ارریہ کے موجودہ ممبر پارلیمنٹ کے نفرت انگیز بیان پر مسلم رہنما، حکمت عملی اور دانشمندی کے ساتھ آگے بڑھیں!

اس وقت مسلمانان ہند تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہے ہیں،
موجودہ حالات ہر ذی شعور انسان کے لئے لمحہ فکریہ ہیں، امت مسلمہ آزمائشوں کے ایسے عجیب و غریب دور پر کھڑی ہے، داخلی اور خارجی فتنے امت مسلمہ کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں،
ہمارا ملک ہندوستان جہاں مختلف مذاہب کے لوگ صدیوں سے مل جل کر رہتے آئے ہیں، اس ملک کو گنگا جمنی تہذیب و تمدن سے جانا پہچانا جاتا ہے،
ریاست بہار کا ایک معروف ضلع ارریہ ہے، یہاں کے باشندے ہمیشہ سے آپس میں مل جل کر رہتے ہیں، اور ایک دوسرے کی خوشی اور دکھ و درد میں شامل ہوتے رہے ہیں،
اس علاقےکی خصوصیات رہی ہیں کہ ملک کے دیگر حصوں کی طرح کبھی بھی ایک دوسرے کے مذہبی معاملات میں چھیڑ چھاڑ و مداخلت کی نوبت نہیں آئی، اور نہ ہی فتنے اور فساد کی آگ یہاں کی بے مثالی بھائی چارگی اور گنگا جمنی تہذیب و تمدن کے علمبردار کو کوئی نقصان پہنچایا ہے،
لیکن افسوس صد افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے،کہ اسی ارریہ میں آج مٹھی بھر لوگ نفرت انگیز بیانات دے رہے ہیں۔جو اس علاقے کی بھائی چارگی اور امن و آشتی کو متاثر کرنے کی منظم سازش ہے۔
ان دنوں ارریہ کے موجودہ ممبر پارلیمنٹ اپنے کئی متنازعہ بیان دینے کی وجہ سے سرخیوں میں ہیں، اس نفرت انگیز بیان کی وجہ سے وہاں کے مسلمان اور سیکولر مزاج لوگ سخت دکھی ہیں،اس متنازعہ تبصرہ کی وجہ سےپورے ملک میں بالخصوص ارریہ میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ہے، اور ارریہ میں مختلف طریقے سے اپنے جذبات کا اظہار کررہے ہیں، اور معافی کا مطالبہ کر رہے ہیں اور کڑی سے کڑی کاروائی اور سزا کی مانگ کررہے ہیں، کرنا بھی چاہیے تاکہ اس طرح کے بیان آئندہ کوئی دینےکی ہمت نہ کرسکے، لیکن اس میں صبر حکمت عملی اور دانشمندی کا پہلو اختیار کیا جائے اور کوئی بھی قدم ،ایسا نہ اٹھایاجاۓ جس سےبعد میں نقصان اٹھانا پڑے،میں اپیل کررہا ہوں ارریہ کے ذ شعور لوگوں سے کہ اس پر کڑی نگاہ رکھیں ،
اور ارریہ ضلع کے مسلم رہنما علماء کرام، دانشوران سیاسی اور سماجی شخصیات کو لے کر ایک وفد کے ہمراہ موجودہ ممبر پارلیمنٹ کے پاس جائیں اور ان کو باخبر کیاجائے کہ آپ کے اس متنازعہ بیان کی وجہ سے لوگوں میں کافی غم غصہ کی لہر دوڑ گئی ہے، یہ بیان نہ انسانیت کے اعتبار سے درست ہے اور نہ قانونی اعتبار سے صحیح ہے، اس لئے آپ اس بیان سے معافی مانگ لیجیے، نہیں تو ہم لوگ قانونی کارروائی کا مطالبہ کریں گے اور مختلف طریقوں سے عام پبلک کو لے کر مظاہرہ کرنے پر مجبور ہوں گے۔

تحریر: محمد ابوذر عین الحق مفتاحی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے