سود کی قباحت قرآن وحدیث کی روشنی میں

چوری ، ڈاکہ ، جھوٹ ، دھوکہ دغا، فریب ،قتلِ ناحق ، گالی گلوچ ، بدخلقی ، وعدہ خلافی الزام تراشی ، بہتان ، بدکاری ، رشوت اور حق تلفی یوں تو تمام ہی چیزیں گناہ وجرم ہونے کے اعتبار سے بڑی ہلاکت خیز فتنہ انگیز اور روحانی تباہی کا ذریعہ ہیں اور انسانی زندگی کے چین وسکون امن وآمان کو غارت کرنے والے ہیں صالح معاشرہ کے لئے ایک ناسور ہیں لیکن سود اور سودی لین دین سودی کاروبار، معاشی واقتصادی دنیاوی وروحانی اور اخلاقی اعتبار سے انسان کے لئے مہلک ہے ، اسی لئے قرآن وحدیث میں سخت سے سخت تر وعید ارشاد فرمائی ہے سود سودی نظام اور سودی کاروبار ایک ایسی لعنت ہے جو نسلوں تک کو متاثر کرتی ہے، سود ہی ایک ایسی اقتصادی ومعاشی وبا اور روحانیت کے لئے سمِ قاتل ہے جس کی حرمت کے اعلان کے بعد اس سے باز نہ آنے والوں سے اللہ اور اس کے رسول کا اعلان جنگ ہے کہ ” اے ایمان والوں( سود کے معاملے میں ) اللہ سے ڈرو ( اور سود کی جو بقیہ رقم تمھاری دوسروں کے پاس رہ گئی ) اس کو چھوڑ دو اگر تم (سچے ) ایمان والے ہو پھر اگر تم اس (اعلان حرمت ) پر عمل نہ کرو گے تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ کے لئے تیار ہو جاؤ "
(سورہ بقرہ : 279 )
سود کے علاوہ بڑے سے بڑے گناہ وجرم قتل ، چوری ، زنا ، غیبت، وغیرہ جو فی نفسہ اپنے اندر بڑی برائیاں سمیٹے ہوئے ہیں اور اس کے برے اثرات بڑے ہی دور رس ہیں لیکن اس کے خاتمے اور اس سے باز نہ آنے والوں سے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ کی وعید نہیں ہے
سود کھانے والوں اور سودی لین دین سے باز نہ آنے والوں ، طرح طرح سے اس کی حلت کی تدبیریں اور حیلے بہانے کرنے اور اس کی حلت پر استدلال کرنے والوں کے لئے قرآن کریم نے بڑی شدید وعید سنائی ہے
جب اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے اندرسود کی حرمت اور بیع کی حلت کا اعلان فرمایا کہ ” احل الله البيع و حرم الربوا ” (کہ اللہ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام قرادیا ہے ) تو سود خواروں نے اس کے حلال ہونے پر یہ کہہ کر استدلال کیا کہ ” انما البيع مثل الربوا ” کہ بیع بھی تو سود کی طرح ہے، جس طرح بیع میں نفع حاصل کرنا مقصود ہوتا ہے تو سود بھی تو بیع ہی کی طرح ہے اس میں بھی نفع حاصل کیا جاتاہے ـ تو اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمایا کہ ” جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ ( قیامت میں ) اس طرح کھڑے ہوں گے جس طرح وہ آدمی کھڑا ہوتا ہے جس کو کسی شیطان نے لپٹ کر خبطی بنادیا ہوـ
حدیث میں ہے کہ گھڑے ہونے سے مراد محشر میں قبروں سے اٹھنا ہے کہ سود خور جب قبروں سے اٹھیں گے تو اس مجنون ، پاگل ودیوانے کی طرح اٹھیں گے جس کو کسی شیطان نے خبطی بنا دیا ہو،
دنیا کے دیگـر ملکـوں اور قـومـوں کی طـرح عـربــوں میں بھی سـودی لیـن دین کا رواج عــام تھـا، ہمـارے یہاں کے سـود خـور مالـداروں، مہـاجنوں کی طرح وہـاں بھی کچھ مالداروسرمایہ دار یہ کاروبار کرتے تھے جس کی عام مروج ومشہور صورت یہی تھی کہ ضرورت مند لوگ اپنی ضروریات کی تکمیل کے لئے مالداروں ، مہاجنوں سے قرض لیتے اور اس کی ادائیگی کی ایک مدت مقرر ہوتی اور یہ طے ہوجاتا کہ اتنے دنوں میں وہ اپنی رقم اتنے اضافہ کے ساتھ واپس لیں گے اگر مقررہ وقت پر قرض لینے والا ضرورت مند رقم واپس نہ کرسکا تو مزید مہلت لیتا، اس کی مدت بڑھادی جاتی اور اس کے حساب سے سود کی رقم میں بھی اضافہ کردیا جاتا، اس طرح قرض داروں کا قرض برھتا رہتا اور سود خور مہاجن ان غریب محتاجوں اور ضرورت مندوں کا خون چوستے رہتے جو اپنی لاچاری وبے بسی میں اس سے قرض لے رہاہے ـ ظاہر ہے کہ یہ چیز اسلام کی روح اس کے مزاج کے سراسر خلاف تھی ، اسلام کی تعلیمات وہدایات تو اس کے بالکل برعکس ہے اسلام اس انسانیت سوز حرکت کے بالمقابل پاکیزہ اخلاق کی تعلیم دیتا ہے کہ غریبوں، ناداروں کی مدد کی جائے، کمزوروں کو سہارا دیا جائے، معذوروں بیواؤں کی ہمنوائی کی جائے اور ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے ، یہ سب بھی دنیوی اغراض اور دنیوی منفعت ومصلحت سے پاک محض اللہ کی رضا اور آخرت کے اجر وثواب کے لئے کیا جائے
قرآن کریم نے تو ایسے موقع کےلئے یہ تعلیم دی ہے کہ ” وان کان ذو عسرة فنظرة الی میسرة وان تصدقوا خیرلکم ” اگر تمھارا مدیون تنگدستی کی وجہ سے تمہارا قرض ادا کرنے پر قادر نہ ہو تو اس کو فراخی وآسودگی کے وقت تک مہلت دی جائے، اگر تم اپنا قرض اس سے معاف ہی کردو تو یہ تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے
ہمارے معاشرے کے سود خواروں کی ایک عادت قبیح یہ ہوتی ہے کہ اگر کوئی مدیون مفلس ہے اور وقت مقررہ پر وہ قرض ادا نہ کر سکا تو سودی رقم اصل میں شامل کرکے سود کی مقدار اور بڑھادیتے ہیں پھر سود در سود کا سلسلہ چلادیتے ہیں
شریعت کی نظر میں سود کا معاملہ اتنا سخت وسنگین ہے کہ نبی کریم صلی اللہ وعلیہ وسلم نے سود لینے والے کے ساتھ ساتھ، سود دینے والے حتی کہ سودی دستاویز لکھنے والے اور سودی معاملہ میں گواہ بننے والوں کو بھی مستحق لعنت قرار دیا ہے ـ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ معراج کی رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گذر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے پیٹ ( وسعت کے اعتبار سے ) گھر کی طرح تھے اور ان میں سانپ بھرے ہوئے ہیں جو باہر سے نظر آتے ہیں آپ علیہ السلام کے معلوم کرنے معلوم کرنے پر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے بتلایا کہ یہ سود کھانے والے لوگ ہیں ، بعض احادیث میں سود کا گناہ زنا سے ستر گنا زیادہ بتلایا گیاہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی دوسری حدیث ہے کہ ” الربوا سبعون جزاء ایسرھا ان ینکح الرجل امه ” کہ سود خوری کے ستر حصے ہیں ان میں سے ادنیٰ ومعمولی درجہ اپنی ماں کے ساتھ منھ کالا کرنے جیسا ہے ـ
سودی کاروبار اس کا لین دین ایسا لعنتی کاروبار ہے اس میں پھنسنے والا اس کے جنجال میں مزید پھستاہی جاتاہے اور اس میں ذرہ برابر کسی طرح کی شرکت بھی لعنت وپھٹکار کا سبب ہے اس وجہ سے سود دینے سود لینے سودی دستاویز لکھنے اور اس میں گواہ بننے والا بھی گویا اس لعنتی کاروبار میں شریک ہے، حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے ” لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آکل الربوا ومواکله وکاتبه وشاھديه واقل ھم سواء "
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے والے ، سود دینے والے ، سودی دستاویز لکھنے اور اس پر گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی ہے اور سب گناہ میں برابر ہیں
حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم سے کوئی آدمی کسی کو قرض دے اور وہ مقروض آدمی اس قرض دینے والے کو کوئی چیز بطور ھدیہ دے یا سواری کےلئے اپنا جانور پیش کرے تو قرض دینے والے کوچاہئے کہ اس مقروض کا ھدیہ قبول نہ کرے ہاں اگر اس طرح کے تعلقات ان کے درمیاں پہلے سے ہوں اور ھدیہ کا لین دین پہلے سے ان کے درمیاں چلا آرہاہو تو پھر قرض دینے والے کو مقروض کا ھدیہ لینے کی گنجائش ہوگی ـ
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سودی معاملات میں سود کے شبہ سے بھی بچنا چاہئے حتی کہ اگر کسی کو قرض دے تو مقروض سے ذرہ برابر بھی کسی طرح کا دنیاوی فائدہ حاصل نہ کرے کہ کہیں مقروض قرض دینے والے کے قرض کے احسان تلے دبے ہونے کی وجہ سے اس کے عوض وبدلے میں یہ ھدیہ وسواری وغیرہ پیش نہ کر رہاہو ـ
چالیس سے زائد حدیث میں نبی کریم صلی اللہ وعلیہ وسلم نے سود اور سودی کاروبار کی قباحت بیان فرمائی ہے اس کی شدید ممانعت کے ساتھ ساتھ اس پر سخت عذاب کی وعید بھی آئی ہے ـ
ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ وعلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا چار آدمی ایسے ہیں کہ ان کے بارے میں اللہ تعالی نے اپنے اوپر لازم کرلیا ہے کہ ان کو جنت میں داخل نہ کرے گا اور جنت کی نعمت بھی نہ چکھنے دے گا
(1) شراب پینے کا عادی
(2) سود کھانے والا
(3) یتیم کا مالِ ناحق کھانے والا
(4) اور اپنے والدین کی نافرمانی کرنے والا
مزید اس کی سنگینی وشدت کا اندازہ نبی کریم صلی اللہ وعلیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی سے لگایا جا سکتاہے کہ آپ صلی اللہ وعلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ آدمی جو سود کا ایک درھم کھاتاہے وہ چھتیس 36 مرتبہ بدکاری کرنے سے زیادہ سخت گناہ ہے اور بعض روایات میں ہے کہ جو ” گوشت مال حرام سے بنا ہو اس کے لئے آگ ہی زیادہ مستحق ہے”
ایک اور حدیث میں ہے کہ جب کسی بستی میں بدکاری اور سود کا کاروبار پھیل جائے تو اس نے اللہ کے عذاب کو اپنے اوپر دعوت دیدی ـ
ایک حدیث میں ہے کہ جب کسی قوم میں سودی لین دین کا رواج ہوجائے تو اللہ تعالی ان پر ضروریات کی گرانی مسلط کردیتاہے ـ
یہی نہیں بلکہ سود تو ان گناہوں میں سے ہے جو معاف نہیں کئے جاتے ، نبی کریم صلی اللہ وعلیہ وسلم نے حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ان گناہوں سے بچو جو معاف نہیں کئے جاتے ان میں سے ایک مالِ غنیمت کی چوری ، دوسرے سود کھانا ـ
سودی کاروبار اور سود کھانے کا ایک بُرا اثر انسان کے اخلاقی وروحانی کیفیات پر بھی براہِ راست پڑتاہے، اخلاقِ انسانی کا ایک بڑا جوہر ایثار وفیاضی ہے کہ دوسروں کی مدد ، نصرت وحمایت اور دوسروں کے ساتھ ہمدردی وخیر وخواہی کا جزبہ اور خود تکلیف اٹھاکر دوسروں کو راحت پہچانے کی فکر دامن گیر ہو، سود کھانے اور سودی کاروبار کا لازمی اثر یہ ہوتاہے کہ جزبہء خیر اور فکر صحیح فنا کے گھاٹ اتر جاتے ہیں سود خوار کسی کو نفع پہچانے، راحت پہچانے کی تو دور کی بات اپنے برابر آتا بھی دوسرے کو نہیں دیکھ سکتا
وہ مصیبت زدہ پر زخم کھانے، پریشان حال کی مدد کرنے کے بجائے الٹا اس کی پریشانی ومصیبت سے فائدہ اٹھانے کی فکر میں لگارہتاہے جیسا کہ آج کل مجبوری کا فائدہ اٹھاتےہوئے بہتوں کو دکھا ہوگا اور اس کو وہ معیوب بھی نہیں سمجھتے
سود کھوری کے اثرات میں سے یہ بھی ہے کہ مال کی حرص بےپناہ بڑھ جاتی ہے پھر بھلے برے کی تمیز بھی چھوٹ جاتی ہے حتی کہ اپنے اور بے گانے کا فرق ختم ہوجاتاہے ـ
بعض سطحی اور ظاہری نظر والوں کو سود اور سودی کاروبار میں بھی فائدہ محسوس ہوتاہے ان کا خیال یہ ہے کہ سودی کاروبار کے فوائد کو نظر انداز کیوں کیا جاتاہے ؟
اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ دنیا کی تمام مخلوقات اور ان کے معاملات میں ایسی کوئی چیز نہیں جس میں کوئی بھلائی یا فائدہ نہ ہو دنیا کی ہر چیز اور ہر معاملات میں کچھ نہ کچھ فوائد ضرور ہیں حتی کہ سانپ بچھو اور زہریلی اشیاء میں بھی انسان کےلئے ہزاروں فوائد ہیں ، چوری ڈاکہ ، رشوت ، بدکاری ، ان میں کوئی چیز ایسی نہیں جس میں کچھ نہ کچھ فائدہ نہ ہو ، مگر نفع بخش کون سی چیز ہے اور ضرر رساں کیا چیز ہے دراصل اسے جاننے کی ضرورت ہے.
ہر قوم، ہر مذہب وملت ، اور مکتب فکر کے نزدیک یہ پیمانہ ہے کی جس چیز کے منافع زیادہ اور مضرتیں کم ہوں ان کو نفع بخش اور مفید تصور کیا جاتاہے اور جن چیزوں کے مفاسد ومضرات اور اس کے نقصانات زیادہ اور منافع کم ہوں ان کومضر ، بےکار اور غیر نافع سمجھا جاتا ہے
قرآن کریم نے شراب جوئےکو حرام قرار دیتے ہوئے یہ اعلان کیا ہے کہ ” ان دونوں چیزوں کے اندر بڑے گناہ ہیں اور لوگوں کےلئے کچھ فائدہ بھی ہیں لیکن اس کے گناہ اس کے نفع سے بڑھ کر ہیں "
اصول ہے کہ اگر کسی چیز کے اندر معمولی نفع ہو اور اس نفع کے مقابلے میں نقصان زیادہ ہو تو نقصان کے پیش نظر اسے چھوڑدیا جاتاہے معمولی نفع پر نظر نہیں ہوتی
غور کیجئے کہ اس ان دونوں چیزوں کے اندر کچھ فائدے پر نظر کرتے ہوئے اس کو اچھا ومفید تصور نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کے گناہ وبال اور اس کی مضرتوں کے پیش نظر ان کو ہلاکت خیز وتباہ کن سمجھ کر ان سے بچنا لازم قرار دیا جائے
یہی حال سود کا بھی ہے کہ سود خور اور سودی کاروبار میں ملوث لوگوں کو کچھ وقتی نفع ضرور نظر آتاہے مگر وہ نفع عارضی ہے اور اس کا دینی اور دنیاوی وبال اس کے وقتی فائدے کے مقابلے میں بڑا شدید اور ہلاکت خیز ہے اور دین ودنیا دونوں کی تباہی وبربادی کا ذریعہ ہے ـ
کسی بھی چیز میں نفع ونقصان محض وقتی اور عارضی ہو اس کا نقصان دائمی ودیر پاہو تو کوئی بھی عقلمند انسان اس کو مفید اشیاء کی فہرست میں شمار نہیں کر سکتا اسی طرح اگر کسی چیز کا نفع شخصی وانفرادی ہو اور اس کا نقصان پوری ملت وجماعت کو پہچتاہو تو کوئی بھی عقلمند اس کو نفع بخش نہیں کہہ سکتا ،چوری وڈاکہ میں بھی تو چور وڈاکو کو کھلا ہوا نفع ہے اور ان نفع کے حصول کےلئے وہ چوری اور ڈاکہ ڈالتا ہے لیکن اس کی چوری وڈکیتی پوری ملت کےلئے مضر اور معاشرے کے امن وامان کو تباہ اور چین وسکون کو غارت کردینے والا ہے اسی لئے کوئی بھی انسان چوری ڈاکہ کو اچھا اور نفع بخش کاروبار کہنے کےلئے تیار نہیں ہوسکتاـ
بالکل اسی طرح سود اور سودی کاروبار بھی ہے معمولی غور وفکر کرنے والے کو معلوم ہوجائے گا کہ اس میں سود خوری کے وقتی اور عارضی نفع کے مقابلے میں اس کا اجتماعی وملی ، روحانی واخلاقء نقصان اتنا شدید ہے کہ وہ سود خور کو انسانیت سے نکال دیتاہے اور اس کا جو وقتی وعارضی نفع ہے وہ بھی صرف اس کی ذات تک محدود ہے ـ
اس کے مقابلے میں پوری ملت کو نقصان اور معاشی بحران کا شکار ہونا پڑتاہے لیکن دنیا کا حال یہ ہے کہ جب اس میں کوئی چیز رواج پا جاتی ہے تو اس کی خرابی نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہے اور اس کے نقصان کو پس پشت ڈال دیا جاتاہے صرف اس کے فوائد پیش نظر رہ جاتے ہیں اگرچہ وہ فوائد کتنے ہی حقیر وذلیل اور کتنے ہی کمتر ووقتی کیوں نہ ہوں اس کے نقصانات کی طرف دھیان نہیں جاتا اگرچہ وہ شدید اور عام کیوں نہ ہوں
اللہ تعالی محض اپنے فضل سے سودی قباحتوں اس کے نقصانات ، اس کے برے عاقب. واثرات سے محفوظ رکھے قوم وملت کی اس سے حفاظت فرمائے ـــــــــــــ آمین یارب العالمین

ازقلم: محمد عظیم فیض آبادی، دیـوبـند

9358163428

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے