مدارس اسلامیہ ہمیشہ سے مسلمانوں کی دینی تعلیم و تربیت اور اسلامی ثقافت کے محافظ رہے ہیں۔ لیکن ان کے تحفظ کا مسئلہ اس وقت خاص طور پر سامنے آیا جب ہندوستان میں انگریزوں کا تسلط قائم ہوا۔ انگریزی استبداد کے زیرِ سایہ مسلمانوں کو یہ خوف لاحق ہوا کہ برسہا برس سے جاری دینی مدارس کا کیا مستقبل ہوگا؟ دو اہم مسائل بیک وقت مسلمانوں کے سامنے تھے: ایک طرف ہندوستان کی آزادی کے لیے انگریزوں کے خلاف جدوجہد، اور دوسری طرف مدارس اسلامیہ کے تحفظ کا مسئلہ، جو اسلام کی بقا اور اس کے پیغام کو آئندہ نسلوں تک پہنچانے کے لیے نہایت ضروری تھا۔
اس سنگین صورت حال میں مسلمانوں کے اہل فکر و دانش، خصوصاً علمائے کرام نے ایک دور اندیشانہ اور حکیمانہ فیصلہ کیا۔ انہوں نے طے کیا کہ ایسے مدارس کا قیام عمل میں لایا جائے جو مکمل طور پر آزاد اور خودمختار ہوں، کسی بھی حکومت کے دباؤ یا اثر سے پاک رہ کر اسلامی تعلیمات اور تبلیغِ دین کا فریضہ انجام دیں۔ ان مدارس کے اخراجات کے لیے مسلمانوں سے چندے کی اپیل کی گئی، اور قوم مسلم نے دل کھول کر تعاون کیا۔ اس کے نتیجے میں دارالعلوم دیوبند، مظاہر علوم سہارنپور اور دیگر بڑے مدارس کا قیام عمل میں آیا۔
ان مدارس نے اپنے قیام کے بعد نہ صرف اسلامی تعلیمات کو محفوظ رکھا، بلکہ انگریزوں کے خلاف آزادی کی تحریک میں بھی ایک اہم کردار ادا کیا۔ علمائے کرام کی بصیرت، دور بینی اور قربانیوں کے نتیجے میں مسلمانوں نے اپنے دین اور وجود کا تحفظ بھی یقینی بنایا اور ملک کو انگریزوں کے تسلط سے آزاد کرانے میں بھی کامیابی حاصل کی۔
موجودہ دور میں مدارس اسلامیہ کو درپیش خطرات
آج جبکہ ہندوستان کی آزادی کو 75 برس گزر چکے ہیں، مسلمانوں کو ایک بار پھر اپنے دین اور وجود کے تحفظ کا سامنا ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی اور دینی اداروں کے خلاف چلائی جانے والی مہمات نے مسلمانوں کی شناخت اور ان کے دینی قلعوں یعنی مدارس اسلامیہ کو نشانے پر لے رکھا ہے۔ آج مدارس اسلامیہ پر وہی خطرات منڈلا رہے ہیں جن کا سامنا انہوں نے انگریزی دور میں کیا تھا۔ ایسے حالات میں ملک کے علمائے کرام، ملی تنظیموں اور دینی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ دوبارہ سر جوڑ کر ان مسائل کا حل نکالیں اور اپنے دینی ورثے کا تحفظ کریں۔
مدارس اسلامیہ کے تحفظ کے لیے لائحہ عمل
مسلمانوں کی دینی اور تعلیمی بقا کو یقینی بنانے کے لیے، دینی مدارس کو جدید چیلنجوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں چند اہم تجاویز پیش کی جا رہی ہیں:
- نصاب میں ہم آہنگی اور اصلاحات: مدارس اسلامیہ کے نصاب کا جائزہ لے کر اسے عصرِ حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے تاکہ طلبہ جدید مسائل کا سامنا کر سکیں اور ان کا درست حل نکال سکیں۔
- آئین ہند کی تعلیم: مدارس کے نصاب میں آئین ہند کی ان شقوں کو شامل کیا جائے جن سے اقلیتوں کے حقوق وابستہ ہیں، تاکہ طلبہ اپنے قانونی حقوق سے بخوبی آگاہ ہو سکیں۔
- سیاسی تعلیم: مدارس میں سیاست کو بطور مضمون پڑھایا جائے اور ایک مخصوص شعبہ سیاسی تعلیم کے لیے مختص کیا جائے، جہاں طلبہ فراغت کے بعد ایک یا دو سالہ کورس مکمل کر سکیں۔ اس سے مدارس کے فارغین ملکی سیاست میں بھی مثبت کردار ادا کر سکیں گے۔
- صنعت و حرفت کی تعلیم: مدارس اسلامیہ کے فضلا کو عربی زبان کے ساتھ ساتھ کوئی دو سالہ ہنر یا صنعت سکھانے کا بندوبست کیا جائے، تاکہ وہ معاشی میدان میں بھی خود کفیل بن سکیں۔
- جسمانی ورزش اور دفاعی تربیت: مدارس میں جسمانی ورزش اور دفاعی کھیل جیسے لاٹھی بازی کو لازمی قرار دیا جائے تاکہ طلبہ جسمانی اور ذہنی طور پر چاق و چوبند رہیں۔
- جدید ٹیکنالوجی کی تعلیم: مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور ذرائع ابلاغ کے متعلق ایک سالہ کورس کا اہتمام کیا جائے، جس سے وہ میڈیا اور جدید مواصلاتی نظام میں مہارت حاصل کر سکیں۔
- اسکولوں میں دینی تعلیم: عام اسکولوں میں دینی تعلیم کو لازمی بنانے کے لیے مدارس سے ایسے افراد تیار کیے جائیں جو اسکولوں میں بنیادی دینی تعلیم دے سکیں۔
- متحدہ مدارس وفاق کا قیام: ملک کی سطح پر ایک مضبوط اور متحدہ مدارس وفاق قائم کیا جائے تاکہ کسی ایک مدرسے پر آنے والی مشکل میں تمام مدارس متحد ہو کر اس کا مقابلہ کریں۔
مدارس اسلامیہ ہمارے دین اور ایمان کے محافظ ہیں۔ موجودہ دور میں جب ہمارے دینی ادارے اور تعلیمی قلعے خطرات کا شکار ہیں، یہ ضروری ہے کہ ہم ان کا ہر ممکن تحفظ کریں۔ علمائے کرام کی دور بینی، بصیرت اور قربانیوں نے ہمیں انگریزی تسلط سے نجات دلائی اور آج پھر ضرورت ہے کہ وہی فراست اور بصیرت کا مظاہرہ کیا جائے تاکہ ہمارے دینی مدارس اور اسلامی شناخت کا تحفظ ممکن ہو سکے۔
ازقلم: آفتاب اظہر صدیقی