ایمان و اتحاد،تعلیم و تربیت، معاشی استحکام و تعارف اسلام
موجودہ حالات میں امت مسلمہ کا ایجنڈا کیا ہونا چاہئے؟
موجودہ ملک کی صورت حال ہمارے سامنے ہے،شاید ہی کوئی ریاست ہوگی جہاں مسلمان محفوظ اورپرامن ہیں۔ سب سے پہلے مسلمان اپنے ایمان اور عقیدہ کی اصلاح و درستگی کے ساتھ اسے مضبوط کرنے کی فکر کریں۔ دین و شریعت پر سختی سے کاربند ہوجائیں۔ ہر فرد اپنی انفرادی اوراجتماعی ذمہ داری کو سمجھیں،اس کا احساس کریں جس طرح ہمارے اسلاف نے اپنی زندگی کو شریعت کے سانچے میں ڈھال کر برادران وطن کے لئےبہترین نمونہ بنے اور اپنے قول وکردار سے ان کو متاثر کیا۔آج ہم گفتار کے غازی تو ہیں کردار کے غازی بن کر دکھائیں۔ ہم آپس میں متحد و منظم اور مضبوط ہوں اورہمارے اتحاد و اجتماعیت کے لئے اللہ تعالیٰ نے کتاب وسنت کو تھامنے کا حکم دیا۔ سارے اختلافات اسی وقت ختم ہوں گے جب ہم مسلکوں سے بڑھ کر مذہب اور شریعت کی بنیاد پرمتحد ہوں گےاور یہی راستہ ہے امت کے ایک ہونے کا۔ بقول شاعر
ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبین
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا بات بنے
ہمیں آپسی اتحاد کو تمام مسائل اوراختلافات پرمقدم رکھنا ہے اسی سے ہم فرقہ پرستوں کو سبق سکھاسکتے ہیں اور اسی میں ملک پھر سے امن وسلامتی ،اخوت و بھائی چارہ کا گہوارہ بنے گا۔لہٰذا اپنے ساتھ ہم کووطن کی ترقی و بحالی کی فکر کرناہوگا۔
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
انفرادی واجتماعی طو ر پر تمام مسلم جماعتیں اور تنظیمیں
برادران وطن سے روابط و تعلقات قائم کریں اورانہیں اسلام سے متعلق پھیلائی گئی غلط فہمیوں اور بے بنیاد الزامات کا ازالہ کریں۔ بھارت کی اکثریت ایک دوسرے کے خیرخواہ ہیں اور وہ مسلمانوں کو اپنادوست سمجھتے ہیں۔نفرت، دشمنی اورتعصب پھیلانے والے دراصل ہندتوا کے کارکن ہیں جو بھارت کی جنتا کو ہندو مسلم کے نام پر تقسیم کرکے اور ایک دوسرے کے خلاف ورغلاکر ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کراتے ہیں۔ایسے فرقہ پرست لوگوں سے ہوشیاررہنا۔انگریزوں نے جس طرح اس ملک سے جاتے ہوئے یہاں کی فرقہ پرست ذہنیت رکھنے والی جماعتوں کو ’’لڑاؤ اورحکومت کرو‘‘ کی پالیسی اپنائی۔ اسی طرح فسطائی طاقتیں یہی حربہ اپنارہی ہے۔
اپنے قول وعمل سے اسلام کے سچے ترجمان بنیں کیوں کہ اسلام حق وصداقت، امن وسلامتی، عدل وانصاف اور خیرخواہی کا داعی ہے۔ مسلم نوجوانوں کے لئے منصوبہ بندی کریں ان کےمسائل اور چیلنجز سمجھیں، ان کے احساسات اور جذبات کو سمجھیں،ان کو کچھ سمجھانے سے پہلے انہیں سمجھیں، ان کی مشکلات اور مسائل سمجھیں، ان کے ساتھ بیٹھیں اوران کے ساتھیوں سے بات کریں تاکہ نوجوانوں کے مزاج اور حالات کو سمجھتے ہوئے ان کی اصلاح کریں ۔ان کی صلاحیتوں اور اچھائیوں سے فائدہ اٹھائیں،ان کے لئے ایسا نصاب تیار کریں جس سے وہ اپنی زندگی کامیاب بناسکیں اور وہ اسلام کے نمائندہ بن جائے۔معاشرہ اور سماج میں بگاڑ اور فرقہ وارانہ کشیدگی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ہم جھوٹے بے بنیاد پروپیگنڈوں، افواہوں پر کان دھرتے ہیں اور تحقیق کے بغیر سوشل میڈیا پر پھیلاتے ہیں، یہ بہت بڑا گناہ ہے۔کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کفی بالمرء کذبا ان یحدث بکل ما سمع ‘‘الحدیث۔آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے بس اتنا کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو بیان کرتا پھرے……ہمارے مسلم معاشرہ کا نصف طبقہ خواتین پر مشتمل ہے اور عورتیں نصف کائنات ہے بلکہ وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ۔لڑکیوں اور خواتین کے لئے باضابطہ ان کی تربیت کا علمی و عملی نصاب اور پروگرام ہو تاکہ وہ اپنے دائرہ کار میں اصلاحی کام کرسکے۔ جس طرح مردحضرات معاشرہ کی اصلاح اور دعوت کے ذمہ دارہیں اسی طرح عورتیں بھی ذمہ دار ہیں۔ والمومنون والمومنات بعضہم اولیا ء بعض. لڑکیوںکی شادی سے پہلے کونسلنگ ضروری ہے تاکہ وہ شادی کے بعد اپنے شریک حیات کے ساتھ مثالی عورت ،مثالی بیوی بن کر زندگی گزارسکے۔ عورتوں اور لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری بھی مرد حضرات پرہے کیوں کہ وہ عورتوں پر قوّام ہے۔ اس کی قوامیت یہی ہے کہ وہ عورتوں کو ان کی جائز ضرورتوں کی تکمیل کرکے ان کے نان ونفقہ اور سکنہ،علاج ومعالجہ کے ساتھ ساتھ ان کو دین وشریعت کی تعلیمات سے آراستہ کریں تاکہ وہ اپنی اولاد کی اسلامی اصول پر تربیت کرسکے۔
علمائے کرام انبیاء کرام کے وارث ہوتے ہیں ،اس لئے علمائے کرام کاکردار بہت صاف وشفاف اوربے داغ ہو، وہ قوم کے حقیقی رہنما اورقائد ہوتے ہیں۔ امت کی غلطیوں اورگمراہیوں کی اصلاح کرنا ان کی ذمہ داری ہے وہ اپنے علم کے سچے پیکر ہوتے ہیں، ان کے اخلاق وکردار ملت وقوم کے لئے بہترین نمونہ ہوتے ہیں۔ اس لئے وہ حق وصداقت کے علمبردار بنیں،مالداروں اور دولت مندوں سے دورہیں۔ قوم وملت کی خواہش کے مطابق تقریر نہ کریں اوران کی طرف داری اور جانب داری یا تعلقات کی بنیاد پر غلط فتوی نہ دیں۔ ان کے اندرامانت ودیانت داری، خودداری بے باکی اورخلوص ہوناچاہئے۔ امت کے جوان، مرد،عورتیں اور بوڑھے سب میں بلند ہمتی، عزم محکم ،یقین کامل، شجاعت اوربہادری ہونی چاہئہے۔ نہ احساس کمتری ہو اور نہ ہی احساس برتری بلکہ میانہ روی اور اعتدال پسندی ہونی چاہئے۔اصلاح معاشرہ کے لئے ریاستی سطح پر امربالمعروف و نہی عن المنکر کی ٹیمیں تیارکریں جوسماج ومعاشرہ کوجرائم اور گناہوں سے بچانے،توحید وسنت اورفکرآخرت کی دعوت دینے کا کام کرتی رہے۔سرمایہ داری اور مالدار طبقہ تعلیمی، فنی، تجارتی اور رفاہی میدانوں میں آگے بڑھیں اوراپنا سرمایہ ودولت ان کار خیرمیں لگائیں یہ بہت نفع بخش سودا اور تجارت ہے۔یہ آخرت کی کامیابی و نجات کا بہترین ذریعہ ہے۔
مساجد کو صرف عبادت گاہ یعنی نماز کی حد تک نہ رکھیں ،بلکہ اس کو تعلیمی، تربیتی، دعوتی، فلاحی ،رفاہی و فنی مراکز کے ساتھ ساتھ دارالقضاۃ اور اسلامی سنٹرس بھی بنائیں۔ زندگی کے تمام شعبہ جات میں ماہرین کو تلاش کرکے ان کی ذہن سازی اور دعوتی مشن پر ترجیحی انداز سے کام کریں۔ علماء ودعاۃ کی ذمہ داری ہے کہ ملک کی مختلف زبانوں میں تعارف اسلام ،اللہ تعالیٰ کا تعارف، توحید، رسالت، آخرت پرمختصر فولڈرس یا کتابیں مقامی اور علاقائی زبانوں میں شائع کریں۔سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری تقاریر، ہماری تحریریں، کانفرنس اورکتابیں صرف ہماری اپنی مسلم امت کے لئے ہوتی ہے جبکہ ہمیں دیگر اقوام اور مذاہب کے ماننے والوں کے لئے مستقل طور پر پروگرام اورایجنڈا ترتیب دیناچاہئے۔ اللہ نے اپنا دین اوراپنے نبیوں کو اپنی اپنی قوموں کی زبانوں میں بھیجا ہے۔ و ما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ لِیُبین لہم (القرآن اکریم) عامۃ الناس کی اکثریت سادہ لوح ہیں ان کوخود اپنے ہی مذہب کی معلومات نہیں ہیں اوربہت سارے غلط فہمیوں، شکوک وشبہات کا شکارہیں اوروہ متعصب یا متشدد نہیں ہیں ۔یہ بہت جلد حق بات کوقبول کرسکتے ہیںصرف ان کے حالات اورمزاج اور مسائل کو جان کران کے مسائل حل کرناہے تاکہ دعوت حق صحیح طورپر انسانیت تک پہنچ سکے۔ہماری دعوت صرف شہر میں ہی نہیں دیہاتوں،قصبوں اور مختلف اضلاع میں ہونی چاہئے جہاں کی عوام تک کرسچین یا قادیانی حضرات پہنچ کر گمراہی اورباطل کی دعوت بہت پالیسی اور نرمی سے پیش کررہے ہیں۔اس لئے بھی بھولے بھالے لوگ مرتد ہورہے ہیںاور وہ بظاہر اسلام کو جانتے ہیں۔ عقائد و نظریات اور اعمال میں غیراسلامی، مشرکانہ عقائد اور ختم نبوت کے عقائد کے خلاف عمل کرتے ہیں۔ ہماری دعوت میں بہت ساری مشکلات بھی ہیں یعنی بعض دعاۃ و مبلغین اسلام کو چند عقائد یا رسومات،فضائل و مسائل بتاکر حقیقی اسلام کا تصورنہیں پیش کررہے ہیں اوربعض دعاۃ ومقررین بلکہ تنظیموں کے ذمہ دار اپنی انانیت میں غرق ہیں۔ جماعت وتنظیم کا نبوی طریقہ یا آپؐ کی اختیار کردہ مکی ومدنی حیات میں کی جانے والی پالیسی اور منصوبہ بندی سےبہت دورہیں اور دعوت واصلاح کے نام پر بے کار بے مقصدا ور غیرمنہجی طریقے قوم وملت کے حق میں فائدہ مند نہیں بلکہ امت میں انتشار،تعصب ،تنگ نظری اور آپس میں دشمنی وعناد کاباعث بن رہے ہیں۔ بڑے بڑے پروگرام اور جلسوں میں ایسے جوشیلے مقررین کو بلایاجاتاہے جن کی تقاریرسے عامۃ المسلمین مزید الجھنوں اور اختلافات کا شکارہوجاتی ہے۔ دعوت واصلاح کا کام ہمارے لئے فخر نہیںبلکہ فرض ہے اور اس میں اخلاص وللہیت بنیاد و شرط ہے۔ جماعتی وتنظیمی سطح پر یہ کام باہمی مشورے، مکمل پلاننگ اور منصوبہ بندی سے ہونا چاہئےاسی میں خیروبرکت ہے اوراللہ کی مدد ونصرت بھی ہے۔مسلمانان ہند اپنے ایجنڈے اور لائحہ عمل میں منصوبہ بندی، بجٹ پلاننگ، مشورے ،پالیسی پروگرام، حالات حاضرہ کے ساتھ ساتھ اخلاق حسنہ،حسن وسلوک، ہمدردی، خیرخواہی، باہمی احترام وانسانیت کواولین ترجیح دیں کیوں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ سے ہمیں یہی تعلیم اور سبق ملتا ہے کہ آپ نے اپنے ساتھیوں کو گفتگو،معاملات اور تعلقات کوبہترین بنانے اور اعلیٰ اخلاق اپنانے کی تلقین فرمائی اورفرمایا کہ تم میں سب سے بہترین شخص وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔ ان من خیارکم احسنکم اخلاقاً۔قیامت کے دن میزان میں سب سے وزنی عمل وہ ہوگا جس کے اخلاق اچھے ہوں گے۔ نیز آپؐ نے فرمایاکہ تم میں اچھے اخلاق والے جنت میں اور بدزبان جھگڑالو لوگ دوزخ میں جائیں گے۔ نبوت سے پہلے بھی آپؐ صادق الامین تھے تونبوت سے سرفراز ہونے کے بعدبھی اپنوں اور پرائیوں بلکہ دشمنوں کے ساتھ بھی اعلیٰ اخلاق سے پیش آتے۔
دشمن سے لیا نہ کبھی ظلم کا بدلہ
مارا بھی تو اخلاق کی تلوار سے مارا
گھروں میں مائیں اپنی اولاد کی تربیت اور کردار سازی پر خصوصی توجہ دیں۔کیوں کہ بچہ کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہے۔ ماں اگرتعلیم یافتہ ،دیندار ہوگی تو اولادبھی دیندارہوگی ورنہ گھر میں دینی ماحول نہ ہوگا تو وہاں کی اولاد گھر اور سماج کے لئے مصیبت اور عذاب ہوگی۔ملکی سطح پر مسلمانوں کے نجی عائلی اور شرعی مسائل پر دشمنان اسلام دشنام طرازی کررہے ہیں اور طلاق ثلاثہ،جہیز جوڑے گھوڑے اور اوقافی جائیداد ، مساجد اور شعائراسلام پر بے بنیاد جھوٹے مقدمات اور قوانین بنارہے ہیں۔ شریعت کوتبدیل یا ترمیم کرنے کی باتیں کررہے ہیں ،مسلم پرسنل لا بورڈمسلمانوں کا نمائندہ ادارہ ہے لیکن امت کی اکثریت اس پر اتفاق نہیںکرتی کیوں کہ یہاں بھی افراتفری ہے۔ سارے بھارت کے مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنے شرعی مسائل آپس میں مل بیٹھ کر حل کرلیں اور مساجد میں دارالقضات کا قیام وقت کی اہم ضروری ہے تاکہ شریعت کی روشنی میں نکاح، طلاق، خلع، وراثت اور پراپرٹیوں کے مسائل حل کئے جائیں۔ اگرہم نے ایسا نہیں کیا تو پھر کورٹ کچہری کے ذریعہ ہماری شریعت بھی داغدار ہوگی اورمسلمان اپنے پاس شرعی قوانین کتاب وسنت رکھنے کے باوجود باطل طریقہ پر اپنے مسائل حل کریں گے اورمسلمانوں کی شبیہ بگڑے گی اور اسلام کی تعلیمات متاثر ہوگی۔
مسلمانوں کواپنے ایجنڈے اورلائحہ عمل میں سب سے زیادہ اہمیت وقت اورمنصوبہ بندی کو دینا ہے کہ پہلے ہم اہم اور غیر اہم کاموں کو ترتیب دیں اورغیراہم کاموں کوفہرست سے نکال دینا،مسلمانان ہند اپنے ایجنڈے میں ملک بچاؤ، دستوربچاؤ، بیٹی بچاؤ، ایمان بچاؤ، احترام انسانیت، اسلام ساری انسانیت کا نجات دہندہ، امن وسلامتی اسلام کی دعوت جیسے موضوعات پر ہفت روزہ مہم کے طور پر شروع کریں۔ شریعت اورقانون کے تعلق سے بھی امت کو واقفیت ہونی چاہئے جس ملک میںہم رہتے ہیں وہاں کے قوانین کیا ہیں کیوں کہ شریعت اورقانون سے ناو اقفیت نے امت کو حالات حاضرہ اورمسائل وچیلنجز نے بہت پریشان کیا ہے۔ کہیں عجلت، نادانی میں ایسے قدم نہ اٹھائیں کہ بعدمیں مزیدمسائل سے دورچار ہوجائے اوراس کا خمیازہ پوری امت کو بھگتنا پڑے۔
صرف جلسے جلوس اور شکایتیں کرکے یہ نہ سمجھیں کہ ہم نے اپنا فرض ادا کردیا ۔بسااوقات غیردانشمندانہ فیصلے اور جلسے جلوس سے امت کونقصان ہواہے۔ ذرائع ابلاغ سے اچھی طرح واقف ہوں اورموجودہ وسائل و ذرائع سے استفادہ کریں، مکی اورمدنی حالات میں ہمیں رسول اکرمؐ کی حکمت عملی کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ ظالم حکمرانوں کے ظلم او رفتنوں سے حفاظت کے لئے دعاؤں کااہتمام، کثرت سے توبہ و استغفار اوراپنے اعمال کا محاسبہ اوراپنی کوتاہیوں اور غفلتوں کا جائزہ ومحاسبہ کرتے رہیں۔ اللہم لاتسلط علینا من ظلمنا۔ مشکلات اور سنگینی حالات میں ہمیں رجوع الی اللہ ہونے کی ضرورت ہے کیوں کہ یہی سنت رسول ہے۔ تنگدستی، قحط سالی، سیلاب، طوفان اور فتنہ وفساد کا فرقہ وارانہ جملوں میں ہم عبرت حاصل کریں۔جہاں پر حالات بگڑجائیں اور لوگ بے قابو ہوجائے تو ایسے وقت صبر واستقامت،سمجھداری اورعقلمندی کا ثبوت دیں،کہیں سنگین صورتحال میں یامردی عزیمت شجاعت ضروری ہے اورکہیں صبرو تحمل، دانشمندی اور خاموشی ضروری ہے۔ ضروری نہیں کہ آپ اینٹ کا جواب پتھر سے دیں۔ اللہ تعالیٰ نے صبر وصلوۃ سے مدد لینے کا حکم دیا۔ توبہ واستغفار کو لازم پکڑنے کی تاکید کی۔ (الانفال 33) ایمان ویقین کے ساتھ زندگی گزارنے، مایوسی، مداہنت، حزن وملال، ایمان کے منافی ہے۔ جتنا ہم ایمان میں مضبوط ہوں گے اتنا ہی ہم پر اللہ کی مدد ونصرت آئے گی اور سربلندی ہمیں نصیب ہوگی۔ (آل عمران 139) اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ کی اطاعت ہم پر ہرحال میں ضروری ہے۔ آپسی جھگڑے، تنازعے اور اختلافات ہم کوکمزورکردیں گے۔ دشمن اسلام سے ہمارا رعب ختم ہوجائے گا،ہماری ساکھ متاثرہوگی بلکہ ہماری ہوا اکھڑجائے گی۔ صابرین کے ساتھ اپنے صحیح موقف پر ڈٹے رہنے میں ہی ہماری کامیابی ہے۔ (الانفال 46)
امت کے زوال،پستی، ناکامی ونامرادی میں جوچیزیں رکاوٹ بن رہی ہے پہلے ان رکاوٹوں کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔(۱) سب سے بڑی رکاوٹ داخلی کمزوری یعنی ایمان ویقین کی کمی یا کمزوری (۲) فکری جمود وتعطل یعنی اپنے فرض منصبی اور مقصد حیات سے غافل(۳) تعصب تنگ نظری اورگروہ بندی (۴)گمراہ کن عقائد و نظریات پرعمل (۵) جذباتیت و عجلت پسندی (۶) صحیح مخلصانہ قیات کا فقدان (۷)اخلاقی و عملی کمزوری،پستی اور زوال(۸) منفی سوچ، احساس مظلومیت (۹) دین ودنیا کا غیرشرعی تصور (۱۰) آپسی تعلقات کی ناخوشگواری(۱۱) اجتماعی نظام زکوۃ کا فقدان۔ معاشی و اقتصادی زوال (۱۲) نوجوانوں میں کردار سازی اور شخصیت کے ارتقاء کا فقدان (۱۳)وقت کی ناقدری، تضیع اوقات (۱۴)آخرت فراموشی(۱۵)امت کی اکثریت کا باطل عقائد و نظریات سے اتفاق اور صحیح اسلامی عقائد و نظریات سے انحراف (۱۶) علماء، سوء دنیا پرست دولت مند، جاہل اورنااہل قائدین وحکمرانوں کی کثرت (۱۷) وقتی فائدے اورذاتی مفاد ےکی خاطر حق اور سچائی کی تائید، مظلوموں کی امداد اور حقوق دلانے میں حق پرستوں کا غلط موقف اور چاپلوس قسم کے لیڈران، گودی میڈیا اورمنافقانہ روش سے امت کا بہت نقصان ہواہے۔ کاش
ازقلم: ڈاکٹر سید آصف عمری، حیدرآباد
موبائل نمبر: 9885650216