یہ دراصل براہ راست ایران کے ساتھ ساتھ خطہ کے دوسرے تمام عرب ممالک کوبھی کھلی دھمکی تھی۔
ایسے میں یکم اکتوبر کو ایران نے اسرائیل پر جو عدیم المثال حملہ کیا اس نے صورتحال کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ایران کے حملوں سے چند ہی منٹ قبل یکم اکتوبر کی شب اسرائیل کے شہر جافا میں ایک اور حملہ ہوا جب دو (فلسطینی) بندوق برداروں نے گولی باری کرکے 8 یہودیوں کو ہلاک کردیا۔جافا میں یہودیوں کے ساتھ اسرائیلی عرب بھی آباد ہیں۔اسرائیلی ذرائع کہتے ہیں کہ اسرائیل کے اندر سات اکتوبر 2023 کے بعد اپنی نوعیت کا یہ پہلا بڑا واقعہ ہے۔ ان ہلاکتوں سے اسرائیلی فورسز اور انٹلی جنس اداروں میں افراتفری مچ گئی۔ ابھی حکومت اسرائیل کچھ سمجھ پاتی کہ چند ہی منٹ بعد ایران نے مختلف شہروں پر میزائلوں کی بوچھار کردی۔ اسی وقت لبنان کی حدود سے بھی حزب اللہ نے حملے شروع کردئے۔ عراق سے بھی کسی مسلح گروپ نے میزائل داغے۔ غزہ سے بھی قسام نے راکٹ داغنے شروع کردئے۔
ان اطلاعات کی تفصیلات سے خود اسرائیل کے اخبارات اور خاص طور پر ’ ٹائمز آف اسرائیل‘ اور’ ہارٹز‘بھرے پڑے ہیں۔ایران ‘ حزب اللہ اور حماس کے میڈیا ذرائع نے بھی اسی طرح کی ا طلاعات دی ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مذکورہ تمام فریقوں کے درمیان کوئی منظم رابطہ کی شکل ضرور قائم تھی جس کے تحت ہر محاذ سے ایک ساتھ حملے شروع ہوئے۔ یہی وجہ تھی کہ اسرائیل کے سب سے مضبوط دفاعی نظام ’آئرن ڈون‘ کو بھی جزوی طور پر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
اسرائیل کے لئے ایران کی طرف سے اس نوعیت کاحملہ شاید غیر متوقع تھا۔ اسی سال 13اپریل کو ایران نے جو حملہ کیا تھا وہ یکم اکتوبر کے حملہ سے مختلف تھا۔ اسرائیل اور امریکہ کو ان حملوں کا پہلے سےاندازہ تھا۔ دوسرے ان حملوں میں زیادہ تر ڈرون اور کروز میزائل کا استعمال کیا گیا تھا۔ ڈرون اور کروز میزائل کی رفتار کم ہوتی ہے اور یہ ایران سے اسرائیل تک کا سفر 9 گھنٹے میں طے کرتے ہیں۔اس کے علاوہ ان حملوں کو روکنے کیلئے اسرائیل اور امریکہ نے پیشگی انتظامات کرلئے تھے۔ امریکہ کے اخبار’دی وال اسٹریٹ جنرل‘ کی رپورٹ کے مطابق ایران کے ڈرونز کو روکنے اور انہیں فضا میں ہی مارگرانے کیلئے اردن اور سعودی عرب کا تعاون بھی حاصل کیا گیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود بہت سے ڈرون اور کروز میزائل اسرائیل کے اندر آکر گرے تھے۔
ایران شروع سے کہتا آرہا ہے کہ اسرائیل کی شہری آبادی پر اس کا حملہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ حزب اللہ کے مقتول سربراہ حسن نصراللہ بھی اپنی تقریروں میں مسلسل یہی بات کہتے تھے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کے سبب پوری انصاف پسند دنیا اسرائیل کے خلاف بول رہی ہے۔ یکم اکتوبر کو ایران نے اسرائیل پر جو بیلسٹک میزائل برسائے وہ ایران سے اسرائیل تک کا سفر محض 11منٹ میں طے کرلیتے ہیں۔
ایران کے ان میزائلوں نے اسرائیل کوفی الواقع کیا نقصان پہنچایا ابھی اس کی حتمی رپورٹ خود اسرائیل نے ہی جاری نہیں کی ہے۔ البتہ اب اسرائیلی فورسز نے تسلیم کرلیا ہے کہ کچھ میزائل اسرائیل کے دو ایربیس (فوج کے فضائی ڈپوؤں ) پرآکر گرے ہیں اور ان سے خاصا نقصان پہنچا ہے۔اسرائیل کے کچھ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اندرون ملک انفرا اسٹرکچر کو کافی نقصان پہنچا ہے۔ کچھ فوجی امور کے ماہرین نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ ایران کے میزائلوں سے اسرائیل کے جنگی جہازوں کو نقصان پہنچا ہے۔ ٹائمزآف انڈیا کے یوٹیوب چینل نے ایرانی ذرائع کے حوالہ سے کہا ہے کہ ایران کے حملہ سے اسرائیل کے 20 ’ایف 35‘ جنگی جہاز تباہ ہوگئے ہیں۔
فرسٹ پوسٹ کی ایڈیٹر پلکی شرما نے دونوں ملکوں کی جنگی صلاحیتوں کا جائزہ لیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کی جنگی صلاحیت کی کمر اگر توڑنی ہے تو ایران کو اس کے انہی ایف 16اور ایف 35 جنگی جہازوں سے نپٹنا ہوگا۔اسرائیل کے پاس ایسے 250 جنگی جہاز ہیں۔انہی سے وہ لبنان پر حملے کر رہا ہے ۔اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر نے کہا ہے کہ ایران کے حملوں سے ناقابل تصور نقصان پہنچا ہے۔ لبنان کی سرحد سے متصل اسرائیلی شہر کریات شمونہ کی بلدیہ کے چیرمین نے کہا ہے کہ ’سرحد پر ’الرضوان فورس‘ ابھی تک فعال ہے اور اسے اندر داخل ہوئے بغیر ختم نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن دوسری طرف جب اسرائیلی فورسز نے زمینی حملوں کیلئے اندر داخل ہونے کی کوشش کی تو حزب اللہ کے جنگجوئوں نے نہ صرف الٹے پائوں بھگادیا بلکہ مجموعی طور پر 100سے زیادہ فوجیوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔ دسیوں اسٹریچر اور کئی ہیلی کاپٹرس کو ان کی لاشیں اور زخمی فوجیوں کو اٹھاکر اپنی سرحد میں لے جاتے ہوئے دیکھا گیا۔
اسرائیل کے سابق وزیر اعظم نفتالی بینت نے کہا ہے کہ حسن نصراللہ کے قتل کے با وجود حزب اللہ کی قوت کو ختم کرنا ممکن نہیں ہے۔ اسرائیل کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ لبنان کی سرحد پر اس ’منصفانہ جنگ ‘میں ہمیں بہت بھاری قیمت چکانی پڑی ہے۔ اسرائیلی اخبار ’ہارٹز‘ نے لکھا ہے کہ اسرائیل کو دس ہزار سے زیادہ فوجیوں کی کمی کا سامنا ہے۔
چار اکتوبر کو تہران کی جامع مسجد امام خمینی میں خامنہ ای نے پہلا خطبہ فارسی میں اور دوسرا عربی میں دیا۔دونوں کے اپنے سیاسی اور سفارتی معانی ہیں۔ دونوں خطبے نپے تلے لیکن انتہائی واضح تھے۔ ایک طرف جہاں اسرائیل کو کھلا انتباہ دیا گیا وہیں دوسری طرف عرب ممالک کو توجہ دلائی گئی کہ اسرائیل ان کا بھی اتنا ہی دشمن ہے جتنا ایران کا۔ عالم اسلام کو اتحاد کا پیغام بھی دیا گیا۔ خبر رساں ایجنسی رائٹر نے ایران اور خلیجی ممالک کے دو مختلف ذرائع کے حوالہ سے دعوی کیا ہے کہ عرب ممالک نے ایران سے وعدہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل-ایران جنگ میں غیر جانبدار رہیں گے۔ اندازہ یہ ہے کہ یہ اسرائیل کی دھمکی کا ہی اثر ہوسکتا ہے کہ خلیجی ممالک نے غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا۔
غیر جانبدار رہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ نہ ایران کے حملوں کو روکیں گے اورنہ ایران کے خلاف کئے جانے والے کسی بھی فضائی حملہ کیلئے اپنا آسمان استعمال کرنے کی اجازت دیں گے۔ اگر یہ اطلاع درست ہے‘ جس کے امکانات بھی ہیں‘ تو یہ اسرائیل کی بہت بڑی شکست سے کم نہیں ہے۔ یہ بھی ذہن میں رہنا چاہئے کہ یکم اکتوبر کے حملوں کے فورا بعد ایران کے صدر نے قطر کا اور وزیر خارجہ نے لبنان اور شام کا دورہ کیا۔ جنگی کشیدگی سے بھرے اس ماحول میں ایران کے اس عمل کو شجاعت سے بھرا عمل قرار دیا جارہا ہے۔ قطر کی راجدھانی دوحہ میں ایران کے صدر مسعود پزشکیان سے سعودی عرب کے وزیر خارجہ پرنس فیصل بن فرحان بن عبداللہ نے بھی خوشگوار اور پرجوش ملاقات کی۔ اس موقع پر ایرانی صدر نے عربوں کو ’اپنابھائی‘ کہہ کر خطاب کیا۔
یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ ایران اور عرب ممالک میں ایک عرصہ تک دشمنی کی حد تک تعلقات خراب رہنے کے بعد اب قربت بڑھی ہے۔ اس کا سہرا سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کے سرجاتا ہے جنہوں نے نہ صرف ایران سے بلکہ اپنے دو مخالف ملکوں شام اور قطر سے بھی سفارتی مراسم استوار کئے۔ خطہ کے امور پر نظر رکھنے والے اسے غیر معمولی واقعہ قرار دیتے ہیں۔ لہذا ان جوشیلی ٹولیوں کو کچھ احتیاط سے کام لینا چاہئے جو ایران کے کسی بھی عمل کوشک کی نگاہ سے دیکھتی ہیں اور اسے سعودی عرب یا عربوں کا دشمن قرار دیتی ہیں۔
نتن یاہو نے سمجھا تھا کہ حسن نصراللہ کے خاتمہ کے بعد شمالی اسرائیل میں کوئی انہیں چیلنج نہیں کرسکے گا۔ لیکن حزب اللہ کے عبوری سربراہ نعیم قاسم نے کہا ہے کہ ہم میدان میں موجود ہیں اور حسن نصراللہ کے موقف سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ لبنان سے اسرائیل کو مسلسل ذلت آمیز پسپائی اور خوفناک حملوں کا سامنا ہے۔
اسرائیلی ذرائع کے مطابق بہت سے ملکوں میں ہزارں اسرائیلی شہری پھنسے پڑے ہیں کیونکہ فلائٹس کینسل ہوگئی ہیں۔ اسرائیل کے اندر 30 سے زیادہ لوگوں کے جمع ہونے پر پابندی لگادی گئی ہے۔ نئے اسرائیلی سال کے موقع پر یروشلم اور دیوار گریہ میں منعقد ہونے والی بہت سی تقریبات منسوخ کردی گئی ہیں۔ اسرائیل کے نامور صحافی ’گیڈیون لیوی‘نے کہا ہے کہ اسرائیل غزہ اورلبنان میں بری طرح پھنس گیا ہے‘ کوئی نہیں جانتا کہ وہ اس جنگ سے نکلے گا کیسے؟