اللہ تعالی نے ہمیں بے شمار نعمتیں عطا فرمائی ہیں،ہم چا ہ کر بھی اس کا شکر ادا نہیں کرسکتے، ساری نعمتیں اپنی جگہ اہم اور ہما ری ضروریا ت کی تکمیل کے لئے بیش قیمت ہیں،انہیں قیمتی نعمتوں میں سے ایک زبا ن وبیان کی نعمت ہے، اللہ تعالی نے اس کا ذکر خاص طو ر پر کیا ہے کہ ہم نے انسان کو پیدا کیا اور اسے زبا ن وبیا ن پر قدر ت بخشی ہے۔ خَلَقَ الْاِ نْسَانَ وَعَلَّمَہُ الْبَیَانَ زبا ن، گوشت کا ایک چھو ٹا سا ٹکر ا،دنیا کی تما م لذتوں کو محسوس کرنے والا قیمتی آلہ ہے۔یہ نمکین ہے،یہ میٹھا ہے،یہ کڑو ا ہے،یہ تلخ ہے،یہ کسیلا ہے۔زبا ن کی پرت پر سب کچھ صاف اور واضح ہو جا تاہے۔پھر اسی ٹکڑے سے دنیا کی ہزاروں زبانیں بولی جا تی ہیں،اور انسان اپنے خیا لات و احساسات کو الفا ظ کا جا مہ پہنا کر لو گوں تک پہونچا تاہے۔اس کی حلاوت بھی الگ ہو تی ہے اوراس کا زخم بھی عجیب ہو تاہے۔ایک عربی شاعر نے کہا ہے:
جَرَ احَاتُ الِسنَانِ لَھَا الْتِیَام وَلاَ یَلْتَامُ مَا جرَ حَ الْلِّسَانُ
یعنی تیروتلو ار کے جو زخم ہیں وہ تو بھر جا تے ہیں لیکن جو زخم زبان کا ہو تاہے اس کا بھر پا نا ممکن نہیں ہو تا۔وہ زخم دیر پا ہو تاہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلما ن کی پہچان یہ بتائی ہے کہ جس کے زبان کی زخم سے لوگ محفوظ رہیں۔
زبان کے صحیح استعمال سے ملکوں کی تقدیر بد ل جا تی ہے،سما ج میں خیر کا چلن ہو تاہے، اور لو گ گناہوں سے پر ہیز کرنے لگتے ہیں،سارے وعظ و نصائح اور سارے علمی امو ر اسی کے ذریعہ بیا ن کے سا نچے میں ڈھلتے ہیں،اور لو گوں کے فکر وعمل کو مہمیزکر تے ہیں۔او رجب ا س کارخ خدا نخواستہ منکر ات کی طر ف ہو تاہے توجھو ٹ،غیبت،چغل خو ری،گالی گلو ج،طعن و تشنیع تک بات جا پہونچتی ہے۔پھر سماج میں جھگڑوں کا ایک طویل سلسلہ شر وع ہو تاہے۔دلو ں کا نفاق بڑھتاہے، کینہ،کدورت کا با زار گر م ہو تاہے اور معاملہ خون ریزی اور فسا د تک جاپہو نچتاہے۔گویا سماج کی بیش تر بر ائیوں میں اسی کی کا رستانی ہو تی ہے۔دلا لی،رشوت خو ری،بد عنوانی،کر پشن، سب کا آغاز زبان و بیا ن سے ہو تاہے،اور آگے بڑھ کر ان منکر ات تک جاپہونچتاہے۔اسی لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے زبان کی خاص طو رپر حفا ظت کا حکم دیا اور ایک جگہ ارشاد فر مایا کہ تم جسم کے دو ٹکڑے کی حفاظت کر لو تو میں تمہیں جنت کی بشارت دیتا ہو ں،ایک زبان دوسری شر مگاہ۔واقعہ یہ ہے آج جسم کے یہی دو نوں ٹکر ے سب سے زیادہ غیر محفو ظ ہیں اور عر یا نی و فحاشی کے سیلا ب نے ان دونوں اعضاء کی حفا ظت کو مشکل ترین بنا دیا ہے۔مشرقی تہذیب واقدارخس و خاشاک کی طر ح بہے جا رہے ہیں اور ان کی جگہ مغربی اطوار ہما رے گھر وں میں ڈیر ا ڈالے جا رہے ہیں۔
زبان کا بڑا کا م بیا ن ہے۔بیا ن،دعوت و تبلیغ کا ہو،علمی مبا حث کا،سیا سی تقریر وں یا روزمرہ کی گفتگو کا،سب اسی زبان سے کئے جا تے ہیں،یہاں مجھے وہ حکایت یا د آرہی ہے کہ ایک با دشاہ نے با ورچی کو حکم دیا کہ سب سے اچھی چیز کا سالن تیا ر کرے،با ورچی نے تیا ر کر کے پیش کر دیا، دوسرے دن حکم ہوا کہ سب سے خراب چیز کا سالن بناؤ، باورچی نے بنا کر پیش کر دیا بادشاہ نے تعجب سے کہا کہ تم نے اچھا سالن بھی زبان سے تیا ر کیا او رخر اب سالن بھی زبان ہی سے تیا ر کیا،یہ کیسے ہو سکتا ہے وہی چیز سب سے اچھی بھی ہو اوروہی چیز سب سے خر اب بھی، با ورچی نے کہا کہ حضور یہ زبان ہی ہے اگر اس کا استعما ل صحیح ہو تو یہ دنیا کی سب سے اچھی چیز ہے اوراگراس کا استعمال غلط ہو تو یہ دنیا کی سب سے بری چیز ہے جیسا استعمال ہو گا،ویسا ہی حکم لگے گا۔
زبان سے ادا ہو نے والے جملے اور الفا ظ پر ہی ہماری گفتگو کا انحصار ہے۔یہ گفتگو اگر سلیقہ سے کی جا ئے اورخلو ص و محبت کی چاشنی اس میں شامل ہو تو یہ ”ازدل خیز دبردل ریز د“ہو تی ہے۔علا مہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے:
با ت جو دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے پر نہیں طاقتِ پر واز مگر رکھتی ہے
ایک اور شعر یاد آگیا ؎
کون سی بات کب، کہاں، کس طرح کہی جا تی ہے یہ سلیقہ ہو تو سب بات سنی جاتی ہے
اگر آدمی میں بات کر نے کا سلیقہ ہے تو بے سلیقہ بات بھی لو گو ں کو مطمئن کر نے کے لئے کا فی ہے۔اسی لئے ڈاکٹر کلیم عاجزؔ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ انسان میں بات کہنے کا سلیقہ ہو نا چاہئے:
با ت چاہے بے سلیقہ ہو کلیم بات کہنے کا سلیقہ چاہئے
آج صورت حال یہ کہ ہمارے یہاں سلیقہ سے بات کہنے والوں کی بڑی کمی ہے۔اس کمی کی وجہ سے ہما ری گفتگو میں وہ وزن نہیں پیدا ہو پاتا،جو ہونا چاہئے۔گفتگو کیسے کی جائے؟ اور زبان وبیا ن کے استعمال سے انقلا ب کیسے ممکن ہے؟اس کا بہتر نمونہ حضو راکر م صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو میں مو جو د ہے۔اسی لئے آپ کو جو امع الکلم کہا گیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو موقع کے منا سب او رایسی باسلیقہ ہو تی تھی کہ انتہا ئی جذ باتی مو قعوں پر بھی معاملہ پر قابو پا نا ممکن ہوتا۔
اس کی بڑی عمدہ مثال سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ واقعہ ہے کہ جب غزوہئ حنین کے مو قع سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تالیف قلب کے لئے مکہ والوں میں مال غنیمت تقسیم کر دیا اور انصار کے حصے میں کچھ نہیں آیا تو چہ می گو ئیاں ہو نے لگیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ والوں سے اپنی قر ابت کا خیا ل رکھتے ہوئے انہیں نو ازا،شدہ شدہ یہ بات آقائے نا مدار صلی اللہ علیہ وسلم تک پہونچ گئی،آپ نے صحابہؓ کر ام کو جمع کیا اور فر مایا کہ تم کہہ سکتے ہو کہ میں بے گھر تھا تو تم نے پنا ہ دی،مجھ پر لو گو ں نے حملہ کیا تو تم دفاع کے لئے اٹھ کھڑے ہو ئے،تم نے اپنی جا ن کی بازی لگادی،تمہا را یہ کہنا حق بجا نب ہے لیکن کیا یہ سچ نہیں ہے کہ تم گمر اہ تھے، اللہ نے میر ے ذر یعہ تمہیں ہدایت دی،تم محتاج تھے، اللہ نے ہما رے ذریعہ تمہیں غنی بنایا،صحا بہ ؓ سب کی تائید کر تے رہے او ربالآخر آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اس پر راضی نہیں کہ مکہ والے مال لے جائیں اور تم اپنے ساتھ اللہ کے رسول کو لے جا ؤ، سب کے چہر ے خو شی سے تمتما اٹھے اور ساری غلط فہمی دو رہو گئی،بات کو سلیقہ سے رکھنے کی یہ ایک مثال ہے۔سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایسی بے شما ر مثالیں مو جو د ہیں۔
بیا ن کی ایک بڑی خو بی یہ ہے کہ اسلوب ایسا اختیا ر کیا جا ئے کہ سننے والوں پر اس کا خو ش گوار اثر ہو،گلزارِ دبستاں میں ایک بادشاہ کا ذکر کیا ہے کہ جس نے یہ خواب دیکھا تھا کہ اس کے سارے دانت گر گئے ہیں،خواب کی تعبیر کے لئے نجومی کو بلا یا گیا اس نے کہا کہ حضور!تعبیر یہ ہے کہ آپ کے سارے عزیز و اقر با آپ کی زندگی میں مر جا ئیں گے،بادشاہ نے کہا:کم بخت کو بند کرو،کیا خراب تعبیر بیان کی ہے، بھلا میرا بیٹا، میری بیوی، میرا بھائی، اور میرے اپنے پیارے سب دنیا سے چلے جائیں گے اورمیں ان کا جنا زہ اٹھا نے کے لئے زندہ رہوں گا،غصہ کم ہو ا تو بادشاہ نے دوسر ے نجو می کو بلایا،اور اس سے بھی یہی خواب بیا ن کیا،اس نے کہا کہ مبارک، سلامت،بڑا اچھا خو اب ہے،دس بار مبا رک سلا مت کے بعد اس نے کہا کہ حضور!اللہ آپ کی عمر پو رے خاندان میں سب سے دراز کر یں گے،بادشاہ نے خو ش ہوکر مو تیوں سے مالا مال کردیا، نتیجہ کے اعتبار سے خواب کی دونو ں تعبیر میں فرق نہیں ہے۔بس الفاظ کا الٹ پھیر ہے،ایک تعبیر منفی سو چ کی غما زہے،اور دوسری مثبت کی نما ئندہ،ایک میں مو ت کی بات ہے تو دوسرے میں زندگی کی؛ لیکن سامع پر دونو ں کے اثرات الگ الگ پڑتے ہیں۔گفتگو میں مثبت اثر پیدا کر نے کے لئے ضروری ہے کہ بات نر می سے کی جا ئے،تلخی،ترش روئی اور غیر مہذب جملو ں کے استعمال سے بچاجا ئے،بات کرتے وقت حفظ مر اتب کا خیا ل رکھا جائے،اللہ رب العزت نے اپنے وقت کے سب سے اچھے انسان حضرت مو سٰی و ہارون علیہما السلام کو اس وقت کے سب سے بُرے انسان فر عون کے پا س بھیجا تو نر می سے بات کر نے کا حکم دیا فَقُوْ لَا لَہُ قَوْلًا لَیِّنَاً۔
اسی طرح جو کہا جا رہا ہے وہ بھی اہم ہو، بکو اس،طنز و تعریض جیسی گفتگو سے گو وقتی طور پر لوگ محظوظ ہو تے ہیں،لیکن ا سکی کوئی قدر وقیمت نہیں ہو تی،اسی لئے قر آن کریم میں ارشاد فرمایاگیا کہ اس شخص سے اچھی با ت کس کی ہو سکتی ہے جو اللہ کی طر ف بلا ئے اور خود بھی اچھا عمل کر ے،اسی طر ح اس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ دوسرے مذاہب والے کو بر ابھلا نہ کہو،اس لئے کہ پھر وہ اللہ کو بر ابھلا کہنے لگیں گے۔
خلا صہ یہ ہے کہ اگر ہم اپنے زبان وبیا ن پر قابو رکھیں،تقریر وتحریر گفتگو اور مکا لمے میں مثبت اسلو ب اختیا ر کر یں،منفی اور دلوں کو ٹھیس پہو نچانے والی باتوں سے گریز کریں تو سماج کی بہت ساری بر ائیاں خود بخود دو ر ہو جا ئیں گی،اورہم ایک ایسے سماج کی تشکیل کر سکیں گے جو جھگڑے،کینہ کدورت،بغض وعنا د سے پاک سما ج ہو گا۔
مو ضوع کی منا سبت سے مولا نا اابولکلا م آزاد کے ان جملوں کو بھی یاد رکھنا چاہئے فر مایا: ”لو گ جو کہتے ہیں،کہنے دو۔لیکن اپنی زبان کو آلو د ہ نہ کر و،کبھی سخت و سنگلا خ الفاظ سے قومی معاملات حل نہیں ہو تے۔کسی کو گالی دینے کا مطلب یہ ہے کہ گالی سننے کے لئے تیا ر رہنا چاہئے، ایک مو قع سے فرما یا:زبان حددر جہ محتاط ہو نی چاہئے،کچھ ا س طرح کہ وقار و تمکنت اور سنجید گی و متانت آگے بڑھ کر ان کی بلا ئیں لینے لگیں“۔
تحریر: محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ