مولانا مفتی قیام الدین قاسمی بن مفتی اسماعیل قاسمی سیتامڑھی کے رہنے والے ہیں، عربی، اردو اور انگریزی زبان وادب میں اپنے معاصرین میں ممتاز ہیں، لکھتے بھی ہیں اور بولتے بھی خوب ہیں، دار العلوم دیو بند سے فضیلت، تکمیل ادب اور افتاء مدرسہ شاہی مرد آباد سے کیا ہے، انگلش لنگویج اینڈ لٹریچر کا ڈپلومہ کورس مرکز المعارف جوگیشوری ممبئی، حیدر آباد سے انگلش اوراردو میں ایم اے بھی کر لیا ہے، پروجیکٹ مینجمنٹ کے امتحان میں بھی کامیابی حاصل کرلی ہے، یہ کورس انہوں نے پروجکٹ مینجمنٹ انسٹی چیوٹ امریکہ (CAAM) سے کیا ہے، مطلب یہ کہ کافی پڑھے لکھے ہیں، نہ نرے عالم ہیں اور نہ نرے دانشور،دونوں کے آمیزہ سے آپ کے ذہن ودماغ میں جو ہیولیٰ بنے اس کا نام ہے مولانا قیام الدین، مزاج میں سیمابیت ہے، اس لیے اس کم عمری میں نصف درجن سے زائد اداروں کو اپنی خدمات دے چکے ہیں، اور کئی اداروں نے ایوارڈ واعزازات دے کر ان کی حوصلہ افزائی کی ہے، اردو وانگریزی میں مضمون نگاری اور مراسلہ نگاری ان کا محبوب مشغلہ ہے، اردو میں ایک سو پچاس سے زائد مضامین اور انگریزی اخبارات میں چھ سو سے زائد انگریزی مراسلے شائع ہو چکے ہیں، ان دنوں جامعہ رحمانی مونگیر میں شعبہ تحقیق سے وابستہ ہیں،انہیں مفکر ملت امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی کی سر پرستی اور رہنمائی پورے طور پر حاصل ہے، پروجیکٹ مینجمنٹ کا کورس حضرت کی ہی توجہ اور صرفہ سے مکمل ہو سکا ہے۔
مولاناقیام الدین قاسمی ایک زر خیز ذہن ودماغ کے مالک ہیں، ہر وقت سوچتے رہتے ہیں، لیکن فلسفیوں کی طرح ان کے چہرے پر کرختگی اور خشکی نہیں پائی جاتی، وجیہ چہرے پر مسکراہٹ سجی رہتی ہے، امت کی مجموعی ترقی کے لیے بھی ان کے ذہن میں ایک خاکہ ہے، جسے انہوں نے”مشن تقویت امت“ کا نام دیا ہے اور اسے تحریک شکل دینے کے لیے مسلسل کوشاں ہیں، ”امت کی مجموعی ترقی کا لائحہ عمل“ مشن تقویت امت کے خد وخال اور اس کے روپ ریکھا کو بیان کرنے کے لیے تصنیف کی گئی ہے، تین سو پچاس (350)صفحہ کی اس کتاب میں امت کی ترقی کا فارمولہ اور فیلڈ ورک، سماجی مسائل اور ایک صالح معاشرہ کی تشکیل قیادت، پاور، علماء، طلبہ اور اسکالر، ایک جامع نظام تعلیم کی تشکیل، سروے اور خاکے، تجربات اور فیلڈ ورک جیسے اہم عنوانات پر کھل کر سیر حاصل بحث مولانا نے کیا ہے، پوری کتاب سات ابواب پر مشتمل ہے، ہر باب کے ذیل میں متعدد ذیلی عناوین ہے، جس میں اس باب کے مالہ وما علیہ کو سمیٹنے اور سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔
کتاب کا آغاز انتساب سے ہوتا ہے، جو دماغ، دل اور آنسو کے نام ہے، یہ اجمال آپ کی سمجھ میں نہ آوے تو انتساب کی پوری عبارت پڑھ لیجئے، لکھتے ہیں ”ہر اس دماغ کے نام جو قوم مسلم کی ترقی کے لیے سوچ رہا اور پلان بنا رہا ہے، ہر اس دل کے نام جو امت کی تقویت کے لیے دھڑک رہا ہے، ہر اس آنسو کے نام جو ملت اسلامیہ کی خستہ حالی سے دل گرفتہ ہو کر بہہ رہا ہے۔ انتساب کے بعد فہرست مضامین ہے اور اس کے بعد حضرت مولانا سلمان بجنوری نقش بندی، حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، مولانا رضی الاسلام ندوی مدظلہم العالی کی تقریظات اور خود مصنف کا پیش لفظ ہے،ا ن بزرگوں نے اس کتاب کو مفید بتایا ہے، مولانا خالد سیف اللہ صاحب نے لکھا ہے کہ ”یہ ضروری نہیں کہ اس کتاب کے تمام مندرجات سے حرف بہ حرف اتفاق کیا جائے، لیکن یہ کتاب اس لائق ضرور ہے کہ اس کو ایک بار پڑھا جائے اور جو بات سمجھ میں آئے اس کو عمل کے سانچے میں ڈھالا جائے“۔ (صفحہ 19) حضرت مولانا سلمان بجنوری نے لکھا ہے کہ ”بہت ممکن ہے کہ اس کتاب کے تمام اجزاء لوگوں کی نظر میں مفید یا قابل عمل نہ ہوں، لیکن اس کتاب سے فکر ونظر کے بہت سے دریچے کھلیں گے“۔
کتاب کا ناشر مکتبہ مشن تقویت امت ہے، تین سو پچاس صفحات کی کتاب کی قیمت پانچ سوپچاس روپے زائد ہے، ہارڈبائنڈنگ کے بجائے کارڈ بورڈ کے ٹائٹل سے کام چلا لیا گیا ہے، ٹائٹل کے مندرجات کی سیٹنگ اور اندر کے صفحات میں فونٹ کے بڑے چھوٹے ہونے نے کتاب کی خوبصورتی کو متاثر کیا ہے، فونٹ برابر رکھ کر اس کی ضخامت کو کم کرنا بھی ممکن تھا، ملنے کے پتے دو ہیں، مکتبہ مشن تقویت امت ڈمرا، سیتامڑھی اور نظام الدین قاسمی عادل منزل نزد کمال شاہ مسجد دیو بند سہاررنپور، اس کے علاوہ آپ چاہیں تو فلپ کارٹ اور امیزون سے بھی اسے خرید سکتے ہیں۔ مولانا خود بھی مارکیٹنگ کرنا جانتے ہیں، اس لیے ممکن ہے ان سے رابطہ کرنے پر رعایتی قیمت پر مل جائے، مفت کی امید مت رکھیے گا، اس معاملہ میں مولانا ذرا سخت واقع ہو ئے ہیں۔
مفتی قیام الدین صاحب کی یہ کتاب فکری بھی ہے اور ملت کے لیے مفید بھی، اس خاکے کو زمین پر اتارنا ایک بڑا کام ہے، پہلے نظریاتی بحث ہوگی، دوسرا مرحلہ عملی رنگ وروپ دینے کا ہے اور پھر دھیرے دھیرے یہ تحریک اگر اس کا تجربہ مفید رہا تو تو برگ وبار لائے گا، ورنہ تحریکوں کے اٹھنے، پنپنے اور پھر ختم ہوجانے کی تاریخ قدیم ہے۔ اللہ کرے یہ تحریک امت کی مجموعی ترقی کا سبب بن جائے، میں نے بہت پہلے اسلامی کارکنوں کے لیے تربیتی گائیڈ کے نام سے ایک کتاب عراقی عالم ڈاکٹر شہام الطالب کی پڑھی تھی اور اس کا اردو ترجمہ میرے ہاتھ لگ گیا تھا،اس کتاب کے مطالعہ نے پرانے مطالعہ کی کئی پرتیں میرے سامنے کھول کر رکھ دیں اور اس کا حاصؒ مطالعہ تحت الشعور سے نکل کر میرے شعور ووجدان میں آبسا، مجھے یہ کتاب تربیتی گائیڈ کی طرح ہی فکری لگی۔ آج کل مفکر تو بہت ہیں، لیکن فکری کتابیں کم لکھی جا رہی ہیں، چند مضامین لکھ کر انہیں یک جا کر دیا جاتا ہے، کبھی تو مضامین بھی دوسروں کے ہوتے ہیں اور انہیں ترتیب وتالیف کے نام سے اپنے نام کر لیا جاتا ہے، یہ کتاب بھی اصلاً مضامین ہی کا مجموعہ ہے، جو الگ الگ موقعوں سے لکھا گیاہے، یہ سارے مضامین مفتی صاحب کے اپنے ہیں، ایک خاص ترتیب اور سلیقہ نے اس میں کتاب کا رنگ وآہنگ پید اکر دیا ہے۔
کتاب کی زبان عام فہم ہے، البتہ بعض ابواب میں انگریزی الفاظ کی کثرت سے قاری کا ذہن بوجھل ہوتا ہے، علمی مباحث میں بھی عام فہم متبادل الفاظ کا استعمال کیا جا سکتا ہے، بعض ابواب کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خیالات مصنف کے ذہن میں دوڑتے بھاگتے انگریزی میں آئے لیکن اس کو سائڈ کرکے اس کا ترجمہ اردو میں کر دیا گیا، میں اس کتاب کی تصنیف پر مصنف کو مبارکباد دیتا ہوں اور ان کے روشن مستقبل اور تحریک کی کامیابی کی دعا پر اس تبصرہ کا اختتام کرتا ہوں۔
تبصرہ: (مفتی) محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ