انسان کو اگر کوئی نیک عمل، اچھا کام اور خدا کو راضی کرنے والا کوئی وقت اور لمحہ میسر آئے تو اس عنایت،اوراس توفیق پر اللہ کا شکر گزار ہونا چاہیے اور اپنے کو خوش قسمت اور خوش نصیب سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے عدم استحقاق کے باوجود محض اپنے لطف و کرم اور فضل و احسان سے اس کو اس لائق بنایا۔
اور اس کی توفیق عطا کی ، اگر انسان عجز و انکساری اور تواضع و فروتنی اختیار کرتا رہے ،اپنی کوتاہی، بے بسی، بےکسی، اور نااہلی کا اعتراف کرتا رہے اور اس کے ساتھ اپنے گناہوں ،خامیوں، خطاؤں اور کمزوریوں پر نادم و شرمندہ ہوتا رہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے خیر اور نیکی کا راستہ آسان کر دیتا ہے اور اسے نیک عمل کی راہ سجھاتا ہے ۔
جب بندہ صدق دل سے اللہ سے کسی چیز کو طلب کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے مانگنے اور طلب کرنے والے بندہ کو غیب سے نواز دیتا ہے،اس کو محروم نہیں کرتا،اور اس کے لیے غیب سے اسباب و وسائل مہیا کردیتا ہے ۔ راقم الحروف کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کا کچھ ایسا ہی فضل و احسان اور لطف و عنایت کا معاملہ رہا کہ بظاہر اسباب و وسائل نہ ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے غیبی طور پر اس کا انتظام کردیا اور راقم کو اپنی شریک حیات کے ساتھ اللہ نے اپنے مبارک گھر پر بلا لیا ، میں تو کسی طرح اس قابل اور لائق نہیں تھا ، مولانا نفیس الحسینی رح کے یہ اشعار میرے موافق حال ہیں کہ
شکر ہے تیرا خدایا میں تو اس قابل نہ تھا
تو نے اپنے گھر بلایا میں تو اس قابل نہ تھا
اپنا دیوانہ بنایا میں تو اس قابل نہ تھا
گرد کعبے کے پھرایا میں تو اس قابل نہ تھا
مدتوں کی پیاس کو سیراب تونے کردیا
جام زمزم کا پلایا میں تو اس قابل نہ تھا
ڈال دی ٹھنڈک میرے سینے میں تو نے ساقیا
اپنے سینے سے لگایا میں تو اس قابل نہ تھا
بھا گیا میری زباں کو ذکر الا اللہ کا
یہ سبق کس نے پڑھایا میں تو اس قابل نہ تھا
میری کوتاہی کہ تیری یاد سے غافل رہا
پر نہیں تو نے بھلایا میں تو اس قابل نہ تھا
خاص اپنے در کا رکھا تو نے اے مولا مجھے
یوں نہیں در در پھیرایا میں تو اس قابل نہ تھا
تیری رحمت تیری شفقت سے ہوا مجھ کو نصیب
گنبد خضریٰ کا سایہ میں تو اس قابل نہ تھا
بار گاہ سید کونین میں آکر نفیس
سوچتا ہوں کیسے آیا میں تو اس قابل نہ تھا
آج 22/ اکتوبر بروز منگل صبح سفر سے واپسی ہوگئی ہے،فجر کی نماز کے وقت اپنے گھر پہنچ گیا، لیکن ذہن و دل اور فکر و نظر میں اب بھی صرف حرمین کی یادیں اور وہاں کے تصورات ہیں ، ذکر ہے تو صرف کعبہ کا ، مطاف کا، صفا مروہ کا، طائف کا، بنو سعد کا، مسجد نبوی کا، گنبد خضریٰ کا ،اور خندق و جبل و بدر و احد کا، مسجد قبلتین کا اور قبا و بقیع کا باب السلام کا اور وہاں کے مقدس مقامات کا ، واپسی کے بعد ہجر و فراق دوری و مہجوری کی جو کیفیت اور حالت ہے، اس کی ترجمانی شاعر کے ان اشعار سے بخوبی ہوتی ہے ۔کہ
ہم مدینہ سے اللہ کیوں آگئے
قلب حیراں کی تسکیں وہیں رہ گئی
دل وہیں رہ گیا جاں وہیں رہ گئی
خم اسی در پہ اپنی جبیں رہ گئی
اللہ اللہ وہاں کا درود و سلام
اللہ اللہ وہاں کا سجود و قیام
اللہ اللہ وہاں کا وہ کیف دوام
وہ صلاة سکوں آفریں رہ۔ گئی
جس جگہ سجدہ ریزی کی لذت ملی
جس جگہ ہر قدم ان کی رحمت ملی
جس جگہ نور رہتا ہے شام و سحر
وہ فلک رہ گیا وہ زمیں رہ گئی
پڑھ کے نصر من اللہ فتح قریب
جب ہوئے ہم رواں سوئے حبیب
برکتیں رحمتیں ساتھ چلنے لگیں
بے بسی زندگی کی یہیں رہ گئی
یاد آتے ہیں ہم کو وہ شام و سحر
وہ سکون دل و جاں وہ روح و نظر
یہ انہی کا کرم ہے انہی کی عطا
ایک کیفیت دل نشیں رہ گئی
زندگانی وہیں کاش ہوتی بسر
کاش بہزاد آتے نہ ہم لوٹ کر
اور پوری ہوئی ہر تمنا۔ مگر
یہ تمنائے قلب حزیں رہ گئی
(بہزاد لکھنوی مرحوم)
اور زائر حرم حمید صدیقی مرحوم نے کیا خوب حقیقت کی ترجمانی کی وہ کہتے ہیں,,
سنا دے پھر نویدِ شادمانی
مدینے میں جو گزری زندگی
حقیقت ہے، وہی باقی کہانی
کہاں سے لاؤں وہ الفاظ یارب
کریں جو دردِ دل کی ترجمانی
خوشا وہ وقتےکہ تھا طیبہ میں حاصل
مجھے لطفِ سرورِ جاودانی
دعائے لب پر نہ دل محوِ تمنا
ز سر تا پا زبان بے زبانی
سنایا مژدہ دیدار طیبہ
نسیمِ صبح تیری مہربانی
کرم نے اُس کے خود کی دستگیری
مرے کام آئی میری ناتوانی
وہ جذباتِ محبت کا تلاطم
وہ اک دیوانہ محوِ نعت خوانی
شمیم انگیز وہ انفاسِ قدسی
وہ عطر آگیں فضائے آسمانی
نشاطِ افزوز وہ سجدوں پہ سجدے
وہ محراب نبی کی ضو فشانی
موجہہ کا وہ حصہ درمیانی
قدوم پاک سے جو مس ہوئی تھیں
بہت دلکش ہیں وہ راہ پرانی
مرے دل کو بہت ہے اک مدت سے یارب
تمنائے حیات جاودانی
اگر خاکِ بقیعِ پاک مل جائے
مبارک ہے، وہ مرگ ناگہانی
کہاں ہے اے نسیمِ صبح طیبہ
سنا دے پھر نویدِ شادمانی
درِ پاکِ نبی پہ ہو کے حاضر
بصد امیدِ لطف و مہربانی
سنائیں اہلِ دل مانند جامی
پیامِ شوق اشکوں کی زبانی
“بروں آور سر از بردِ یمانی
کہ روئے تست صبح زندگانی
تحریر: محمد قمر الزماں ندوی