اقبال مرحوم کا ایک معروف شعر ہے :
اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے نم ناک
نہ زندگی نہ محبت نہ معرفت نہ نگاہ
موقعے موقعے سے مدارس و خانقاہ مخالف ذہن رکھنے والے کچھ لوگ یہ شعر پیش کرتے ہیں ، اور مدارس و خانقاہ کے بارے میں وہی کچھ ثابت کرنا چاہتے ہیں ، جو کچھ بہ ظاہر پیش نظر شعر سے ثابت ہو رہا ہے۔ اور واقعہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ ، یہاں تک کہ اکثر اہل مدارس و خانقاہ بھی اس شعر کا وہی مفہوم سمجھتے ہیں ، جو بہ ظاہر سمجھ میں آ رہا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ شعر کچھ اور ہی مفہوم رکھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس شعر کا کیا مطلب ہے ؟ جواب یہ ہے کہ اصل مطلب تو خود شاعر ہی بتا سکتا ہے ؛ لیکن ظاہر ہے کہ اقبال کے کلام کی لوگوں نے شروح لکھی ہیں ، اور کلام ہائے اقبال کی مراد پانے کی کوششیں کی ہیں۔ زیر نظر شعر کی مراد بھی یقینا پانے کے لیے لوگوں نے کوششیں کی ہوں گی۔ اولا یہ بات واضح ہونی ضروری ہے ؛ بلکہ بہت سے لوگوں پر واضح بھی ہوگی کہ مدارس ہوں ، خانقاہیں ہوں یا دینی و ملی تنظیمیں اور تحریکیں ؛ کوئی بھی شعبہ عمل مکمل طور پر کام یاب ہو ، اور اس میں کماحقہ عمل کی انجام دہی ہو رہی ہو ، اس کا دعویٰ کوئی نہیں کر سکتا۔ مدارس میں بھی کمیاں ہیں۔ خانقاہوں میں بھی کوتاہیاں ہیں ، اور تنظیموں و تحریکوں میں بھی کمی بیشیاں۔ جب کمیاں ، کوتاہیاں اور خامیاں ہیں ، تو ظاہر ہے کہ تنقیدیں اور تعریضیں بھی ہوں گی ، اور نکتہ چینیاں اور نکتہ آفرینیاں بھی ہوں گی۔ لہذا اگر مدارس و خانقاہ پر بجا طور پر تنقیدیں ہوتی ہوں ، تو کوئی غلط نہیں ؛ بلکہ ان تنقیدوں کا دل سے استقبال ہونا چاہیے۔ اقبال کے پیش نظر شعر کا کس نے کیا مطلب لکھا ہے ، نہیں معلوم ؛ لیکن ایک شخصیت نے اس کا جو مطلب بیان کیا ہے ، وہ پسند آیا۔ اور وہی صحیح بھی معلوم ہوتا ہے ؛ اس لیے میں مزید اس سلسلے میں بحث و تحقیق میں نہیں پڑنا چاہتا ، اور اسی شخصیت کی رائے یا تحقیق کو پیش کرتا ہوں۔ مذکورہ شخصیت سے میری مراد ہے مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی ذات گرامی۔ مولانا مرحوم نے اہل عرب کو کلام اقبال اور پیام اقبال سے روشناس کرانے کے لیے عربی میں ’روائع اقبال‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی ، جس میں اقبال کے چیدہ و چنیدہ کچھ اردو و فارسی اشعار اکٹھے کر کے اہل عرب کے سامنے پیش کیے تھے۔ بعد کو ’نقوشِ اقبال‘ کے نام سے شمس تبریز خاں (سابق استاذ دارالعلوم ندوۃ العلما لکھنو) نے اردو میں اس کا ترجمہ کیا ، اور اب وہ ہر جگہ دست یاب ہے۔ اسی ’نقوش اقبال‘ میں مولانا نے پیش نظر شعر کو ذکر کرنے سے پہلے اقبال کے ایک اصول کو بیان کیا ہے کہ : ’اقبال جہاں مدرسہ اور طالب علم کے جرم کا ذکر کرتے ہیں ، وہاں اس سے مراد مغربی مدارس اور اس کے طلبہ ہی ہوتے ہیں‘۔ (ص : 85) مزید لکھا ہے کہ : ’وہ [اقبال] مدرسہ و خانقاہ [مغربی] دونوں سے بیزار نظر آتے ہیں ، جہاں نہ زندگی کی چہل پہل ہے ، نہ محبت کا جوش و خروش ، نہ حکمت و بصیرت ہے نہ فکر و نظر‘۔(حوالہ سابق) مولانا مرحوم کی اس رائے یا تحقیق سے معلوم ہوگیا کہ اقبال کی پیش نظر شعر سے وہ مراد نہیں ہے ، جو کچھ لوگ سمجھتے ہیں۔ نیز یہ بھی معلوم ہوگیا کہ :
گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لاالہ الااللہ
مدرسہ عقل کو آزاد تو کرتا ہے مگر
چھوڑ جاتا ہے خیالات کو بے ربط و نظام
مدرسے نے تری آنکھوں سے چھپایا جن کو
خلوتِ کوہ و بیاباں میں وہ اسرار ہیں فاش
مکتبوں میں کہیں رعنائی افکار بھی ہے ؟
خانقاہوں میں کہیں لذت اسرار بھی ہے ؟
شکایت ہے مجھے یارب خداوندان مکتب سے
سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاک بازی کا
یہ بتان عصر حاضر کہ بنے ہیں مدرسے میں
نہ ادائے کافرانہ نہ تراش آذرانہ
آہ مکتب کا جوان گرم خوں
ساحر افرنگ کا صید زبوں
جلوتیان مدرسہ کور نگاہ و مردہ ذوق
خلوتیان مے کدہ کم طلب و تہی کدو
جیسے اشعار میں بھی ’مدرسہ‘ و ’مکتب‘ سے مراد دینی مدارس و مکاتب نہیں ہیں۔
ان سب کے باوجود بھی اگر کوئی کہتا ہے کہ اقبال کی مراد دینی مدارس و مکاتب ہی ہیں ، تو سوال ہے کہ اقبال کے اس شعر :
مدرسہ عقل کو آزاد تو کرتا ہے مگر
چھوڑ جاتا ہے خیالات کو بے ربط و نظام
کا کیا مطلب ہے ؟ دینی مدارس و مکاتب میں کب سے عقل کو آزاد چھوڑا جانے لگا ؟ یہاں تو عقل کو ثانوی درجے میں رکھ کر نقل سے کام لیا جاتا ہے۔ پھر عقل کو آزاد چھوڑنے کا کیا مطلب ہوا ؟ اسی طرح دوسرے مصرع کا مطلب بھی بتایا جائے!
دوسری بات یہ ہے کہ اگر بالفرض اقبال کی مراد دینی مدارس و مکاتب ہی ہیں ، تو کیا ہمارے عصری ادارے و تعلیم گاہیں اقبال کی نظروں سے اوجھل رہے ؟ اور اقبال نے ان پر کوئی تنقید نہ کی ؟ اگر واقعی اقبال نے اس نوع کے اداروں پر کوئی تنقید نہ کی ہو ، اور وہ اس کے مداح اور ستائش گر رہے ہوں ، تو کلام اقبال یا تحریر ہائے اقبال سے اس کا ثبوت پیش کیا جائے———مجھے تو لگتا ہے کہ دینی مدارس و مکاتب کے مقابلے میں ہمارے یہ عصری ادارے ان اشعارِ اقبال کے زیادہ سچے مصداق ہیں۔ عصری تعلیم گاہوں اور جدید تعلیمی اداروں کی کیا حالت ہے ، یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ میں اس سلسلے میں مزید کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ وہاں پڑھنے پڑھانے والوں کو دیکھ لیا جائے۔
تیسری بات یہ ہے کہ ممکن ہے کہ بعض جگہ اقبال کی مراد ہمارے دینی مدارس و مکاتب ہوں ، اور بعض جگہ مغربی ادارہ ہائے تعلیم اور بعض جگہ یہ ہمارے مشرقی عصری تعلیمی ادارے اور جدید تعلیم گاہیں۔ لہذا ہر کوئی اپنا اپنا احتساب کرے!
چوتھی بات یہ ہے کہ اگر واقعی اقبال نے جن خامیوں پر تنقید کی ہے ، وہ خامیاں دینی مدارس و مکاتب میں پائی جاتی ہوں ، تو ارادی طور پر نہ سہی ، غیر ارادی طور پر ہی اقبال کے کلام ان سے متوجہ ہیں ؛ لہذا اصلاح کی فکر ضروری ہے۔
پانچویں اور آخری بات یہ ہے کہ اقبال کے کلام تنقید سے بالا تر نہیں۔ وہ انسان تھے ، فکر و نظر ، تدبر و تفکر اور تجربے و مشاہدے میں ان سے غلطی کا امکان ہے ؛ لہذا ان کے بعض نتیجہ ہائے فکر و نظر ، حاصل ہائے تدبر و تفکر اور خلاصہ ہائے تجربات و مشاہدات خلافِ واقعہ اور نا درست ہو سکتے ہیں ؛ لہذا اقبال کا ہر ہر نظریہ بلا چوں و چرا تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔
تحریر: خالد سیف اللہ صدیقی
(24/10/2024)