جمعہ:ہفتہ واری اجتماع عام، اتحاد و تربیت کا پلیٹ فارم

اسلام اجتماعیت کو پسند کرتا ہے ۔وہ علیکم بالجماعتہ یعنی جماعت بن کر رہنے کی تلقین کرتا ہے۔اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو کا حکم دیتا ہے۔ اسلام جماعت بنے،اطاعت کرنے ،امیر کی بات سنے ،ہجرت اور جہا د فی سبیل اللہ کی تعلیم دیتا ہے۔
جمعہ دنوں کا سردار اور سید الیوم ہے ۔اس کی فضیلت ،اہمیت کے لیے سورہ جمعہ اور احکام جمعہ موجود ہیں۔
جمعہ کے دن سورہ کہف کی کم از کم ابتدائی دس اور آخری دس آیا ت کی تلاوت اور سمجھ کر پڑھنےکی بڑی فضیلت ہے۔ ملت اسلامیہ کے لیے یہ دن ہفتے کی عید کا دن ہوتا ہے ۔ جو لوگ پنج وقتہ پابند نہیں وہ بھی جمعہ کی نماز کے لیے دور دراز سے بغیر بلائےاپنی دینی حمیت کے تحت جمع ہوتے ہیں ۔اس اجتماع عام کے لیے الگ سے محنت،تیاری اور خرچ کرنےکی بھی ضرورت نہیں ہوتی ۔قریہ قریہ ،گاؤں گاؤں ایسا نظام دوسرے کسی مذہب کے پاس نہیں ہے ۔اس ہفتہ واری اجتماع سے بھر پور فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔
عام طور سے ہر مسجد میں خطبہ جمعہ سے قبل 20/30 منٹ کا بیان علاقائی زبان میں دیا جاتا ہے ۔ لوگ باگ توجہ اور انہماک سے اس بیان کو سنتے ہیں ۔
ہمارے یہاں منصوبہ بند طریقے پر ترسیل معلومات کا نظم بہت کم ہے۔
(1)مقرر و خطیب اپنے طور سے اپنی صلاحیت کے مطابق عمومی باتیں ،غیر ضروری مسائل ، بے جوڑ موضوعات ،غیر مستند غلو آمیز قصے،سطحی واقعات یا بین الاقوامی مسائل کو چھیڑتے ہیں اور علاقائی، مقامی مسئلے پر کوئی گفتگو نہیں کی جاتی ۔ ایک طرح سے بس خانہ پوری کردی جاتی ہے۔
(2) یہاں شعلہ بیانی ،چیخ پکار کی بجائے سنجیدہ بیانی اورآسان تفہیمی انداز کی ضرورت ہے ۔فصیح زبان اور قافیاتی لچھداری کی بجائے دلسوزی، شیریں لب ولہجہ اور وقت پر بات ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔
(3)دل سے بات نکلے دل میں اترے۔ ایسا انداز اختیار کیا جانا چاہیے
(4)سال کے باون ہفتوں کے لیے مختصر خطبے Synopses کے تحت تیار کیے جائیں ۔ مطالعہ کے لیے قدیم وجدید خطبات سے فائدہ اٹھایا جائے ۔کچھ جمعہ کے بیانات سوشل میڈیا پر موجود بھی ہیں ۔
(6)جمعہ کے بیان قرآن ،احادیث،سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ،اسلامی تاریخ ،حالات حاضرہ ، روز مرہ کے دینی مسائل ،امر بالمعروف و نہی عن المنکر ،اقامت دین،دعوت دین، تبلیغ دین ، اتحاد ملت ،اصلاح معاشرہ،تذکیہ نفس ، ملی امور ، تحفظ ملت ،تعلیم و تربیت ،بچوں کی تربیت ،خدمت خلق پر کیا جائے ۔
(7)امت میں ملی،دینی ،تعلیمی اور سیاسی شعور کی بیداری کے لیے ملت کو ابھارا جائے ۔بیان میں سوالیہ انداز کیوں ،کیسے ،کہاں اور مشورہ طلب تخاطب ہو ۔
(8)جمعہ کے بیان کے ذریعےملت میں آگہی وبیداری کا جذبہ پیدا کیا جائے ۔اس اسٹیج سے ہمیشہ اتحاد اور مثبت تعمیری فکر کی بات کی جائے۔انتشار ،افتراق اور دوسروں پر کیچڑ اچھالنے سے گریز کیا جائے۔۔
(9)اخلاقیات ،ایمانیات ،معا شرت،آپسی معاملات ،معیشت،باہمی اخوت ومساوات ،عدل و انصاف ،اجتماعی مسائل کا حل اجتماعی کوشش ہے ۔ (10)اصلاح معاشرہ کے تحت،عائلی زندگی،اجتماعی زندگی، آسان نکاح ، لڑکی کا وراثت میں حصہ ،طلاق وخلع کے مسائل پر متوجہ کیا جائے ۔جہیز، رسومات و خرافات سے بچنے کی تلقین کے لیے شادی کے سیزن کے اعتبار سے جمعہ کے بیانات مختص ہوں۔
(11)جس طرح جمعہ کے چندے کو نوٹس بورڈ پر لکھا جاتا ہے اسی کے سامنے اگلے ہفتے کے بیان کا عنوان بھی لکھ دیا جائے اور مقرر کا نام بھی ۔ مصلیان تجسس،ذہنی تیاری اور آمادگی کے ساتھ متوجہ رہیں گے ۔ ایک دوسرے کو اس عنوان سے واقف کراتے ہوئے شریک ہونے کے لیے دعوت بھی دیں۔
(12)گنجائش اور سہولت ہو تو امام مسجد کے علاوہ بھی کسی عالم دین ،خطیب،دانشور اور مضمون کے ماہر کو بحثیت مہمان مقرر کے مدعو کیا جائے ۔ اس مختصر وقت اور اہم اجتماع کا درست استعمال اسی طرح ہوسکتا ہے کہ بیان کا مواد معیاری ،مستند،اور عوام کی زبان میں ہو۔بات حکمت،بصیرت ،فراست ، موعظت حسنہ اور دلائل سے پیش کی جائے۔ بیان کے مواد Content کو علمی تیاری اور منصوبے سے فعال ،منظم اور موثر بنایا گیا ہو ۔
اس کی عملی مثال مسجد اشاعت اسلام اوکھلا دہلی کے جمعہ کے بیانات ہیں ۔ان کو سننے کے لیے لوگ دور دراز سے وقت سے بہت پہلے پہنچ جاتے ہیں بے۔ علماء ،دانشور متعینہ موضوع پر بصیرت افروز بیان دیتے ہیں ۔یہاں کے بیانات یوٹیوب پر دستیاب ہیں۔ممکن ہے اور جگہوں پر بھی ایسی بہت سی مثالیں موجود ہوں ۔

ازقلم: عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے