مولانا سید نظام الدین ہندوستان کے ایک مشہور عالم دین تھے۔ ان کی پیدائش ۳۱؍ مارچ ۱۹۲۷ء مطابق یکم ذی الحجہ ۱۳۴۵ھ منگل کوگیا ضلع کے پیتھوشریف کےمحلہ پرانی جیل میں ہوئی۔ان کے والد قاضی سید حسین اپنے زمانہ کے مشہور عالم دین اور حضرت شیخ انور شاہ کشمیریؒ کے شاگرد و تربیت یافتہ تھے۔انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے گھرپر اپنے آبائی گائوں گھوری گھاٹ ضلع گیا میں اپنے والد قاضی حسین سے حاصل کی۔پھر ۱۹۴۱ء میں مدرسہ امدادیہ دربھنگہ گئےاور وہاں متوسطات تک کی تعلیم حاصل کی۔اعلیٰ تعلیم کے لئے ۱۹۴۲ء میں دارالعلوم دیوبند گئے اور ۱۹۴۶ء میں دارالعلوم دیوبند سے فراغت حاصل کی۔اس کے بعد ۱۹۴۷ء میں تخصص فی الادب کا امتحان پاس کیا۔
فراغت کے بعدمختلف اداروں سے منسلک رہے۔۱۹۶۴ء میں امارت شرعیہ کے ناظم مقرر ہوئے۔انہوں نے عہدۂ نظامت پرفائز ہونے کے بعداپنی فراست سے امارت شر عیہ کے مشن کو بہت آگے بڑھایا اور اس کے کاموں کو استحکام بخشا،انہیں حالات بھی موافق ملے۔حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی کا دور امارت امارت شرعیہ کے لئے سنہرا دور رہا۔انہوں نے امارت شرعیہ کو خوب مضبوط و مستحکم کیا۔ان کی نگرانی میں مولانا سید نظام الدین ؒ کو ناظم کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا۔جس کی وجہ سے ان کی صلاحیتوں میں جلا پیدا ہوا۔ حضرت امیر شریعت رابع کی تربیت نے ان کو مزید متحرک،فعال اور حساس بنادیا۔یہاں تک کہ مختلف تنظیموں کوبحسن خوبی چلانانے کی صلاحیت پیداہوگئی۔یکم نومبر ۱۹۹۸ء میں آپ کو امیر شریعت منتخب کیا گیا۔اس طرح امارت شرعیہ کو ۱۹۶۵ء سے تاحیات آپ کی خدمت وسرپرستی حاصل رہی۔اس مدت میں بہت سے ملی،سماجی اور رفاہی کام ہوئے۔اور امارت شرعیہ نے ترقی کے بہت سے منازل طے کئے۔۱۹۶۲ء میں مولانا منت اللہ رحمانی ٹیکنیکل انسٹی چیوٹ، ۱۹۶۳ ء میں امارت شرعیہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ،۱۹۸۸ء میں مولانا سجاد میموریل ہاسپیٹل، ۱۹۹۵ء میں امارت مجیبیہ ٹیکنیکل انسٹی چیوٹ دربھنگہ، ۱۹۹۷ء میں امارت ٹیکنیکل انسٹی چیوٹ پورنیہ، ۲۰۰۰ء میں امارت عمر ٹیکنیکل راوڑ کیلا، امارت انسٹی چیوٹ آف کمپیوٹر اینڈ اِلیکٹرونکس ،پارا میڈیکل انسٹی چیوٹ، دارالعلوم امارت شرعیہ پھلواری شریف، المعہد العالی پھلواری شریف، اس کے علاوہ امارت شرعیہ کی مین بلڈنگ کے لئے مین روڈ پر زمین حاصل کرکے امارت بلڈنگ کی تعمیرکا کام مکمل ہوا۔ماشاء اللہ یہ سبھی ادارے بحسن خوبی چل رہے رہیں۔اور ان سے ملت کا وقار بلند ہوا ہے۔اس تعمیر وترقی سے مولانا سید نظام الدین صاحب کی فعالیت اور انتظامی صلاحیت کا مظاہرہ ہوتا ہے۔مذکورہ بالا اداروں میں سے اکثر کی تعمیر کے وقت منعقد کئے گئے اجلاس میں میں نے بھی شرکت کی اورمجھے بھی اظہار خیال کا موقع دیا گیا۔ہر موقع پر مولانا نظام الدین صاحب کی حسن کارکردگی کو دیکھا۔ان تمام اجلاس میں دیگر اکابر کے ساتھ مولانا سید نظام الدین صاحب کی خدمات کا بھی اعتراف کیا گیا۔اور امارت شرعیہ کے لئے ان کے ذریعہ کئے گئے کاموں کو سراہا گیا۔مولانا سید نظام الدین نے تقریباً پوری زندگی امارت شرعیہ اور مسلم پرسنل لا بورڈ کی خدمت میں صرف کیا۔انہوں نے جو خدمات انجام دئیے وہ پوری امت کے لئے قابل فخر ہیں۔
مولانا مزاج کے اعتبار سے نرم،بالغ نظر،صائب الرائے اوردانشور عالم تھے۔ان میں فراست بھی تھی اور بصیرت بھی۔مسائل کے حل کرنے میں مہارت رکھتے تھے۔انہیں امارت شرعیہ کا بھی تجربہ تھا اور مسلم پرسنل لا بورڈکا بھی اور ان دونوں کے امتزاج نے ان کے مزاج کو دو آتشہ بنادیا تھا۔یہی وجہ رہی کہ انہیں ہر مسائل کا تجربہ تھا۔انہیں غصہ نہیں آتا تھا،مشتعل اور جذباتی نہیں ہوتے تھے۔مسائل کو فراست و دانائی سے حل کرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ وہ ملک کے بہت سی تنظیموں کی رکن تھے۔تقریباً ۲۰؍سال تک سینٹرل وقف کانسل کے ممبر رہے۔وہ مجلس شوریٰ دارالعلوم دیوبند،مجلس منتظمہ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ،اسلامک فقہ اکیڈمی دہلی،آل انڈیاملی کونسل دہلی کے ممبر ،مدرسہ امدادیہ دربھنگہ اور بہت سے مدارس کے سرپرست بھی رہے۔
اللہ کے فضل وکرم سے ۱۹۹۷ ء میں مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ کے پرنسپل کے حیثیت سے خدمت کرنے کا موقع حاصل ہوا۔یہ ادارہ صوبہ بہار کا ایک مشہور تعلیمی ادارہ ہے۔اور ۱۹۱۹ء سے براہ راست حکومت کے نگرانی میں چل رہا ہے۔اس ادارہ کی وجہ سے ۱۹۲۲ء میں مدرسہ ایکزامنیشن بورڈ بہار و اڑیسہ/بہااسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشنل بورڈ پٹنہ وجود میں آیا۔اس بورڈ سے ہزاروں مدارس ملحق ہیں۔مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ کی وجہ سے گورنمنٹ طبی کالج پٹنہ، مولانا مظہر الحق عربی و فارسی یونیورسٹی پٹنہ اور ادارہ تحقیقات عربی و فارسی پٹنہ بھی وجود میں آئے۔ان تمام اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ/طالبات کی تعداد لاکھوںمیں ہیں۔ان میں کام کرنے والے اساتذہ و ملازمین کی تعداد ہزاروںمیں ہے۔حکومت سے ان تمام اداروں کا تعلق ہونے کی وجہ سے ان کے مسائل بھی بہت سے رہے۔ہر حکومت کے زمانہ میں کچھ نہ کچھ مسائل میں اضافہ ہوتا رہا۔چونکہ امارت شرعیہ صوبہ بہار /اڈیشہ و جھاڑکھنڈکا سب سے اہم ملی و سماجی ادارہ ہے۔اس کے ماننے والے افراد کا دائرہ وسیع ہے۔ بہار ،اڈیشہ و جھاڑکھنڈکے عوام و خواص میں سے بڑی تعداد میں لوگ اسی ادارہ سے منسلک ہیں۔ جس کی وجہ سے بہار مدرسہ بورڈ سے ملحق مدارس میں سے تقریباًنصف کا تعلق امارت شرعیہ سے ہے۔اس اعتبار سے ان کے مسائل کے حل کرانے میں کسی نہ کسی طرح امارت شرعیہ کا ہمیشہ اہم رول رہا ہے۔میں نے اپنے پرنسپل شپ کے زمانہ میں پیدا ہونے والے مسائل کے سلسلہ میں مولانا سید نظام الدینؒ سابق امیر شریعت سے زیادہ تعاون حاصل کیا۔جب بھی کوئی مسئلہ سامنے آیا، پہلے میں نے اپنی سطح سے کوشش کی۔ اگر اس میں کامیابی حاصل ہوئی، تو بہتر۔، نہیں تو میں نے حضرت مولانا سید نظام الدینؒ سے رابطہ قائم کیا۔ساتھ ہی دوسری ملی تنظیموں کے سربراہوں سے بھی۔اس طرح امارت شرعیہ کےسابق امیر شریعت مولانا سید نظام الدینؒ سے بہت سے مسائل پر گفتگو کا موقع ملا، میں نے انہیں مسائل کے سلسلہ میں گمبھیر، حساس، متحرک اور فعال پایا۔بہت سے مسائل سے انہوں نے دلچسپی لی اور ان کو حل کرانے کے لئے کاروائی کا حکم دیا۔
میں نےامارت شرعیہ کی مجلس شوری کی میٹنگ میں اکثر مدارس کے مسائل، اسا تذہ و ملازمین کے مسائل،طلبہ کے مسائل،عربی، فارسی اور اردو کے مسائل کوپیش کیا۔جب حکومت نے غیر مالی تعلیمی نظام کو ختم کرنے کا اعلان کیا تو میں نےشوریٰ کی میٹنگ میں ۲۴۵۹ ؍غیر امداد یافتہ مدارس کے اساتذہ و ملازمین کی تنخواہ کی ادائیگی کے لئے امارت شرعیہ کی جانب سے کاروائی کرنے کے لئے تجویز پیش کی۔ساتھ ہی تعلیمی اداروں کی منظوری دینے کے لئے حکومت کی جانب سے اعلان کیا گیا۔تو بہار مدرسہ بورڈ میں الحاق پر حکومت کی جانب سے لگائی گئی پابندی کو ہٹانے کے لئے بھی تجویز پیش کی،تو مولانا سید نظام الدین ؒ نے امیر شریعت کی حیثیت سے دلچسپی کا مظاہرہ کیااور یہ مسائل حل ہوئے۔
جب بھی تقرری کا وقت ہوا۔محکمہ تعلیم کی جانب سے تقرری ضابطہ بنانے میں کوتاہی کی گئی۔زیادہ تر ضابطوں میں جان بوجھ کر یا دھوکہ سے مساوات کاذکر چھوڑ دیا گیا،جس کی وجہ سے مدارس کے فارغین کو بے حد دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔امیر شریعت نے مسائل کو سمجھا اور تقرری ضابطہ میں کمی کو محسوس کیااور میرے ذریعہ کی گئی کارروائی کو آگے بڑھاکر مسائل کو حل کرانے میں تعاون کیا۔
گورنمنٹ طبی کالج کے پری طب میں مدارس کے فارغین کا داخلہ حکومت کے ذریعہ بند کر دیا گیا۔میں نے پورے ثبوت کے ساتھ حکومت کو لکھا اور امیر شریعت مولانا سید نظام الدین صاحب سے بھی ذاتی طور پر ملاقات کرکے انہیں مسائل سے واقف کرایا۔ کاغذات کی روشنی میں انہوں نے میری رائے سے اتفاق کیا۔انہوں نے امارت شرعیہ میں میٹنگ بلائی۔میٹنگ میںاس وقت کے منسٹر ڈاکٹر شکیل احمد بھی شریک ہوئے۔انہوں نے کاغذات کی روشنی میں منسٹر صاحب سے مزید گفتگو کی اور اس طرح اس کمی کو منسٹر صاحب نے محسوس کیااور محکمۂ صحت کی جانب سے گورنمنٹ طبی کالج میں داخلہ کا نوٹیفکیشن جاری ہوااور کئی سیشن کے طلبہ کا داخلہ پری طب میں ہوا۔گورنمنٹ طبی کالج میں اساتذہ کی کمی کی وجہ سے سی سی آئی ایم کو ہمیشہ اعتراض رہتا تھااور کورس کو جاری رکھنے پر اکثر پابندی عائد کر دی جاتی تھی۔گورنمنٹ طبی کالج کے اس مسئلہ کو انہوں نے خصوصی دلچسپی سے حل کرایا۔اس طرح مستقل اساتذہ مل جانے کی وجہ سے اس کالج کے درس و تدریس کے مسائل حل ہوئے اور اس میں استحکام بھی آیا۔اس طرح بہت سے مسائل ہیں جن کا تذکرہ طویل ہے۔ ان میں سے بہت سے مسائل حل بھی ہوئےاور بہت سے مسائل حل نہیں ہو سکے۔ا ن تمام مواقع پر میں نے انہیں متحرک، فعال مسائل کے تئیں سنجیدہ اور قائدانہ صلاحیت سے بھرپور پایا۔ساتھ ہی مسلم پرسنل لابورڈ کی میٹنگ میں بھی مدعو خصوصی کے حیثیت سے شرکت کا موقع ملا۔وہاں بھی انہیں متحرک و فعال پایا۔
جب کبھی بھی کوئی خاص موقع ہوتا ہے تو ان کا اخباری بیان شائع ہوتا ہے جو نہایت ہی اہم ہوتا ہے۔جب نوادہ میں فرقہ وارانہ فساد ہوا، اس موقع پر امیر شریعت کا بیان مورخہ ۱۳؍اگست ۲۰۱۳ء کو مئوقرروزنامہ قومی تنظیم پٹنہ میں شائع ہوا ہے۔اس سے ان کے جرأت اور فراست کا اظہار ہوتاہے۔
’’نوادہ کو فوج کے حوالے کیا جائے،وزیر اعلیٰ دورہ کریں :امیر شریعت
پٹنہ (ت ن س) امیر شریعت امارت شرعیہ بہار ،اڑیسہ و جھاڑکھنڈ مولانا سید نظام الدین نے نوادہ کی صورتحال کو انتہائی سنگین قرار دیا ہے۔ اور شہر میں فرقہ وارانہ فساد کے دوران بڑے پیمانے پر اقلیتوں کی املاک کے نقصانات پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہےاور کہا ہے کہ مقامی پولس اور دیگر فورس فساد پر قابو پانے پر ناکام ہیں۔بلوائی پوری طرح آزاد ہیں اور ان پر پولس کا کوئی اثر نہیں ہورہاہے ،اس لئے بلاتاخیرشہر کو فوج کے حوالے کیا جائے۔انہوںنے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ اتنے بڑے پیمانے پر فساد ہونے کے باوجود ریاست کا کوئی وزیر یا پٹنہ سے اعلیٰ افسر موقع پر نہیں پہنچا۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار خود نوادہ کا دورہ کریں اور ان کے وزراء بھی وہاں کیمپ کریں تاکہ حالات پر فوری طور پر قابو پایاجاسکے۔انہوں نے کہا کہ اگر حکومت نے فوری اقدامات نہیں کئے تو اندیشہ ہے کہ فساد دیہی حلقوں میں پھیل جائے گا اور یہ زیادہ تباہی کی شکل اختیار کرلے گا۔
امیر شریعت نے قومی تنظیم کو بتایا کہ انہیں نوادہ سے مسلسل اطلاعات موصول ہورہی ہیں کہ بڑے پیمانے پر اقلیتوں کی املاک کو نقصان پہنچایاجارہا ہے۔آج فساد کے تیسرے دن بلوائیوں نے سب سے زیادہ تباہی پھیلائی ہے۔عورتوں اور بچوں پر حملے کئے گئے ہیں۔کرفیو کے باوجود اقلیتوں کی دکانوں کو نقصان پہنچایاجارہاہے۔ اطلاعات کے مطابق اب تک قریب ایک کروڑ کی املاک کو نقصان پہنچایا جاچکا ہےاور پولس والے گھروں میں گھس کر لوگوں کو گرفتار کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہاں افسران کی کوئی بات نہیں سن رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ سوال یہ نہیں ہے کہ ہندوماراجارہاہے یا مسلمان۔سوال یہ ہے کہ کسی کا بھی جانی ومالی نقصان ہورہاہے تو کیوں ہورہا ہے؟انتظامیہ کیا کررہی ہے؟صرف پٹنہ میں حکومت کی طرف سے بیان دیا جارہا ہے کہ شرپسندوں سے سختی سے نپٹنے کی ہدایت دے دی گئی ہے لیکن اس ہدایت کا کوئی اثر دکھائی دیتا نظر نہیں آرہا ہے۔انہوں نے کہا کہ بلوائی املاک کو نقصان پہنچارہے ہیں اور پولس صرف ہوائی فائرنگ اور لاٹھی چارج سے کام لے رہی ہے، جس کی وجہ سے بلوائیوں کے حوصلے بلندہیں۔انہوں نے کہا کہ صورتحال پر فوری طور پر قابو پانے کا موثر طریقہ یہی ہے کہ شہر کو فوج کے حوالے کیا جائے اور وزیر اعلیٰ خود شہر کا دورہ کریں۔‘‘
میں نے پایا کہ امیر شریعت مولانا سید نظام الدینؒ صائب رائے تھے۔ سب کی سنتے تھے،تلخ بھی اور شیریں بھی،ان میں قوت برداشت بھی تھی،مشتعل نہیں ہوتے تھے۔تلخ باتوں کو بھی سن کر چہرے پر بل نہیں آتا،تلخ باتوں کو اکثر ٹال جاتے تھے،یہ بھی ان کی بڑی خوبی تھی۔ بہر حال مولانا سید نظام الدینؒ سابق امیر شریعت اپنے دور کے ایک کامیاب منتظم، صائب الرائے امیر اور دیدہ ور عالم تھے، وہ اپنی خدمات کی وجہ سے ہمیشہ یاد کئے جاتے رہیں گے۔
تحریرْ: (مولانا) ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی
رابطہ: نیوعظیم آباد کالونی ویسٹ ،سیکٹرڈی،پوسٹ مہندرو، پٹنہ-۶
موبائل: 9835059987