سورۃ اٰل عمران: ایک مختصر تعارف

سورۂ اٰل عمران مدنی سورتوں میں شامل ہے ، اس میں دوسو آیات مبارکہ اور ٢٠ بیس رکوع آئے ہیں، اس سورہ کا نام اٰل عمران اس لئے رکھا گیا کہ ایک جگہ پر اٰل عمران کا ذکر آیا ہے۔ ’’عمران‘‘ کے متعلق مفسرین نے لکھا ہے کہ عمران ، حضرت موسؑیٰ اور ہاروؑن کے والد کا نام تھا۔ پہلی سورت سورۃ فاتحہ پورے قرآن کا خلاصہ ہے۔ اس کے آخر میں ’’صراط مستقیم‘‘ کی ہدایت طلب کی گئی تھی ، سورۃ بقرۃ ’’الٓمّٓ ذَالِکَ الْکِتٰبُ‘‘ سے شروع کیا گیا گویا اس طرف اشارہ کردیا گیا کہ سورۃ فاتحہ میں جو سیدھے راستے کی دعا کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو قبول کرکے یہ قرآن بھیج دیا ہے ، جو صراط مستقیم کی ہدایت کرتا ہے۔
سورۃ اٰل عمران کا بغور مطالعہ سے ہم پر یہ بات واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ ، اس میں چار طرح کے بیان اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے ہیں، آغاز سورۃ سے لے کر ، قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اﷲَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اﷲُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاﷲُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (۳۱) قُلْ اَطِیْعُوا اﷲَ وَالرَّسُوْلَ ج فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اﷲَ لَایُحِبُّ الْکَافِرِیْنَ (۳۲) تک پہلا خطاب ہوا جو غالباً جنگ بدر کے بعد کا قریبی زمانہ تھا۔
دوسرا خطاب اِنَّ اﷲَ اصْطَفٰی اٰدَمَ وَنُوْحًا وَاٰلَ اِبْرَاھِیْمَ وَاٰلَ عِمْرَانَ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ (۳۳) سے شروع ہوکر فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اﷲَ عَلِیْمٌ م بِالْمُفْسِدِیْنَ (۶۳) تک ہوتا ہے ، یہ ۹؍ہجری میں وفدِ نجران کی آمد کے موقع پر ہوا۔
تیسرا خطاب قُلْ یٰـاَھْلَ الْکِتَابِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآئً سے شروع ہوکر اِنَّ اﷲَ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْط آیت ۱۲۰ پر ختم ہوتا ہے۔
اس کا چوتھا خطاب جوکہ جنگ اُحد کے بعد نازل ہوا جس کا آغاز یوں ہوتا ہے ، وَاِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَھْلِکَ تُبَوِّئُ الْمُوْمِنِیْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ ط سے شروع ہوکر اس کا اختتام یٰـاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْاقف وَاتَّقُواﷲَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ پر ہوتا ہے ۔
غرض کہ ان چاروں اجزائے کلام پاک کو ملانے سے جو چیز ایک مسلسل مضمون بناتی ہے ، وہ ہے ،ایک اصل مرکزی مضمون کی یکسانیت اور پوری سورۃ میں خاص طور پر دو گروہ کی طرف توجہ دی گئی۔ پہلا گروہ یہود و نصاریٰ کا ، قرآن جسے اہل کتاب سے خطاب کرتا ہے ، دوسرا گروہ وہ ہے جسے قرآن حکیم میں ائے ایمان والو کے نام سے پکارا جاتا ہے ، اور انھیں کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّتٍ کے القاب سے بھی نوازا گیا ہے۔
آخر میں اس سورۃ بقرہ کو ’’فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْنَ‘‘ کے دعائیہ جملہ پر ختم کیا گیا تھا لہٰذا اب (کفار پر غلبہ حاصل کرنے کی جو دعا سورۃ بقرۃ کے ختم پر کی گئی تھی) سورۃ اٰل عمران میں اس کی تشریح و تفصیل بیان کی جارہی ہے۔
سورۃ اٰل عمران میں اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) کو جو دین حق کی مخالفت پر کمربستہ تھے ، دلائل پیش کئے گئے اور ان کو اس بات پر جھنجوڑا گیا کہ ، آخر تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے اور آپؐ کی رسالت کا اقرار کرنے کے منکر کیوں ہو جبکہ حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ ا تمہیں دین کی طرف دعوت دے رہے ، یہ کوئی نئ دعوت نہیں بلکہ یہ دعوت وہ عظیم دعوت ہے جسے تمام انبیاء علیہم السلام دیتے رہے ، اور جس دین کی دعوت محمدؐ (آخری نبیؐ) دے رہے ہیں یہ اس دین حق کی آخری کڑی ہے اہل کتاب اصل دین میں بگاڑ پیدا کرچکے تھے ، ہر قسم کی گمراہیوں میں مبتلا ہوچکے تھے ان کی اعتقادی و اخلاقی خرابیوں پر گرفت کرتے ہوئے ان سے کہا گیا کہ تمہارے یہ اعمال خود ساختہ ہیں کیونکہ تمہارا عقیدہ و عمل اور تمہارے اخلاق و کردار خود تمہاری کتابوں سے میل نہیں کھاتے حالانکہ تم ان کتب آسمانی کو تسلیم کرتے ہو۔ یہود کی بدعنوانیوں پر تفسیر ضیاء القرآن میں، پیر محمد کرم شاہ صاحبؒ الازہری یوں تحریر فرماتے ہیں۔
’’آیات ۲۰ تا ۲۵ میں یہود کی بدعنوانیوں ، سرکشیوں اور حق سے دانستہ انکار اور اہل حق پر ظلم و ستم توڑنے ان کو بے رحمی سے قتل کردینے کی دیرینہ عادت کا ذکرکیا جارہا ہے۔ اور اس پر انھیں قیامت کے دن کی سختیوں کی یاد دلاکر تنبیہ کی جارہی ہے تاکہ وہ اپنی اس روش سے باز آجائیں۔ نیز ان کی اس غلط فہمی کا رد بھی کردیا جس میں وہ بُری طرح مبتلا تھے کہ وہ خواہ کچھ بھی کرتے رہیں۔ ان کو یا تو عذاب ہوگا ہی نہیں اور اگر ہوا بھی تو گنتی کے چند روز، انھیں واضح طور پر بتادیا گیا کہ یہ تمہاری من گھڑت باتیں ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں بلکہ تم سے تمہاری ہر بدکاری کی سخت باز پرس ہوگی اور تمہیں تمہاری کارستانیوں کی پوری سزا دی جائے گی‘‘۔ (جلد اول صفحہ ۲۱۷ حاشیہ ۲۵)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حقیقت یہود کی افتراء بازیوں ، بہتان تراشیوں اور نصاریٰ کے مبالغہ آرائیوں میں گم ہوکررہ گئی تھی۔ قرآن نے یہ سارے پردے ہٹادیئے ان کی اور ان کی والدہ کی طہارت و پاکیزگی ، ان کی عجیب و غریب پیدائش ، ان کے حیران کن معجزات بھی بیان کردیئے اور ان کا بندہ ہونا بھی ثابت کردیا۔ نجرانی مسیحیت جن کا تقدس دور دور تک تھا ، قرآن حکیم نے ان کے باطل افکار و خیالات کا علم کی روشنی میں رد کیا اور ان کو بتادیا گیا کہ صحیح کیا ہے غلط کیا ہے ، جب یہ لوگ (وفد نجران) پھر بھی ہٹ دھرمی کا رویہ اختیار کرچکے تو قرآن نے ایک بہت بڑا چیالنج ان کے سامنے رکھا کہ یہ علم آجانے کے بعد اب جو کوئی اس معاملہ میں آپ ا سے جھگڑا کرے تو اے محمد ! اس سے کہو کہ ’’آؤ ہم اور تم خود بھی آجائیں اور اپنے بال بچوں کو بھی لے آئیں اور خدا سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اس پر خدا کی لعنت ہو‘‘ اس آیت کے ذیل میں تفسیر ضیاء القرآن میں یہ تحریر ملتی ہے کہ : بنی نجران کے وفد کے تمام شکوک و شبہات کا قرآن حکیم نے تحقیقی جواب دے دیا اور ایسے واضح اور روشن دلائل پیش فرمائے جن کے بعد کسی طالب حق کیلئے انکار کی گنجائش نہ رہی ، لیکن جب اُنھوں نے پھر بھی دعوت توحید کو قبول نہ کیا اور اپنے عقیدہ ’’تثلیث‘‘ پر اڑے رہے تو ان معاندین پر حجت قائم کرنے کیلئے اللہ نے اپنے رسول کو ان سے مقابلہ کرنے کا حکم دیا۔ (جلد اول صفحہ ۲۳۸)
واقعہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حکم کے عین مطابق ، مباہلہ کرنے اپنے اہل و عیال کے ساتھ تشریف لائے ، جب اِنھیں مباہلہ کیلئے بلایا گیا تو ان کا (لاڈ پادری) اپنے گروہ کے لوگوں سے کہنے لگا کہ محمد سے مباہلہ کیا تو تمہارا نام نشان مٹ جائے گا۔ اس طرح ان لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے آپس میں خود مشورہ کے لئے کچھ وقت مانگا اور دوسرے ہی دن مبالہ کرنے سے انکار کردیا اور جزیہ ادا کرنے کیلئے تیار ہوگئے۔ اگر وہ اپنے موقف میں سچے ہو تے تو مباہلہ سے انکار نہ کرتے ، اس طرح ان کا جھوٹ ثابت ہوگیا اور اسلام کی حقانیت ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور خدائے تعالیٰ کی وحدانیت ہر اس شخص کے سامنے آگئی جو طالب حق ہے۔
دوسرا وہ گروہ جسے خیر اُمت بناکر حق کا علمبردار اور دنیا کی اصلاح کیلئے اُٹھایا گیا ہے انھیں ابتدائی طور پر سورۃ بقرہ میں ہدایات دی گئی ، اب اس سورۃ آل عمران میں مزید تربیت کا سامان مہیا کیا جارہا ہے۔ مولانا مودودیؒ کی تحریر سے چند اقتباسات یہاں پر نقل کئے جاتے ہیں۔
’’انھیں بتایا گیا ہے کہ ایک مصلح جماعت ہونے کی حیثیت سے وہ کس طرح کام کریں اور ان اہل کتاب اور منافق مسلمانوں کے ساتھ کیا معاملہ کریں جو خدا کے راستے میں طرح طرح سے رکاوٹیں ڈال رہے تھے انھیں اپنی ان کمزوریوں کی اصلاح پر بھی متوجہ کیا گیا ہے جن کا ظہور جنگ اُحد کے سلسلہ میں ہوا تھا‘‘۔
’’جنگ بدر میں اگرچہ اہل ایمان کو فتح حاصل ہوئی تھی لیکن یہ جنگ گویا بھیڑوں کے چھتّے میں پتھر مارنے کی ہم معنی تھی اس اولین مسلح مقابلہ نے عرب کی سب طاقتوں کو چونکا دیا تھا ، جو اس نئی تحریک سے عداوت رکھتی تھیں‘‘۔ہجرت کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اطراف مدینہ کے یہودی قبائل کے ساتھ جو معاہدے کئے تھے ان لوگوں نے ان معاہدات کا ذرہ برابر پاس نہ کیا۔
جنگ بدر کے موقع پر ان اہل کتاب کی ہمدردیاں توحید و نبوت اور کتاب و آخرت کے ماننے والے مسلمانوں کے بجائے بت پوجنے والے مشرکین کے ساتھ تھیں۔آخرکار جب ان کی شرارتیں اور عہد شکنیاں حد برداشت سے گزر گئیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے چند مہینے بعد انھیں اطراف مدینہ سے نکال باہر کیا۔ اس کے بعد یہودیوں نے مدینہ کے منافق مسلمان اور حجاز کے مشرک قبیلوں کے ساتھ ساز باز کرکے اسلام اور مسلمانوں کے لئے ہر طرف خطرات ہی خطرات پیداکردیئے ، حتیٰ کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کے متعلق ہر وقت اندیشہ رہنے لگا ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا حال یہ تھا کہ حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ دیر کے لئے بھی نظروں سے اوجھل ہوجاتے تو ، آپ کو تلاش کرنے کے لئے نکل پڑتے، بدر کی شکست کے بعد کفار قریش کے دلوں میں انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی اور یہودیوں نے بھی ان کو خوب شہ دی ، آخرکار جنگ بدر کے ایک سال بعد قریش نے تین ہزار کا لشکر جرار لے کر مدینہ پر حملہ کرنے کیلئے مکہ سے نکل پڑے اور اُحد کے دامن میں لڑائی پیش آئی ، جسے جنگ اُحد کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس جنگ کے سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہزار آدمیوں کے لشکر کو لے کر مدینہ شریف سے نکلے ، لیکن جو منافق تھے وہ یکایک مجاہدین سے الگ ہوگئے اور راستے ہی سے واپس مدینہ پلٹ گئے جن کی تعداد تین سو تھی۔ جنگ اُحد کے موقع پر ہی اس بات کا پتہ چلا کہ مسلمانوں کے ارد گرد کتنے مارِ آستین موجود ہیں۔ غرض کہ جب لڑائی شروع ہوئی تو مسلمانوں کا پلہ بھاری ہوگیا اور مشرکین بھاگنے لگے ، لیکن جس درہ پر ایک دستہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے متعین کردیا تھا اس ہدایت کے ساتھ کہ چاہے ہمیں فتح ہو یا شکست تم کسی صورت میں اس جگہ کو نہ چھوڑنا ، لیکن اس متعین کردہ دستہ میں سے کئی لوگ مال غنیمت حاصل کرنے کیلئے دوڑ پڑے اور جو چھوٹا سا دستہ درہ پر باقی رہ گیا وہ دشمن کی فوج کا مقابلہ نہ کرسکا اس طرح کفار نے پیچھے سے حملہ کردیا اور مسلمانوں کے ستر اصحاب شہید ہوگئے۔
مستفاد واقتباسات تفہیم القرآن۔
اس طرح ایک جیتی ہوئی جنگ ایک معنی میں شکست میں بدل گئی۔ محض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر پوری طرح عمل نہ کرنے کی وجہ اتنا بڑا نقصان ہوگیا۔ جن لوگوں سے حکم کی تعمیل میں سہو ہوا تھا ، ان کی سرزنش کی گئی اور فرمایا کہ ’’بعض تم میں طلب گار ہیں دنیا کے اور جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق درہ کو نہ چھوڑا ۔ان میں حضرت عبداللہ بن جبیرؓ اور آپ کے ساتھی جن کی تعداد ١٠دس ہے ، …ان کے متعلق فرمایا گیا …’’اور بعض تم میں سے طلبگار ہیں آخرت کے‘‘ ۔
اور جن لوگوں سے اس میں لغزش ہوچکی تھی، اللہ نے اپنے فضل و کرم کا اظہار فرماتے ہوئے ’’وَلَقَدْ عَفَا عَنْکُمْ‘‘ کے الفاظ کے ساتھ ان کی معافی کا اعلان فرمادیا۔
غرض کہ اس سورۃ کی آیت نمبر۱۰۰ سے لے کر ختم سورت تک یہ بتادیا گیا کہ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چاہنے والوں کےلیے، کس طرح کا عمل اپنی زندگی کے ہر موڑ پر کرنا چاہئے!

ازقلم: محمد عبدالحفیظ اسلامی
سینئر کالم نگار
فون نمبر : 9849099228

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے