امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدینؒ اور ملی وحدت و اجتماعیت

بافیض اور متفق علیہ شخصیت

اردو زبان کا ایک مشہور اور پامال، لیکن بہت ہی بامعنی شعرنہے :

موت اس کی ہے کرے جس پہ زمانہ افسوس
یوں تو آئے ہیں سبھی دنیا میں مرنے کے لئے

انسانی آبادی کی اس بھیڑ میں اوراربہا ارب انسانوں میں چند ہی افراد ایسے ہوتے ہیں ، جن پریہ شعر صادق آتا ہے ، بلاشبہ حضرت مولانا سید نظام الدینؒ اس کے حقیقی مصداق تھے،بلاشبہ حضرت مولانا سید نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی ، کارنامے ، خدمات ، تعمیری کوششیں ایسی ہیں کہ ان کو یاد کرکے ہر باشعورشخص کو ان کی کمی کا شدید احساس ہورہا ہے ، اور ان کے حادثہ وفات کو عظیم حادثہ تصور کررہا ہے ، انہوں نے اپنے اخلاق و کردار، اور سلوک و برتاؤ کے ذریعہ جو قابل رشک زندگی گذاری، اس سے ان کی شخصیت متفق علیہ رہی، ملی قیادت ، اجتماعی زندگی میں جس صبر وتحمل اور قوت برداشت کی ضرورت ہوتی ہے، اس میں وہ دیگر شخصیات سے ممتاز نظر آتے ہیں۔ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ ، وأغدق علیہ شآبیب رحمتہ۔

ایمان و استقامت کی کرشمہ سازی :
امیر شریعت حضرت مولانا سید نظام الدینؒ نے حیات مستعار کے ۸۹ ؍بہاریں دیکھیں، ۱۹۲۷ء؁ میں ان کی ولادت ہوئی ، اور ۲۰۱۵؁ء میں وہ راہی آخرت ہوئے ، ان کا سلسلہ نسب سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہ تک پہونچتا ہے ،دار العلوم دیوبند سے سند فراغت حاصل کر نے کے بعد متعدد مدرسوں میں تدریسی خدمات انجام دیں ، لیکن قضا و قدر نے ان کو ۱۹۶۵؁ء میں امارت شرعیہ پھلواری شریف پہونچایا، اور وہ تاوفات یہیں کے ہو کر رہے اور ’’اک در گیر محکم گیر ‘‘کا نمونہ پیش کر کے اپنے اخلاف و منتسبین کا بتا دیاکہ:ایمان و استقامت کامیاب زندگی کے دو ایسے شہپر ہیں ، جن کے ذریعہ انسان ستاروں پر ڈال سکتا ہے ، اور منزل مقصود تک پہونچ سکتا ہے ۔

وحدت واجتماعیت کا تحفظ اور اس کے بنیادی عناصر :
حضرت امیر شریعت ابتدا ہی سے عظیم اداروں اور شخصیات سے وابستہ رہے ، انہوں نے اپنے زمانہ کے اہل اللہ اور علمائے ربانیین سے خصوصی تعلق رکھا ، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ، امیر شریعت رابع حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی ، مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی اور اخیر میں حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کو انہوں نے دیکھا ، برتااوران سے وحدت واجتماعیت کا درس لیا ، اس کے لئے انہوں نے ہر طرح کی قربانیاں پیش کیں ، وہ حلم و برداشت کے پیکر ، عزم و ارادہ کے دھنی ، اور اخلاص و للہیت کا گوہر آبدار تھے ، مجاھدہ و ریاضت ان کے مزاج میں شروع ہی سے تھا ، ان کی نظر اس پر تھی کہ مسائل کو سلجھانا اور ان کے حل کی تدبیر کرنا عبادت سے کم نہیں ، وہ کہا کرتے تھے : وحدت و اجتماعیت شریعت کے تمام احکام کی روح ہے ، اسلام نے اپنے ماننے والوں کو وحدت واجتماعیت ، انس و محبت ، اخوت و بھائی چارگی کے ساتھ زندگی گذارنے کی تعلیم دی ہے ، اوراتحاد واتفاق کو عظیم نعمت قرار دیا ہے ۔
مزید فرماتے تھے کہ : اتحاد کی بنیاد اللہ کا بھیجا ہوا نظام و قانون ہے ، نمازباجماعت کے ذریعہ وحدت و اجتماعیت کی تعلیم ،مسجد کی جماعت اور نماز میں ایک امام کی اتباع سے اجتماعیت کی تعلیم، رمضان کے روزوں کے ذریعہ اجتماعیت کی تعلیم ، سال میں زکاۃ کے ذریعہ اجتماعیت کی تعلیم کا درس ملتا ہے،اس لئے ہر کلمہ گوکے لئے اللہ اور اس کے رسول کا حکم ہے کہ وہ جماعتی زندگی گذارے ، اس لئے کہ جماعتی زندگی اسلام کا مطلوب و مقصود ہے ، جماعتی زندگی کا ترک اسلامی زندگی کا ترک ہے ، جس کی موت انفرادی زندگی پر ہوگی ، اس کی موت جاہلیت کی موت ہو گی،محسن انسانیت ﷺ کا رشاد ہے : من خرج من الطاعۃ وفارق الجماعۃ ثم مات ، مات میتۃ الجاھلیۃ ( صحیح مسلم ج۲؍ ۱۲۸) ( باتیں میر کارواں کی : ۴۱۵۔ ۴۱۶) ۔
حضرت امیر شریعت وحدت و اجتماعیت کو باقی رکھنے کے لئے تین چیزوں پر زور دیا کرتے تھے : (۱) تشاور (۲) تعاون (۳) توافق ، مزید ان کی وضاحت کرتے ہوئے ارشاد فرماتے : جب کوئی معاملہ یا کوئی ناگہانی امر پیش آئے تو اولا مشورہ کرو ، دوم ایک دوسرے کا تعاون کرو ، سوم یہ کہ کوئی کام کسی کو دیا جائے تو اس کا انتظار مت کرو کہ وہی کرے گا ، اگر تم کو معلوم ہے کہ تم بہتر طور پر کر سکتے ہو تو آگے بڑھ کر اس کام کو کرو ۔
ایک دوسرے موقع پر اپنے عمل اور کردار کے ذریعہ حضرت امیر شریعت نے بتایا کہ اجتماعی معاملات میں تین چیزیں بہت ضروری ہیں : ایک ہر شخص کی تنقید کو سننا ، دوسرے تحمل اور ضبط سے کام لینا ، تیسرے ٹکراؤ اور تصادم سے بچنا۔یہ حقیقت ہے کہ حضرت امیر شریعت ان باتوں کے عملی پیکر تھے ، انہوں نے تین بورڈ کے صدور( مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی ، حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ، حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی) کی صدارت میں کام کیا ، اس درمیان ان کا بے شمار افراد و اشخاص اور ملی جماعتوں کے ذمہ داران سے سابقہ پڑا ، لیکن ان تینوں باتوں کو اپنا شعار بنایا ، جس کی وجہ سے بڑے بڑے معاملات آسانی سے حل ہو گئے ۔ علامہ یوسف القرضاوی ؒ نے اجتماعی زندگی کے لئے دو اصول ذکر کئے ہیں : ایک حسن ظن ہے ، یعنی ہر ایک سے اچھا گما ن رکھا جائے ، بد گمانی نہ رکھی جائے تو اجتماعی زندگی بہتر ہو تی ہے ، دوسرے حسن فہم ، اگر کوئی معاملہ پیش آجائے تو اس کو خوش اسلوبی سے حل کیا جائے ، اس طور پر کہ کوئی بد مزگی نہ ہو ۔

خطبات و مقالات کے ذریعہ وحدت امت پر زور:
حضرت امیر شریعت روایتی خطیب نہیں تھے ، جو خاص وضع و قطع اور ناز و انداز رکھتے ہیں ، انہوں نے تصنیفی میدان میںبھی قدم نہیں رکھا ، اگران دونوں میدانوں کو اپناتے ، اور ان کے لئے اس کے مواقع بھی تھے، اس طور پر دار العلوم دیوبند کی طالب علمی کی زندگی میں البیان نامی رسالہ کے مدیر رہے ، اور امارت کا اسٹیج ان کے خطابتی جو ہر کو نکھارنے کے لئے بہت کافی تھا ، لیکن ظاہر داری سے ہٹ کر انہوں نے شدید ضرورت کے وقت ہی کوئی تحریر لکھی ، یا کوئی مضمون لکھا ، اور جب شدید تقاضا ہوا تو امت اسلامیہ کو فائدہ پہونچانے کے لئے پرمغز خطاب فرمایا ،موجودہ صدرمولانا خالد سیف اللہ رحمانی زید مجدھم کی یہ شہادت اس حقیقت کے اظہار کے لئے کافی ہے کہ :
’’مولانا سید نظام الدین کی طبیعت میں نشاط ہوتو ان کا خطاب بھی بڑا عمدہ اور معنویت سے بھر پور ہوتا تھا،حالانکہ تقریر و خطابت میں حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کو امتیاز حاصل تھا ، لیکن بعض دفعہ ان کے مدبرانہ پیغام اور معقول گفتگو سے آپ کی تقریر قاضی صاحب سے زیادہ جچی ، تلی محسوس ہوتی تھی ‘‘( باتیں میر کارواں کی : ۲۸۶)۔
حضرت امام شریعت تقریباپچاس سال امارت شرعیہ اور ۲۳؍ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے منصب پر فائزرہے ، اس درمیان ہزاروں جلسوں کو خطاب کیا ، اگر ان خطبات کو جمع کیا جاتا تودسیوں جلدیں اس کی تیار ہو جاتیں ، چند خطبات ومقالات ہفت روزہ نقیب میں شائع ہوئے ، ان کے عناوین پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے خطبات کا مرکزی موضوع وحدت امت اور متحدہ مشن تھا :
۱۔ دنیا میں بے مثال اخلاقی و روحانی انقلاب قرآن ہی کے ذریعہ آیا۔
۲۔ خوف خدا کے بغیر زندگی میں انقلاب نہیں آسکتا۔
۳۔ وحدت و اجتماعیت شریعت کے تمام احکام کی روح ہے
۴۔ عدل کا قیام ہی معاشرہ کو امن و سکون دے سکتا ہے
۵۔ وفاق وقت کی اہم ضرورت
۶۔ مدارس میں کردار سازی اور افراد سازی وقت کی سخت ضرورت
۷۔ دار القضاء آپ کے مسائل کا حل ۔

امیر شریعت کی محبوب مقتدا شخصیات اور اتحاد ملی :
(۱)حضرت امیر شریعت سادس نے جن شخصیات پر قلم اٹھایا اور ان پر مضامین لکھے ، ان میں حجۃ الاسلام، قاسم العلوم والخیرات حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ ہیں ، انہوں نے ان کی تحریروں سے جو نتائج اخذ کئے گئے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں : ۱۔ امت مسلمہ کے مختلف مسالک ومذاہب اور نظریاتی گروہوں کی تکفیر و تفسیق ، تحقیر و تنقیص اور توہین و تذلیل کی روشنی سے اجتناب و احتیاط ۔
۲۔ دینی ودنیاوی تعلیمات کی افادیت کا اقرار اور اس کی اہمیت کا اعتراف
۳۔ سماج اور سو سائٹی سے تعلق و ربط ، سماجی اصلاحات کی ضرورت پر زور
۴۔ عالمی مسائل اور امت مسلمہ کے حالات پر مسلسل نگاہ
( باتیں میر کارواں کی : ۴۷۵)
(۲)دوسری شخصیت جس سے حضرت امیر شریعت سادس متأثر تھے اور ان کے افکار وخیالات کے شارح و ترجمان رہے وہ بانی امارت شرعیہ مفکر اسلام حضرت مولانا ابو المحاسن سجاد رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت ہے ، مولانا سید نظام الدین صاحب اپنے ایک مضمون میں ان کی شخصیت کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’بانی امارت شرعیہ کی پوری زندگی ، ان کے علمی کمالات، اصابت رائے ، علم وفضل ، زہد و تقوی اور خاص کر مسائل و مشکلات میں بروقت اقدام کی صلاحیت سے عبارت تھی ، حضرت مولانا ابو المحاسن سجادؒ فرمایا کرتے تھے :
’’مسلمانوں کے سارے مسائل ومشکلات کا حل یہی ہے کہ کلمہ واحدہ کی بنیاد پر ایک ایک امیر شریعت کے گرد جمع ہو جائیں ، اور ایسا مضبوط اجتماعی نظام قائم کریں ، جس سے ان کی آواز کو طاقت حاصل ہو ، اور وہ اپنے مسائل و مشکلات کو اپنی ایمانی صلاحیت اور طاقت سے اور اپنے اجتماعی نظام کے ذریعہ خود حاصل کر سکیں ، اور سیاسی نظام کے ذریعہ حل کرا سکیں‘‘ ( باتیں میر کارواں کی : ۲۷۷)
حضرت امیر شریعت فرماتے تھے : کان کھول کر سن لیجئے : مولانا سجاد کی فکر ہے کہ اگر قوم بے شعور ہے ،اس کے اندر دینی شعور ، دینی غیرت نہ ہو ، اس کے اندر ملی جذبہ و ایثار و قربانی نہ ہو، وہ جہالت اور غربت کا شکار اور نا اتفاقی کا شکار ہوتو کبھی کوئی انقلاب دنیا میں نہیں لا سکتی ، اس لئے اپنی قوم کو دین کی بے شعوری سے نکالنا اور دین کا شعور پیدا کرنا ضروری ہے ۔ ان کا جہالت اور غربت کے گڑھے سے نکالنا ہے ، اور ہر علاقہ سے نا اتفاقی کو ، اختلاف کو ، خواہ مسلک کی بنیاد پر ہو یا ذات و برادی کی بنیاد پر اس کو ختم کرنا ہے ( ص: ۴۸۲)
(۳)تیسری شخصیت حضرت امیر شریعت رابع مولانا منت اللہ رحمانی ؒ ہیں ، ان سے حضرت مولانا سید نظام الدین بہت متأثر تھے ، ۲۴۔۲۵ سال ان کی نگرانی میں گذارا ، اور ان کی صحبت سے مستفید ہوئے ، ۱۹۵۸؁ء میں رابطہ ہوا ، اور اور پہلی ہی ملاقات میںجو جامعہ رحمانی کے جلسہ میں ہوئی تھی امارت شرعیہ آنے کی دعوت دی ، لیکن بعض دوسرے اسباب کی بنا پر نہیں آسکے ، البتہ ۱۹۶۵؁ء میں بحیثیت ناظم امارت شرعیہ آئے ، اور پوری زندگی یہیں رہے ، اسی درمیان عرب اسرائیل جنگ پیش آئی ، جس نے مصر و شام اور فلسطین واردن کے بہت سے علاقوں پر قبضہ کرلیا ، اس واقعہ نے عالم اسلام کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، اس موقع پر امار ت شرعیہ نے فلسطین کا نفرنس بلائی ، جو انجمن اسلامیہ ہال پٹنہ میں ہوئی ، اس میں مصر کے سفیر شیخ جمال مناع علی اور شام کے سفیر عمر ابو رشیہ شریک ہوئے ، انہوں نے پرجوش خطاب کیا ، اس کا تر جمہ حضرت مولانا قاضی مجاہدالاسلام قاسمی نے بڑی سلاست سے کیا ، جس پر ان کو خوب داد تحسین پیش کی گئی ، امارت نے حضرت مولانا سیدنظام الدین کی سربراہی میں ایک لاکھ روپئے عرب سفراء کے حوالہ کیا ۔ حضرت مولانا سید نظام الدین لکھتے ہیں : کانفرنس امارت کی نشأۃ ثانیہ کے لئے سنگ میل ثابت ہوئی، اس سے امیر شریعت کے بروقت فیصلہ کی صلاحیت اور رائے کی اصابت کا اندازہ ہوا۔
(۴)چوتھی شخصیت حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی تھے ، جن سے حضرت امیر شریعت کو رفاقت کا شرف حاصل رہا ، ان سے بھی ملاقات جامعہ رحمانی کے جلسہ میں ۱۹۵۸؁ء میں ہوئی ، پھر مستقل ملاقاتوں، اسفار اور ساتھ میں کام کر نے کے مواقع حاصل ہوئے ، قاضی مجاہد الاسلاقاسمی ۱۹۶۲؁ء میںامارت آئے ، اور امیر شریعت ۱۹۶۵؁ء میں امارت آئے ، حضرت امیر شریعت فرماتے ہیں : اُس وقت سے ہم دونوں نے ساتھ مل کر اپنے عہدوں کا فرق کئے بغیر امارت شرعیہ کے سارے کام انجام دیئے ، سب سے پہلے عوام میں اتحاد کو عام کرنا تھا ، اس کے لئے تنظیمی علاقوں کا دورہ کرنا تھا ، اور تمام شعبوں کی ترقی کے لئے مالی استحکام کا نظم کرنا، ہم دونوں نے اس وقت کے کارکنوں اور مبلغوں کو ساتھ لے کر پوری لگن کے ساتھ اس کام کو انجام دیا، اور اللہ کا شکر ہے کہ ہر مرحلہ میں کامیاب ہوئے ، اس طرح ۱۹۶۶؁ء سے ۲۰۰۲؁ء تک یعنی ۳۷سال ہر کام میں ساتھ رہے ۔

بین الاقوامی سطح پروحدت ملت کی کوششیں :
ملکی سطح پر حضرت امیر شریعت سادس وحدت امت کے علمبردار رہے کہ اس کے لازوال نقوش سامنے آئے ، اسی کے ساتھ اللہ تعالی نے ۱۴۳۰؁ھ میں مکہ مکرمہ کے ایک ادارہ ھیئۃ التنسیق العلیا جس کے آپ رکن بھی تھے کی دوسری کانفرنس کے لئے ایک قیمتی مقالہ عربی زبان میں لکھا ، اس کا عنوان تھا: اسلامی نشأۃ ثانیہ میں مسلم تنظیموں اور میڈیا کا کردار ، اس مقالہ کو اس کے سکریٹری شیخ محمد جمیل خیاط کو مکہ مکرمہ بھیجا ، اس مقالہ میں اسلامی کاز کے لئے ذرائع ابلاغ کے استعمال پر زور دیا ۔ اس مقالہ چند نکات پیش کئے جاتے ہیں :
(۱) میڈیا کا معقول جواب میڈیا سے دینا ضروری ہے
(۲) میڈیا کے ذریعہ اسلام کی اچھی تصویر لوگوں کے سامنے پیش کرنا ، میڈیا کے ذریعہ اچھے اخلاق کو پھیلانا ، اور یہ عمل سیرت نبوی اور قرآن کریم کی تعلیمات کو پھیلا کر ہی ممکن ہے ۔
(۳)عائلی اور معاشرتی مسائل اور اسلامی فتاوے جو تنظیموں سے متعلق ہیں ان کو عام کیا جائے ۔
(۴) ۱۹۳۸ ؁ء سے ہم لوگ مسلسل بذریعہ ہفت روزہ نقیب اسلامی احکام و مسائل کی خدمت انجام دیے رہے ہیں
(۵) ہندوستان میں میڈیا کا رول عام طور پر اعتدال پسندانہ ہے ، البتہ دشمنان اسلام خاص طور پر انتہاپسند جماعتوں کا موقف متعصبانہ ہے ( ص: ۵۰۸)

وحدت امت کے نمائند ہ اداروں سے آپ کا رابطہ اور ان کی قیادت :
پورے ملک ہندوستان میں اجتماعی اتحاد ، اور رفع نزا ع باہمی کی صدا ندوۃ العلماء سے انیسویں صدی کے آخر میں بلند ہوئی ، اور الحمد اللہ پورے ملک میں پھیل گئی ، بیسویں صدی کی تیسری دہائی کے بالکل آغاز میں امارت شرعیہ کاقیام عمل میں آیا، اس نے اجتماعی نظام پر زور دیا ، اور ایک امیر کی اطاعت کو لازمی قرار دیا ، بیسویں صدی کی ساتویں دہائی میں آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈکا قیام عمل میں آیا، اس نے بھی مسلک و مشرب کے فرق سے اوپر اٹھ کرمسائل کے حل کرنے پر توجہ کی ، یہ تینوں ادارے وحدت امت کی علامت اور پہچان ہیں ۔ حضرت امیرشریعت سادس ان تینوں سے نہ صرف یہ کہ وابستہ رہے ،بلکہ ان کو جاری رکھنے میں قائدانہ کردار ادا کیا، بلکہ حضرت امیر شریعت کا یہ ملفوظ تو سننے اور سنانے کے لائق ہے :
’’ اللہ تعالی قیامت کے دن پوچھے گا کہ کیا لے کر آئے ہو ؟ تو عرض کروں کہ امارت کو پوری زندگی سجا کر رکھا اور وہی آپ کے حضور لے کر حاضر ہوا ہوں ‘‘۔
وحدت امت کا مشن ایک عظیم مشن ہے ، اور یہ علماء کے ذریعہ ہی ممکن ہے ، کیونکہ علماء معاشرہ کا دل ہیں ، ان کے ذریعہ امت کی اکائیاں متحد ہو سکتی ہیں ، اور بقول مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی : علماء قطب نما کی طرح ہیں ، اس کی ذرا سی کوتاہی ہزاروں میل دور جہاز کو لے جاتی ہے(حالات کا نیا رخ اور علماء کی ذمہ داریاں) اس لئے حضرت مولانا سید نظام الدین علماء کی اصلاح و ذہن سازی پر توجہ دیتے تھے، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ندوۃ العلماء میں مجلس انتظامی کا جلسہ تھا ، حضرت امیر شریعت تشریف لائے تھے ، جمعیۃ الاصلاح دار العلوم ندوۃ العلماء کی طرف سے معمول ہے کہ آنے والے مہمانوں کو طلبائے دار العلوم استقبالیہ بعد نما ز عصر دیتے ہیں ، چنانچہ مسجد کے سامنے سبزہ زار پر جلسہ استقبالیہ منعقد ہوا ، اس میں حضرت امیر شریعت سے کچھ عرض کر نے کے لئے کہا گیا تو انہوں نے علماء کی چار صفات کا تذکرہ فرمایا :
(۱) استقامت علی الحق (۲) استغناء عن الخلق (۳) داعیانہ کردار یعنی مثالی نمونہ
(۴) عالمانہ وقار
پھر ان چار چیزوں کی جامع اور دلنشیں تشریح کہ سامعین نے غیر معمولی اثر لیا۔

ملی وحدت اور عوامی مسائل پر توجہ :
حضرت امیر شریعت عوام کو ایک دھاگے میں پرونے اور متحد رہنے کی تلقین کرتے تھے ، چنانچہ باہمی ہمدردی اور مساوات کی تعلیم دیتے تھے ،ایک دوسرے کی ضروریات کا لحاظ رکھنا ایک مسلمان کی شان ہونی چاہئے ، کیونکہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے آئینہ ہے ، مسلمانوں کا باہمی تعلق ایک جسم کی طرح ہے کہ اس کے ایک حصہ میں درد ہوتو دوسرا حصہ محسوس کرتا ہے ، اس سلسلہ میں حضرت امیر شریعت ایک واقعہ نقل کرتے تھے :
عبد اللہ بن مبارک مشہور محدث اور صوفی بزرگ گذرے ہیں ، ایک وہ ہر سال حج کیا کرتے تھے ، اللہ نے انہیں صاحب استطاعت بنایا تھا ، ایک مرتبہ اپنے قافلے کے ساتھ حج کو جارے تھے تو راستے میں ایک بستی سے گذر ہوا ، اسی بستی کے قریب ایک کوڑے کا ڈھیر تھا ، آپ نے دیکھا کہ اسی بستی میں سے ایک بچی نکل کر آئی ، اور کوڑے کے ڈھیر پر ایک مردار مرغی پڑے ہوئی تھی ، اس کو اٹھایا اور جلدی سے اپنے گھر نکل چلی گئی ، حضرت عبد اللہ بن مبارک کو دیکھ کر بڑا تعجب ہوا کہ یہ بچی ایک مرغی کو اٹھا کر کیوں لے گئی ، پھر آپ نے اپنے آدمی بھیج کر اس بچی کو بلوایا کہ تم اس مردار مرغی کو کیوں اٹھا کر لے گئی ، اس بچی نے جواب دیا کہ ہمارے گھر میں کئی روز سے فاقہ کشی کی نوبت ہے ، بھوک کی شدت نے ہمیں اس مردار مرغی کو کھانے مجبور کیا ، تو اس بچی کی بات نے حضرت عبد اللہ بن مبارک کے دل پر گہرا اثر چھوڑا ، آپ نے تمام ساتھیوں سے فرمایا کہ ہم اس سال حج کے سفر کو ملتوی کرتے ہیں اور جو پیسہ ہم حج پر خرچ کرتے وہ پیسہ ہم اس بستی کے لوگوں پر خرچ کریں ، تاکہ ان کی بھوک پیاس اور فاقہ کشی کا خاتمہ ہو سکے ، یہ نہیں کہ ہمیں حج کرنے کا شوق ہوا اور اپنے شوق کو پورا کرنے کی خاطر شریعت کے دوسرے تقاضے کو نظر انداز کر دیں ، یہ صحیح نہیں ہے ۔( ص: ۳۹۵)
یہ چند معروضات ہیں ، جو حضرت امیر شریعت سادس کی حیات و خدمات پر پیش کی گئی ،ان کا زندگی کا ہر پہلو تاباں اور درخشاں ہے ۔ جس کے مطابق ہر ایک آدمی اپنی بے لاگ زندگی گذار سکتا ہے ۔اور صحیح انسانی و اسلامی بنیادوں پر تعمیر بھی کر سکتا ہے ۔

ورق تمام ہوا مدح ابھی باقی ہے
سفینہ چاہئے اس بحر بے کراں کے لئے

تحریر: مولانا ڈاکٹر محمد فرمان ندوی
استاذ دار العلوم ندوۃ العلماء ، لکھنؤ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے