ادبِ مصطفیﷺ حصولِ ہدایتِ قرآنِ مجید کا اہم ذریعہ

رب کائنات نے ساری انسانیت کی رہنمائی کے لیے اساسِ دین، اصلِ علوم، اعلیٰ و اشرف نعمات و برکات الہیہ کا دفینہ، جامعیت و اکملیت کا نشان، دقیق و عمیق معارف و لطائف کا خزینہ، ظاہری دلکشی و باطنی محاسن کا مجموعہ، ابدی فلاح و بہبود کی داعی، وقار و ناموس انسانیت کی علمبردار، ارتباطِ علت و معلول اور اتصالِ کلام کا شاہکار، حیاتِ جاودانی و عیش سرمدی کی ضامن، عجائب و غرائب غیر فانی کا مخزن،جواہرِ آبدار و حقائق پر اسرار کا منبع، ضابطۂ حلال و حرام کی کسوٹی، مطالبِ دینیہ و علوم اسلامیہ کا مدار، رشد و ہدایت کا عظیم سرچشمہ ،حق و باطل میں فرق کرنے والی، نسبی تفاخر و وطنی عصبیت کا قلع قمع کرنے والی، امراض باطنی و روحانی سے نجات دلانے والی ، باہمی الفت و محبت کا نیک جذبہ پیدا کرنے والی، شکوک و شبہات سے بالاتر حتمی و آخری کتاب یعنی قرآن حکیم کو نازل فرمایا۔ قرآن حکیم الفاظ کی ترتیب و شفتگی ، بیان کی سلاست و نغمگی، نظمِ آیات و افکار رسانی کا ایسا مرقع ہے جو بنونوع انسانی کو ذہنی، فکری ، جسمانی ،نفسیاتی، تہذیبی غلامی اور باطل نسلی و قومی امتیازات و تعصبات سے آزادی حاصل کرنے کا سلیقہ و طریقہ سکھاتا ہے جس پر عمل پیرا ہوکر انسان درجہ عالیہ و ذروہ قصوی، علمی و عملی وجاہت، حسنِ سیرت و بلند کردار اور اوجِ کمال و شرافت کی اس منزل پر فائز ہوجاتا ہے کہ اگر اس کا خاکی جسم دنیا سے دار البقا کی طرف منتقل ہوبھی جائے تب بھی اس کے روحانی فیوض و برکات سے انسانیت فیض یاب ہوتی رہتی ہے اور تا قیام شمس و قمر بلا لحاظ مذہب و ملت ساری انسانیت اس پاک باز ہستی کو خراج تحسین و عقیدت پیش کرتی رہتی ہے چونکہ قرآنی احکامات پر عمل پیرا انسان خوش رنگ و خوش ذائقہ پھل کی طرح ہوتا ہے یعنی اس کا ظاہری کردار بھی اتنا نفیس ہوتا ہے کہ لوگ اس کی عزت و توقیر کرتے ہیں اور باطنی طور پر پاکیزہ و مطہر کے باوصف وہ عند اللہ بھی مقبول ہوتا ہے۔ یہ معجزانہ کلام قیامت تک بلا تفریق رنگ و نسل تمام نسل انسانی کی رشد و ہدایت کا منبع ہے۔ ارشاد ربانی ہے ’’ ماہِ رمضان المبارک جس میں اُتارا گیا قرآن اس حال میں یہ راہِ حق دکھاتا ہے لوگوں کو اور (اِس میں) روشن دلیلیں ہیں ہدایت کی اور حق و باطل میں تمیز کرنیکی‘‘ (سورۃ البقرۃ آیت 185) رمضان المبارک بے شمار فضیلتوں، برکتوں، رحمتوں اور بخششوں کا مہینہ ہے لیکن اس آیت مبارکہ میں رمضان المبارک کی خصوصیت و امتیاز اور تفوق و برتری کی ایک وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ اسی ماہ مبارک میں قرآن حکیم جیسا فصیح و بلیغ اور مہتم بالشان کلام نازل ہوا ہے جس میں ایسے واضح دلائل اور روشن نشانیاں موجود ہیں کہ اگر کوئی بھی انسان تعصب کا چشمہ اتار کر اس کا صدق دل اور حسن نیت کے ساتھ مطالعہ کرے گا تو اس میں اتنی استعدادو قابلیت پیدا ہوجائیگی کہ اس کے لیے ظلمات و معصیت کی کثافتوں سے نکلنا آسان اور سیدھے راستے پر چلنا سہل ہوجائے گا۔ جن سلیم الفطرت انسانوں کو فقاہت و ہدایت قرآنی سے وافر حصہ نصیب ہوتا ہے وہ خود ساختہ نظریات و مخصوص آرا کو بالائے طاق رکھ کر قرآن و صاحبِ قرآنﷺ کے بیان کردہ جامع و ہمہ گیر احکامات و فرامین کو اپنے لیے شافی و کافی سمجھتے ہیں اور ان کے مطابق اپنے کردار کو ڈھالنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو دنیوی عظمت، عروج، رفعت اور اخروی سعادتیں ان کا مقدر بن جاتی ہیں اور جو لوگ تعلیمات قرآنی سے اعراض کرتے ہیں وہ ذلت و رسوائی کے دلدل میں دھنس جاتے ہیں۔ انسانی زندگی میں مثبت و پاکیزہ تبدیلی، دنیا کی کامیابی اور عقبی کی سرخروی کا مدار ہدایت قرآنی پر منحصر ہے اور قرآنی ارشادات و ہدایات سے کامل طور پر وہی معزم و مکرم ہستیاں مستفید و فیضیاب ہوسکتی ہیں جو صاحب تقوی وعمل ہوں ۔ ارشاد ربانی ہے ’’یہ ذی شان کتاب ذرا شک نہیں اس میں یہ ہدایت ہے پرہیزگاروں کے لیے وہ جو ایمان لائے ہیں غیب پر اور صحیح صحیح ادا کرتے ہیں نماز اور اس سے جو ہم نے انہیں روزی دی خرچ کرتے ہیں اور وہ جو ایمان لائے ہیں اس پر (اے حبیبؐ) جو اتار گیا ہے آپؐ پر اور جو اتارا گیا آپؐ سے پہلے اور آخرت پر بھی وہ یقین رکھتے ہیں‘‘ (سورۃ البقرۃ آیات 2-5) اس آیت پاک میں شاہراہِ ہدایت پر گامزن ہونے کے لیے انسان کے احساسات ستہ یعنی (1) تقوی (2) ایمان بالغیب (3) نماز (4) انفاق (5) رواداری اور (6) ایمان بالآخرت کے بیدار ہونے کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ انسان چونکہ ضعیف واقع ہوا ہے چنانچہ اگر وہ اپنی جانب سے ان احساسات کو بیدار کرنے کی کوشش کرے گا تو اس کی یہ کوشش ناقص ہوگی اس کے برعکس اگر رب کائنات بندے کے ان احساسات کو بیدار کرے تو اس میں اکملیت ہوگی ۔ اللہ تعالی اس نعمت سے انہی اشخاص کو سرفراز فرماتا ہے جسے وہ چاہتا ہے ارشاد ربانی ہوتا ہے ’’ اللہ تعالی چُن لیتا ہے اپنی طرف جس کو چاہتا ہے اور ہدایت دیتا ہے اپنی طرف جو (اس کی طرف) رجوع کرتا ہے ‘‘ (سورۃ الشوریٰ آیت 13) اور ایک آیت پاک میں اس طرح ارشاد فرمایا گیا ’’اللہ تعالی نے فرمایا میرا عذاب پہنچاتا ہوں میں اسے جسے چاہتا ہوں اور میری رحمت کشادہ ہے ہر چیز پر سو میں لکھوں گا اس کو ان لوگوں کے لیے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور ادا کرتے ہیں زکوٰۃ اور وہ جو ہماری نشانیوں پر ایمان لاتے ہیں‘‘ (سورۃ الاعراف آیت 156)۔ یعنی رحمت کردگار کے مستحق وہی اشخاص ہوں گے جو مذکورہ بالا صفات عالیہ سے متصف ہوں گے ۔ ان صفات مرضیہ میں تقوی کو بڑی اہمیت حاصل ہے چونکہ یہ تمام حسنات کی اساس ،تمام انبیا و مرسلین کی تعلیمات کا لبِ لباب اور مومن کے عرفانی مدارج کا کمال ہے۔یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ صفت تقوی کے بغیر تمام حسنات کی بارگاہ رب العزت میں کوئی وقعت نہیں ہے بندے کے وہی افعال واعمال صالحہ شرف قبولیت حاصل کرتے ہیں جو مبنی پر تقوی ہوں۔ اس بات سے اس طرف بھی اشارہ ملتا ہے کہ تقوی سے بڑھ کر کوئی رحمت، نعمت اور فضل نہیں ہے چونکہ قرآن حکیم کی ہدایت کا مدار بھی اسی صفت عالیہ پر منحصر ہے اور اللہ تعالی اس نعمت عظمی سے انہی بندوں کو سرفراز فرماتا ہے جو جانِ ایمان و روحِ دین یعنی ادبِ مصطفی بجالاتے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے ’’بے شک جو پست رکھتے ہیں اپنی آوازوںکو اللہ کے رسول کے سامنے، یہی وہ لوگ ہیں مختص کرلیا ہے اللہ نے ان کے دِلوں کو تقوی کے لیے‘‘ (سورۃ الحجرات آیت 3) یعنی جو امتی ادب و احترام مصطفیﷺ کو ملحوظ رکھتا ہے رب کائنات اسے نعمت خاصہ یعنی تقوی کی دولت عنایت فرماتا ہے جو نہ صرف حصولِ ہدایتِ قرآنی کا اہم ذریعہ ہے بلکہ قبولیت اعمال صالحہ کا سبب بھی ہے۔ قرآن حکیم ارشاد فرماتا ہے ’’قبول فرماتا ہے اللہ صرف پرہیزگاروں سے‘‘ (سورۃ مائدہ آیت 27) یعنی بارگاہِ ایزدی میں وہی اعمال قبولیت کا درجہ پاتے ہیں جو تقوی پر مبنی ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انسان کی پہچان علم سے نہیں بلکہ ادب سے ہوتی ہے کیونکہ علم تو ابلیس کے پاس بھی تھا وہ تو معلم الملائکہ تھا لیکن وہ ادب کی نعمت سے محروم تھا اسی لیے اسے جنت سے نکال دیا گیا۔ چونکہ اللہ تعالی چاہتا ہے کہ بنی آدمؑ جنت کے مستحق ہوجائیں اسی لیے وہ امام الانبیا و سید المرسلینﷺ کو مبعوث فرمایا تاکہ ہم آپﷺ کا ادب بجالاکر جنت کے مستحق بن جائیں ۔ خالق کونین فرماتا ہے ’’ بے شک ہم نے آپ کو گواہ بناکر (اپنی رحمت کی) خوشخبری سنانے والا (عذاب سے) بروقت ڈرانے والا۔ تاکہ (اے لوگو!) تم ایمان لائو اللہ پر اور اس کے رسول پر اور تاکہ تم ان کی مدد کرو اور دل سے ان کی تعظیم کرو‘‘ (سورۃ الفتح آیات 8-9)۔ منصبِ نبوت کے احترام اور عظمتِ پیغمبرانہ کو ملحوظ رکھنا ہی ایمان کی دلیل اورتاج و تخت ختم نبوت کے تاجدارﷺ سے انتہائی و حد درجہ ادب ،تکریم، تعظیم و توقیر پر مبنی تعلق استوار رکھنا عاشقان مصطفی کا ہمیشہ سے طرہ امتیاز رہا ہے جس کا بنیادی تقاضہ یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی کا ہر لمحہ اتباع و اطاعت خیر الوریﷺ میں گزارے جس کی طرف ہر دور کے اکابرِ ملت بیضاء و مصابیح شریعت غرا وقتا فوقتاً انسان کی توجہ مبذول کرواتے رہتے ہیں۔ عید میلاد النبیﷺ کے موقع پر توبہ و استغفار، ذکر و اذکار، پند و نصائح ، شکر و تحدیثِ نعمت کی محافل، جلسے و جلوس اور رفاہی کاموں کا بصد خلوص و احترام اہتمام کریں لیکن کوئی ایسی حرکت نہ کریں جوادب و تعلیماتِ مصطفیﷺ کے مغائر ہو۔ جیسے جلوس میں بلاضرورت آوازیں بلند کرنااور فلک شگاف نعرے لگانا، دانستہ یا نادانستہ طور پرشاہراہوں کو مسدود کردینا، نماز کا وقت ہونے کے باجوود ادائیگی نماز کا اہتمام نہ کرنا وغیرہ ۔ یہ بات ہمیں ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ اغیار ہمارے افعال کے ذریعہ اسلام کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں گویا دنیا ہمیں سفیر اسلام کی حیثیت سے دیکھتی ہے لہذا ہمیں بہت ہی محتاط رہنا ہوگا چونکہ جہاں کوئی شحض ہمارے نیک عمل سے متاثر ہوکر حلقہ بگوش اسلام ہوسکتا ہے وہیں ہماری غیر شرعی حرکات اور بداعمالیوںکو دیکھ کر اسلام سے بدظن بھی ہوسکتا ہے (العیاذ باللہ) اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفی ﷺ ہمیں قرآن اور صاحبِ قرآنﷺ کی تعلیمات کے مزاج کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔

ازقلم: پروفیسر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری الملتانی
کامل الحدیث جامعہ نظامیہ ، M.A., M.Com (Osm)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے