سیرت رسول ﷺ میں انسانی جذبات کی عکاسی

تحریر: محمد قمر الزماں ندوی
استاذ/مدرسہ، نور الاسلام، کنڈہ، پرتاپ گڑھ 950660075

نبی کریم ﷺ کی ذات گرامی پوری دنیائے انسانیت کے لیے سو فیصد اسوہ ، آئیڈل اور نمونہ ہے ، آپ کی زندگی، آپ کے شب و روز ،آپ کے اعمال و اخلاق، کرادر و اوصاف، حرکات و سکنات، نشست و برخاست اور آپ کے اسوئہ حسنہ کو بھی دنیاے انسانیت کے لیے اللہ تعالیٰ نے مشعلِ راہ بنا دیا، جن میں انسانی احساسات و جذبات کی بھی بھر پور عکاسیاں اور جھلکیاں موجود ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیک وقت دو دو ذمہ داریاں سنبھالیں، اور دو عظیم الشان اور جلیل القدر منصب پر فائز رہ کر دونوں ذمہ داریوں کے تمام تر تقاضوں کو بحسن خوبی تکمیل تک پہنچایا۔ اس ذمہ داری کو کوئی عام آدمی اور ہمہ شما شخص انجام نہیں دے سکتا تھا، بلکہ اسے تو وہی انجام دے سکتا تھا، جس کی تربیت ربانی و الہی تربیت ہوئی ہو اور جس نے انسانیت اور انسانی کردار کی بذات خود اپنے اسوئہ حسنہ سے اس کی تعمیر کی ہو اور پھر اس کی صحیح رہنمائی کے لیے انسانی احساسات و جذبات کو بھی اس میں شامل کردیا ہو۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں جہاں انسانی زندگی کے مختلف اور ہمہ جہت و ہمہ گیر پہلوؤں کا عکس ملتا ہے، وہیں آپ کی زندگی میں انسانی جذبات و احاسات کی رعایت، یہ پہلو بھی حد درجہ نمایاں ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جہاں نبی اور رسول تھے، ساری دنیا کے رہبر اور امام تھے، وہیں آپ ایک شریف انسان کے بیٹے اور پوتے بھی تھے، جہاں آپ شفیق باپ تھے، وہیں کسی کے بھتیجے، داماد اور کسی کے خسر، خالو اور ہم زلف تھے، آپ کے مبارک سینہ میں ایک حساس انسانی دل دھڑکتا تھا، جو زندگی کے مختلف موڑ اور مختلف موقعوں پرفطرت انسانی اور اس کے جذبات و احساسات کی عکاسی بھی کیا کرتا تھا، جس کی جھلک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی میں مختلف مقامات پر ملتی ہے۔ ذیل کی تحریر میں ہم حیات نبویﷺ میں انسانی جذبات کی عکاسی، اس پہلو پر روشنی ڈالنے کی پوری کوشش کریں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا یہ پہلو بھی ہمارے لیے ایک بہترین اسوہ اور نمونہ ہے، ہمیں یہاں بھی آپ کی پیروی اور تقلید کرنی چاہیے۔۔
اسلام میں فتح مکہ کے بعد فوج در فوج داخلے کا دور جب شروع ہوا تو اسی زمانے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب اور شفیق چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا قاتل وحشی رضی اللہ عنہ بھی دائرہ اسلام میں داخل ہوا اور ان صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی بابرکت اور مقدس جماعت میں شامل ہوگیا ، جن کے بارے میں آپ نے فرمایا تھا کہ اصحابی کالنجوم ، اللہ اللہ لا تتخذوا ھم غرضا من بعدی الخ (بخاری شریف دوم مناقب الصحابة )۔۔
یعنی میری نظر میں میرے صحابہ مثل ستاروں🌟✨ 🌟 کے ہیں، میرے بعد ان کو کوئی نشانہ نہ بنائے،ان پر کسی طرح کا کیچڑ نہ اچھالے ،کیونکہ جس نے ان سے محبت کا ناطہ رکھا، گویا اس نے مجھ سے محبت کا رشتہ جوڑ لیا اور جس نے ان سے عداوت، بیر اور دشمنی رکھی، اس نے مجھ سے عداوت کی، میرے صحابہ کو اذیت پہنچائی اور جب ایسا ہو تو پھر قریب ہے کہ اللہ اس کی شدید گرفت کرے۔۔
ایک طرف یہ حد درجہ عقیدت مندانہ اعلان اور دوسری جانب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ۔۔۔۔ الاسلام یھدم ماکان قبله۔ (حدیث)۔ یعنی اسلام کی خوبی اور کمال یہ ہے کہ وہ اپنے سے پہلے کی ہوئی بد اعمالیوں کو ختم کردیتا ہے۔
لیکن یہ سوال یہاں پیدا ہوتا ہے کہ ایمان لانے کے بعد اور حلقئہ نجوم میں شامل ہوکر مذکورہ بالا اعلانات کے تحت حضرت وحشی رضی اللہ عنہ کو بھی ایک صحابی ہونے کے ناطے افق رسالت ﷺ پر دیگر صحابہ کرام کی طرح چمکنے کا حق حاصل تھا، لیکن نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں شدید احساس کا کوئی جھٹکا تھا ،جس نے آپ کو وحشی سے یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔ ھل تستطیع ان تغیب وجھک عنی۔( بخاری شریف جلد دوم)
کیا تم یہ کرسکتے ہو کہ میرے سامنے آنے سے پرہیز اور گریز کرو؟
معرکہ احد میں پیارے چچا کے بے دردانہ قتل اور کلیجہ تک چبا ڈالنے کے وحشیانہ عمل کے شدید احساسات نے جذبات کی شکل میں حضرت وحشی رضی اللہ عنہ کو اپنی نگاہ رحمت سے اوجھل رہنے کا حکم دیا تھا۔۔
بات کوئی معمولی نہیں تھی، کیونکہ چچا کی لاش کی تلاش میں آپ بذات خود نکل پڑے تھے، اور جب بطن وادی میں انتہائی کٹے پھٹے اور مثلہ شدہ حالت میں چچا کی لاش نظر آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم شدت غم سے نڈھال ہوگئے اور پھوٹ پھوٹ کر روئے۔( زاد المعاد جلد دوم۔۔) اس حدیث کے مطابق اس درد ناک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے جو جذباتی کلمات صادر ہوئے اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر یہ خوف نہ ہوتا کہ میری پھوپھی صفیہ رضی اللہ عنھا بہت روئیں گی اور میرے بعد یہ چیز سنت بن جائے گی تو میں حد درجہ مسخ شدہ لاش کو یونہی میدان میں چھوڑ کر چلا جاتا، تاکہ باقی ماندہ جسم کو درند و پرند اپنی خوراک بنا لیتے اور اگر اللہ نے مجھے قریش پر کبھی غلبہ عطا کیا تو چچا کے بدلے ان کے تیس آدمیوں کا مثلہ کروں گا۔
یہ کلمات شدت غم فرط حزن اور فرط جذبات میں آپ کی زبان مبارک سے نکل پڑے تھے، لیکن اس کے بعد ہی زبان وحی سے نکلے کلمات نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے جذباتی کلمات پر قابو پالیا اور آپ کو ایسے کرنے سے منع فرما دیا گیا۔۔ ( سہ ماہی کاروان ادب جولائی تا ستمبر ۱۹۹۴ء)
یہ حقیقت ہے کہ کسی اتار چڑھاو، حادثات یا دکھ درد اور مصیبت و پریشانی کے نتیجہ میں عام انسانوں پر احساس کے شدید جھٹکے پڑتے ہیں ایسے ہی جھٹکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبع نازک پر بھی پڑتے رہے۔
معرکہ بدر میں جو مشرکین قیدی بنا کر لائے گئے تو ان سبھی کی مشکیں بندھی ہوئی تھیں، انہیں اسیران بدر میں نبی کریم ﷺ کے چچا حضرت عباس بھی شامل تھے۔ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہی ایک کمرے میں پڑے قیدیوں کو شدت درد سے کراہنے کی بار بار جو آوازیں آرہی تھیں، ان میں چچا عباس کی بھی آواز شامل تھی،جو رہ رہ کر نبی کریم ﷺ کے جذبات و احساسات کو جھٹکے دیتی رہی اور اس کے سبب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیند اچاٹ ہوگئی۔ اسی عالم میں بار بار کروٹیں بدلنے اور بے چینی کے اظہار نے صحابہ کرام کے احساس کو بھی جھنجھوڑا، تو دریافت کیا گیا،، اے اللہ کے رسول! آخر اس بے چینی کا سبب کیا ہے؟ ۔۔۔۔۔ فرمایا مجھے چچا عباس کا کرب سونے نہیں دے رہا ہے۔ لوگوں نے عرض کیا کیا ان کے بند ڈھیلے کر دیئے جائیں۔؟ فرمایا اگر کرنا ہی ہے تو پھر سبھی قیدیوں کے بند ڈھیلے کئے جائیں۔ یہ خالص ایک جذبئہ انسانی اور فطری احساس تھا، جو چچا اور بھتیجے کے رشتے سے مربوط تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے چینی کا سبب بن گیا۔( پیغمبر عالم صلی اللہ علیہ وسلم ۲۲۴/ ۲۲۵ بحوالہ سہ کاروان ادب شمارہ جولائی تا ستمبر ۱۹۹۴ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بدر کے قیدیوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد ابو العاص بھی تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شرط پر بلا فدیہ اس کو چھوڑ دیا کہ وہ حضرت زینب رضی عنھا کی راہ نہ روکیں گے۔ اس کا پس منظر یہ تھا کہ جب فدیہ ادا کرکے اسیران بدر کی رہائی کی تجویز پاس ہوئی،تو رسول ﷺ کی لاڈلی بیٹی حضرت زینب رضی اللہ عنھما نے اپنے شوہر کی رہائی کے لیے بطور فدیہ بارگاہِ رسالت مآبﷺ میں وہ ہار ہی بھیج دیا، جو بوقت رخصتی نبی کریم ﷺ کی زوجئہ مطہرہ مرحومہ حضرت خدیجہ الکبری نے اپنی بیٹی حضرت زینب رضی اللہ عنھما کو دیا تھا۔ بیٹی کا یاد گاری ہار جونہی نظروں کے سامنے آیا تو چشم مبارک سے بے اختیار آنسو چھلک پڑے اور آپ پر رقت طاری ہوگئی۔ ایک طرف جہاں شفیق و ہمدرد باپ کے قلب پر بیٹی کی مفلسی اور غربت اور بے سروسامانی کے احساس نے کچوکا لگایا، وہیں انتہائی نازک دور میں ہر قدم پر ساتھ دینے والی مرحومہ رفیقئہ حیات حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کی مفارقت کا غم بھی تازہ ہوگیا۔ حضرت عائشہ نبی کریم ﷺ کے ان احساسات و جذبات کی عکاسی یوں فرماتی ہیں،، جب رسول اللہ ﷺ نے اس ہار کو دیکھا تو آپ پر بڑی رقت طاری ہوگئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے اجازت چاہی کہ ابو العاص کو چھوڑ دیں۔ صحابہ کرام نے اسے بسر و چشم قبول کرلیا اور رسول اللہ ﷺ نے ابو العاص کو اس شرط پر چھوڑ دیا کہ وہ حضرت زینب کی راہ چھوڑ دیں گے۔ چنانچہ ابو العاص نے ان کا راستہ چھوڑ دیا اور حضرت زینب رضی اللہ عنھا نے ہجرت فرمائی۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت زید بن حارثہ اور ایک انصاری صحابی کو بھیج دیا کہ تم دونوں بطن یا جج میں رہنا۔ جب زینب رضی اللہ عنھا تمہارے پاس سے گزریں تو ساتھ ہو لینا۔ یہ دونوں حضرات تشریف لے گئے اور حضرت زینب رضی اللہ عنھا کو ساتھ لے کر مدینہ واپس آئے۔ حضرت زینب رضی اللہ عنھا کی ہجرت کا واقعہ بڑا طویل اور المناک ہے۔ ۔۔۔۔۔۔(الرحیق المختوم ۳۳۶)
رسول اللہﷺ کے پرچم بردار مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ اسلام سے پہلے قریش کے بہت ہی ناز پروردہ نوجوان تھے، عیش و عشرت، ناز و نعم اور خوشحالی میں پلے بڑھے تھے، مال و دولت کی بہتات تھی، قیمتی لباس زیب تن کرتے تھے، اور ہمہ وقت خوشبو میں معطر رہتے تھے، اپنے تجمل اور خوش پوشاکیں میں ضرب المثل تھے، آج ان کو ایک چادر میں کفن مل سکی، جو اتنی چھوٹی تھی کہ جب سر چھپایا جاتا تو پیر کھل جاتے، پیر چھپائے جاتے تو سرکھل جاتا رسول اللہﷺ نے فرمایا ان کا سر چھپا دو۔ اور پیروں پر اذخر گھاس ڈال دو۔ ۔۔(صحیح بخاری۔۔)
انہیں صحابی رسول اللہﷺ کے بارے میں آتا ہے کہ ایک موقع تھا جب نبی کریم ﷺ کی نظر عرب کے اس خوبصورت اور نازک مزاج نوجوان حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ پر پڑ گئی،جو ایک رئیس باپ کے بیٹے ہونے کے ناطے اسلام لانے سے قبل انتہائی خوش عیشی اور خوش پوشی کے دن کاٹ چکے تھے، لیکن اسلام لانے کے بعد رسول اللہﷺ نے اسی رئیس زادے کے جسم پر جب ایک انتہائی خستہ و شکستہ چادر دیکھی، جسے انہوں نے اپنی گردن سے باندھ کر لٹکا رکھا تھا اور جس پر چمڑے کی متعدد پیوندیں لگی ہوئی تھیں، تو اس موقع پر بھی شدت احساس اور جذبئہ انسانی کے سبب آپ تڑپ اٹھے تھے اور بے اختیار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چشم مبارک سے آنسو چھلک پڑے تھے، آنکھیں اشکبار ہوگئیں تھیں۔
مصعب بن عمیر رضی اللہ علیہ کو دیکھ کر رونے کے پس منظر میں وہی احساس اور جذبہ کارفرما تھا،جو ایسے موقع پر کسی انسانی قلب و ضمیر پر طاری ہوا کرتا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صدمہ اس بات پر ہوا کہ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کا شاندار اور پرکیف و پرعیش ماضی حال کی شکستگی میں کس طرح گم ہوکر رہ گیا ہے؟ کہ اطلس و حریر اور دیباج و ریشم پہننے والا شاب رعنا اور نوجوان آج اپنے جسم کو صرف ایک پھٹی پرانی چادر سے ڈھکے ہوئے ہے۔ اسی کے ساتھ آنے والے دور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چشم بصیرت جب مسلمانوں کی خوش عیشی اور حد درجہ فارغ البالی پر پڑی، تو اس پر بھی آپ کے احساس نے ایک جھٹکا محسوس کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،، مسلمانو! اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب تم میں سے ایک شخص صبح کو جو لباس پہنے گا شام کو اسے تبدیل کردے گا، اور اس کے سامنے دسترخوان پر ایک طشت سجایا جائے گا تو دوسرا اٹھایا جائے گا، اور تب تم اپنے گھروں 🏠🏠🏨 پر بھی ایسے پردے لگاؤ گے،جس طرح کعبہ شریف پر لگایا جاتا ہے۔ لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول! اس دن تو ہم آج سے بہتر ہی ہوں گے، کیونکہ سامان معیشت کا افراط ہوگا اور خوب جم کر عبادت و ریاضت ہوگی، فرمایا نہیں آج تم اس دن سے بہتر ہو۔
امت کے حال اور مستقبل کی فکر کے بیچ بھی یہ ایک نازک احساس تھا، جس کے سبب آپ پر یہ کیفیت اور اس طرح رقت طاری تھی۔ ( مستفاد سہ ماہی کاروان ادب شمارہ جولائی تا ستمبر ۱۹۹۴ء)
ان فطری و انسانی احساسات و کیفیات اور اعلی و لطیف جذبات کی جھلک ہمیں وہاں بھی نظر آتی ہے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مٹی ہوئی پرانی قبر پر تشریف لے گئے، اس وقت آپ پر رقت طاری ہوئی اور آپ رو دئیے، پھر فرمایا،، ،،یہ آمنہ کی قبر ہے،، یہ اس وقت کی بات ہے، جب ان کی وفات پر طویل عرصہ اور زمانہ گزر چکا تھا۔( نبی رحمت، ص، ۶۰۱) ۔۔۔ ۔۔۔
رسول ﷺ کی سیرت میں نبوت اور دعوت حق کے کار عظیم، کے ساتھ انسانیت کے درد و سوز، لطیف انسانی احساسات اور پاکیزہ و بلند جذبات پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ ریز تھے۔ جس کا تذکرہ ہم نے اوپر کیا، اور جس کی کچھ اور مثالیں ابھی ہم اور پیش کرنے جارہے ہیں۔
آپ نے اپنے وفادار رفقاء کو دعوت حق کی سو فیصد ادائیگی اور مکمل اہتمام کے باوجود آخری ایام تک فراموش نہیں کیا، جنھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر لبیک کہا تھا اور راہ حق میں سب کچھ لٹا دیا تھا، اور احد کے معرکہ میں شہادت پاکر حیات جاوید حاصل کی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا برابر ذکر فرماتے رہے، ان کے لیے دعائیں کرتے رہے اور ان کے ہاں تشریف لے جاتے رہے ۔
یہ محبت و وفا انسانی جسموں سے تجاوز کرکے ان بے جان پتھروں، پہاڑوں اور وادیوں تک میں سرایت کرگئی ،جہاں عشق و وفا اور قربانی و جاں نثاری کے یہ مناظر چشم فلک نے دیکھے تھے اور جن کو ان کے جائے قیام بننے کا شرف حاصل ہوا تھا، انس بن مالک رض بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کو دیکھ کر فرمایا،، ھذا جبل یحبنا و نحبه،، یہ وہ پہاڑ ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ ابی حمید راوی ہیں کہ ہم رسول ﷺ کے ساتھ غزوئہ تبوک سے واپس آئے، جب مدینہ قریب آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،، ھذہ طابة وھذا جبل یحبنا و نحبه،، یہ طابہ مدینہ منورہ ہے اور یہ وہ پہاڑ ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔( بخاری کتاب المغازی بحوالہ نبی رحمت ص، ۵۹۸) ۔۔۔۔
حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول ﷺ ایک روز اہل احد کے پاس تشریف لے گئے اور ان کے لیے دعاء مغفرت کی، جابر بن عبد اللہ کہتے ہیں کہ،، میں نے دیکھا کہ جب رسول اللہﷺ کے سامنے اصحاب احد کا ذکر کیا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، خدا کی قسم، میری خواہش تھی کہ میں بھی شہداء احد کے ساتھ پہاڑ کے دامن میں رہ جاتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چاہنے والے چچا اور رضاعی بھائی کی المناک اور دردناک شہادت کا صدمہ انبیاء اولو العزم کے صبر کے ساتھ برداشت کیا، لیکن جب آپ احد سے واپس ہوتے ہوئے مدینہ منورہ تشریف لائے، اور بنی عبد الاشھل کے گھر کے سامنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم گزرے اور ان شہداء پر رونے کی آواز آپ کے کانوں میں آئی تو اس واقعہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لطیف انسانی احساسات کو چھیڑ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،، لکن حمزة لا بواکی له ،، لیکن حمزہ رضی اللہ عنہ کے لیے رونے والیاں نہیں ہیں۔
جب گھر آنے پر سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ اور اسید بن حضیر رض کو یہ معلوم ہوا تو ان دونوں نے گھر کی عورتوں کو حکم دیا کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا ماتم کریں۔ ان خواتین نے جب ایسا کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،، اللہ تم پر رحم فرمائے، واپس جاؤ یہاں آنے سے غم خواری کا سامان ہوگیا، اور آپ نے یہ بھی فرمایا، میرا مطلب یہ نہیں تھا، میں میت پر رونا پسند نہیں کرتا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا،،۔
تاہم یہ شریفانہ و اعلیٰ انسانی احساسات و جذبات نبوت، اور دعوت اسلامی کی عظیم ذمہ داریوں اور حدود الہیہ کی رعایت و حفاظت پر کبھی اثر انداز نہیں ہوئے۔(مستفاد نبی رحمت، ص، ۵۹۸.۵۹۹) ۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ مضمون کا اگلا حصہ کسی اور موقع پر پوسٹ کیا جائے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناشر/ مولانا علاؤ الدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ 9506600725

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے