اللہ کے رنگ میں رنگ جاؤ کہ اس کا رنگ ہی نجات کا ذریعہ اور سب سے اچھا رنگ ہے۔
دنیا میں ایک پہچان رنگ سے بھی ہوتی ہے ۔ہرا ،نیلا ،لال ،گلابی زاعفرانی ۔کچھ رنگ ہیں جو قوموں ،علاقوں ،جنس سے منسوب ہوگئے اور علامات ،وضع قطع پگڑی،شلوار،ساڑی سے۔ کچھ مذہب ،نظریے،تحریک،نام ،جماعت،تنظیم اور مومینٹ آندولن سے۔ کچھ امن کے پیغام بر جیسے سفید رنگ، تو کوئی نفرت کی علامت کا آنکھوں کو خیرا کرنے والا زعفرانی رنگ۔ کوئ رنگ جنس کا نمائندہ تو کوئ آفاق کی علامت ۔
رنگ باتیں کریں اور رنگوں سے خوشبو آئے
ڈریس کوڈ بھی علامت ہے قوموں ،مذاہب اور نظریات Civilization کی۔۔لال رنگ انقلابی بھی ہے اور اشتراکی بھی۔گلابی رنگ نسائ اور پھر ہرا رنگ خضراء کا رنگ اور مسلمانوں سے منسوب تو بھگوا ،کیسری،زعفرانی علامت ہے تشدد وفسطائ نظریات کا ۔ رنگوں کی تقسیم میں نیلا رنگ پہچان بنا سماج کے ایک خاص طبقے اور ریزرویشن کی جدو جہد کا۔
برقعہ ،حجاب ،ڈاڑھی ،ٹوپی ،اور ایک خاص وضع کا لمبا کرتا ،اونچا پاجامہ۔۔ امامہ اور خاص طرز کی ٹوپی ایک الگ پہچان بنی۔۔۔۔پینٹ ،شرٹ،چھوٹی ڈاڑھی وسیع تصور دین ، حوالے اور احادیث دوسرے گروپ کی پہچان۔
جب کسی علامت کے ساتھ دیکھیں تو فورا اندازہ لگا لیا جاتا ہے کہ یہ فلاں ہیں ۔۔۔جیسا کہ اسٹیج سے مترو کہنے والے سے سنے ملا ،اور کہا
ہم کپڑوں سے پہچان لیتے ہیں
جب آپ گارڈن، پارک ،کینٹین ،ویران جگہ،اندھیرے کی اوٹ لیے کسی برقعہ پوش لڑکی کو کسی جوان کے ساتھ تنہا اور بائک پر سوار،اندر جنس ٹی شرٹ پہنے یا راہ چلتے غلط حرکت کرتے دیکھیں تو ذہن فورا اس کے مذہب اور اس کی قوم کی طرف اور یاد آجاتی ہے اس مذہب کی خاص تعلیم پردہ،حجاب کی کہ دیکھو سونے پہ سہاگہ ۔کیا ڈھٹائ ہے،کیا سینہ زوری ہے۔ کہ ڈریس کوڈ کے ساتھ یہ Vulgarety۔۔۔۔
جب کوئ لمبی داڑھی ،ٹوپی ،چوغہ والا سرے عام غلطی کر بیٹھے،زبان درازی کرنے لگے،جھگڑے اور گالی گلوچ کرے ،کم تولے ،بے ایمانی کرے ، جھوٹ بول کر کاروبا کرے ،دھوکا دے،بد زبانی کرےتو نگاہ اٹھتی ہے اس کی پہچان اس کے مذہب اور مذہب کی تعلیمات پر اور رائے قائم کی جاتی ہے کہ اسے دیکھو اور اس کے عمل کو ۔ اسی لیے تو کہا گیا کہ برائ اگر عام لڑکی کرے ،عام آدمی جھگڑا کرے تو اسے عمومی نگاہ سے دیکھا پرکھا جائے گا اور خاص ڈریس کوڈ والے کی طرف سے بے حیائ، بےہود گی ،عریانیت ،فیشن اور بد اخلاقی کا مظاہرہ ہو تو پھر بدنام ہوتا ہے ان کا مذہب اور قوم !۔لوگ کتابوں ،صحیفوں میں لکھی تعلیمات کو کم اور چلتے پھرتے کردار ذیادہ دیکھتے اوران سے اچھا برا اثر لیتےاور رائے قائم کرتے ہیں۔
زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو
برناڈ شاہ کا ایک غلط سلط قول رائج ہے کہ
"اسلام ایک بہت اچھا مذہب ہے لیے لیکن اس کے ماننے والے اچھے نہیں”
ایک مسلم لڑکی برقعہ حجاب کے ساتھ غیر مسلم لڑکے کے ساتھ غلط جگہ نظرآئے تو شک کی سوئی گھومتی ہے مسلم گھرانے کی تربیت پر پوری قوم وملت کی بے حسی کی طرف ۔ مسلم لڑکی کی مندر میں شادی کرے اور پولس اسٹیشن میں پوری ڈھٹائی کے ساتھ اپنےوالد کو اور اپنے مذہب کو برا بھلا بول کر اپنی مرضی اور بلوغ کا حق استعمال کرے تو اس کے ارتداد کا خوب پروپگنڈہ کیا جاتا اور اسے مثال بنائ جاتی ہے ۔
سارے لوگ ایسے نہیں نہ ہی عملی مسلم خواتین ایسی ہیں،لیکن جو دیکھنے ،سنے پڑھنےاور تذکرہ میں آرہا ہے وہ بھی کم نہیں۔۔
اصلاح معاشرہ اور برائیوں سے روکنے والے اور عوام کہتے ہیں کہ برقعے ،اور ڈریس کوڈ میں غیر مسلم اور اسلام دشمن، مسلمانوں اورمذہب اسلام کو بدنام کرنے کے لیے عوامی جگہوں پر ایسا کر رہیے ہیں ۔اس بات کی کتنی حقیقت ہے ہر محلہ اور شہر کے لوگ تجزیہ کرکے اس کی حقیقت معلوم کرسکتے ہیں۔اور اپنا جائزہ ومحاسبہ کر سکتے ہیں۔
ضرورت ہے اصلاح کی ،اپنے ڈریس کوڈ کی لاج اور اس کے تقدس کی جو غیروں کی نگاہ میں تمہاری پہچان بن گئ ہے ۔باقی تو سارا دارومدار نیت،ارادے ،مکافات عمل کا ہے اور ہر ایک اپنی جگہ ذمہ داراور جواب دہ ہے خواہ اس کا لباس،حلیہ Practicing muslim کا ہو نہ ہو۔۔۔۔
کوشش کیجیے کہ جس ڈریس کوڈ کو آپ نے اپنایا ہے اس پہچان سے مذہب کی غلط تصویر پیش کرنے والے اور لوگوں کو اپنے مذہب(دین) سے دور کرنے والے ہم خود نہ بن جائیں۔آپ کا اخلاق وکردارآپ کا اٹھنا بیٹھنا،چلنا پھرنا اسلام کی منہ بولتی تصویر بن جائے۔
میں الزام اس کو دیتا تھا
قصور میرا نکل آیا
کس رنگ میں رنگنا ہے تو اللہ کے رنگ میں رنگ جاؤ۔ڈریس کوڈ کی لاج آپ کے ہاتھ ہےاس لیے کہ آپ حجاب اور لباس کے ذریعے سے اپنے عملی مسلمان ہونے کے دعوے دار ہیں ۔
ایک فرد کی غلطی ایک اکیلے کی غلطی دیکھی جاتی ہے اور ایک نمائندےPracticing muslim and non practicing muslim کی غلطی اس کی قوم اور مذہبی پہچان کی نمائندگی کرتی ہے۔۔ہم اس بات کا دھیان رکھیں گے کہ بحیثیت مسلم ڈریس کوڈ اور عملی مسلمان ہوتے ہوئے ہماری غلط تصویر لوگوں کو ہماری مذہبی پہچان کی وجہ سے دور نہ کردے اور ہم خوداسلا
م کی دعوت میں رکاوٹ نہ بن جائیں۔ پولس کی چھاپہ ماری میں مظفر نگر کی بہ حجاب ،برقعہ پردہ والی مسلم لڑکیوں کی ہوٹل کی تصویروں کا وائرل کیا جانا اسی پہچان اور ان کے مذہب کو بدنام کرنے کی سازش بھی ہے اور کیا یہ منہ بولتی تصویر حقیقت پر پردہ ڈال دے گی ۔
شاخ نازک پہ جو بنے گا وہ آشیاں نا پائیدار ہوگا
تحریر: عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری
9224599910