الحمد للّٰہ کعبہ کی زیارت اور دیار حرم کی حاضری نصیب ہوئی، برسوں کی دلی تمنا ، چاہت ،خواہش اور آرزو پوری ہوئی، آج یہاں آئے ہوئے دس دن پورے ہونے کو ہے اور آج ہی13/ اکتوبر کو مدینہ منورہ کے لیے ظہر بعد روانہ ہونا ہے ، یہ نو دس دن کس طرح گزر گئے،پتہ ہی نہیں چلا ،محسوس ہوتا ہے کہ ابھی تو کل ہی آئے ہیں اور ابھی چند گھنٹے ہی گزرے ہیں ، یہاں سے جانے اور حرم کو الوداع کہنے کو دل تیار نہیں ہے، یہاں کی جدائی برداشت نہیں ہے، جی چاہتا ہے برسوں اور سالوں یہاں قیام کی کوئی صورت،سبیل اور توفیق مل جائے اور ارض مقدس میں نماز و عبادت، ذکر وتلاوت اور کعبہ کا طواف اور سعی بین الصفا و المروہ کی سعادت برابر ملتی رہے ۔
سنتا تھا اور کتابوں میں پڑھتا تھا کہ جب بندئہ مومن کو ارض مقدس کی حاضری نصیب ہوتی ہے اور کعبة اللہ پر نظر پڑتی ہے تو دل کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی ہیں ،آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں ،روح رقص کرنے لگتی ہے ،ایمان کی حرارت تیز ہو جاتی ہے اور خوابیدہ جنوں بیدار ہو جاتا ہے اور اظہار عقیدت کی دھن میں اظہار تمنا بھول جاتا ہے ۔
واللہ یہاں آکر وہی منظر وہی سماں دیکھا اور وہی سب کچھ محسوس کیا، لاکھوں لاکھ کا مجمع ہر وقت، لیکن نہ کوئی خوف نہ گھبراہٹ اور نہ کوئی دقت اور پریشانی ہر شخص اپنے آپ میں مگن ،اپنی، دعا،تلاوت ، عبادت ،طواف اور سعی میں مشغول اور اپنے رب کے حضور دعا و مناجات میں منھمک، ۔۔۔۔
قرآن مجید کی یہ شہادت کہ،، کعبة الللہ ،، مثابتة للناس و امنا ،، ہے ۔ اس آیت کی تفسیر طواف کعبہ، سعی بین الصفا و المروہ اور یہاں کے نظارہ کو دیکھنے کے بعد سمجھ میں آتی ہے ۔۔۔ اللہ تعالیٰ ہر مومن کو یہاں تک پہنچائے اور اس مقام کی زیارت نصیب فرمائے آمین یا رب
ہمارے بہت سے محبین اور قارئین کی خواہش ہے کہ اس سفر کا روداد سفر لکھوں اور آنکھوں دیکھا حال لوگوں تک پہنچاؤں اور سناؤں، تاکہ شوق کو مہمیز لگے اور ہر شخص یہاں آنے کی کوشش کرے اور اپنے رب سے اس کی التجا کرے۔ دوران سفر تو یہ ممکن نہیں ہے ،ان شاءاللہ واپسی کے بعد ان کی خواہش کی تکمیل کروں گا اور سفر نامہ لکھنے کی کوشش کروں گا ، کچھ یاد داشتیں ڈائری پر نوٹ کرلی ہیں ، ۔۔
آج صرف اپنے احساسات و جذبات کو شاعر کے بعض اشعار کی شکل میں پیش کر رہا ہوں ۔ کیونکہ وہی میرے بھی جذبات ہیں جو انہوں نے اپنے اشعار میں کہے ہیں ۔
یارب مری آنکھوں کو نظارئہ کعبہ دے
اس بیت مقدس کا جلوہ مجھے دکھلا دے
اے کاش ترے در پر ہو میری جبیں سائی
وہ شوق فراواں دے اور جذبئہ سجدہ دے
اللہ یہ کیا عظمت اور شان ہے کعبہ کی
وہ ذوق نظر یارب اور محو تماشا دے
کعبہ کی ہر اک شئے کو بوسہ دوں عقیدت سے
ایسا لب پاکیزہ مجھ کو مرے مولا دے
حاضر ہوں تیرے گھر میں لبیک زباں پر ہے
ہو لطف و کرم یارب عاصی پہ توجہ دے
ہو جائے مجھے حاصل بس تیری رضا مندی
مقبول مرا عمرہ ہو یہ شرف خدایا دے
یارب یہ شقی عامر آلودئہ عصیاں ہے
اس بندئہ عاصی کو تقویٰ دے تقویٰ
محمد امین عامر
زائر حرم حمید صدیقی کے یہ اشعار بھی ذہن میں گردش کرتے رہے اور گنگناتا رہا ۔
جلوئہ کعبہ سے دل بے ہوش ہے
کس غضب کا آج کیف و جوش ہے
دیکھ کر انوار بیت اللہ کے
دل ہے سکتہ میں زباں خاموش ہے
محو کر دیتی ہے اواز اذاں
جس کو دیکھو وہ سراپا گوش ہے
پردئہ کعبہ پہ کیوں نظریں ہیں لوٹ
کیا وہ اس پردہ میں خود روپوش ہے
سایئہ میزاب رحمت میں ہوں میں
وا حطیم پاک کی آغوش ہے
جھومتی آتی ہے طیبہ سے گھٹا
کس قدر ابر کرم کا جوش ہے
چاہ زمزم پر کھڑے ہیں تشنہ لب
ہر طرف گلبانگِ نوشا نوش ہے
ساقئی کوثر کی دھن ہے اور حمید
بے پئے سرشار ہے مدہوش ہے
اقبال عظیم کے یہ اشعار بھی میرے موافق حال ہیں، عمرہ کے سفر کا انتظام غیب سے ہوا ، کوئی انتظام نہیں تھا ، لیکن دل سے دعا کرتا رہا اور اللہ سے التجا کرتا رہا کہ بار الہا ! تو نے شفا کی دولت سے نوازا تو اب اپنا پاکیزہ اور بابرکت گھر بھی دکھا دے ۔ قبولیت کی کوئی گھڑی رہی ہوگی اللہ نے سن لیا ،یہ اس کا کرم اور احسان ہے۔
مجھ کو حیرت ہے کہ میں کیسے حرم تک پہنچا
مجھ سا ناچیز در شاہ امم تک پہنچا
ماہ و انجم بھی ہیں جس نقش قدم سے روشن
اے خوشا آج میں اس نقش قدم تک پہنچا
کتنے خوش بخت ہیں ہم لوگ کہ وہ ماہ تمام
اس اندھیرے میں ہیمں ڈھونڈ کے ہم تک پہنچا
اس کو کیا کہتے ہیں ارباب خرد سے پوچھو
کیسے اک امی لقب لوح و قلم تک پہنچا
راز اس اشک ندامت کا کوئی کیا جانے
آنکھ چل کے جو دامان کرم تک پہنچا
نعت کہنے کو قلم جب بھی اٹھایا اقبال
قطرئہ خون جگر نوک قلم تک پہنچا
حکیم اختر صاحب رح کے یہ اشعار بھی ذہن میں گردش کرتے رہے اور گنگناتا رہا ۔
کرم سے ان کے میرے سامنے ان کا حرم آیا
ہماری زندگی کا وقت وقت مغتنم آیا
کرم سے رب کعبہ کے دعا یاں رد نہیں ہوتی
نظر کے سامنے قسمت سے میری ملتزم آیا
یہاں کا ذرہ ذرہ مظہر انوار کعبہ ہے
یہ مالک کا کرم ہے اس پہ جو اس کے حرم آیا
اگر چہ پر خطا ہے پر کہاں جائے تیرا بندہ
ترے در پر ترا بندہ بہ امید کرم آیا
زبان شکر قاصر ہے نطق میں دم نہیں اختر
میری امید سے زیادہ نظر ان کا کرم آیا
(جاری)
تحریر: محمد قمر الزماں ندوی