مال و دولت کا شمار انسان کی بنیادی ضروریات میں ہوتا ہے جس سے نہ صرف انسان اپنی ضروریاتِ زندگی کو پورا کرتا ہے بلکہ بعض اہم عباداتیں جیسے زکوٰۃ، صدقہ، خیرات اور حج وغیرہ بجالانے کا بھی اسے زریں موقع بھی ملتا ہے ۔ اس حقیقت کے باوجود مال و دولت کا ایک تاریک پہلو یہ بھی ہے کہ جب زر و سیم میں بے تحاشہ اضافہ ہوجاتا ہے تو انسان نشۂ دولت میں اس قدرمست ہوجاتا ہے کہ اس کے عشرتکدوں کے سایہ میں مجبور و مقہور انسانیت سسکتی رہتی ہے جیسا کہ موجوودہ دور میں مسلم معاشرہ میں ہورہا ہے ایک طرف متمول حضرات اپنی دولت کی نمائش کرتے ہوئے عالی شان اور محل نما شادی خانو ںمیں تقاریب منعقد کررہے ہیں ، رقص و سرور کی محافل سجاکر محظوظ و لطف اندوز ہورہے ہیں تو دوسری طرف غریب و نادار لوگ تاریک جھونپڑیوںمیں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جو ایک وقت کی روٹی کے لیے بھی تڑپتے ہیں اور ان میں سے بعض لوگ تو ایسے بھی ہیں جو اپنے پیٹ کی بھوک مٹانے کے لیے جسم فروشی پر بھی آمادہ ہوجاتے ہیں۔ اس حقیقت سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ مال کی فراوانی اور مالی تنگدستی دونوں ہی صورتوں میں انسان گناہوں کے ارتکاب کی طرف بہ آسانی مائل ہوجاتا ہے۔ البتہ مالی تنگدستی کی بہ نسبت مالی فراوانی کے باعث انسان گناہوں کی طرف زیادہ مائل ہوتا ہے۔ اسی لیے قرآن مجید نے مال کو فتنہ قرار دیا ہے جو قتل سے زیادہ سنگین ہے چونکہ قتل کی تکلیف ایک مرتبہ ہوتی ہے اور اس کے منفی اثرات بھی محدود ہوتے لیکن فتنہ کی اذیت سے انسان کو ہر روز بلکہ ہر لمحہ گزرنا پڑتا ہے اور فتنہ انگیزی سے پورا انسانی معاشرہ متاثر ہوجاتا ہے۔ مسلم معاشرے میں پائی جانے والی بے شمار خرابیوں بالخصوص تعلیمی پسماندگی اور معاشی تنگدستی کی بنیادی طور پر دو وجوہات ہیں ایک قرض حسنہ کے عمل کا متروک ہوجانا جو سود جیسے بڑے گناہ سے مسلم معاشرے کو نجات دلانے میں انتہائی ممد و معاون ثابت ہوتا ہے اور دوسرے بعض مسلمانوں کا قدرت و طاقت رکھتے ہوئے قرض کی ادائیگی میں تساہل اور کوتاہی سے کام لینا جس کی وجہ سے لوگ قرض دینے سے گھبراتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ دین اسلام قرض حسنہ دینے کو مالی جہادسے تعبیر کرتا ہے۔ چونکہ جس طرح پرچم اسلام کی سربلندی کے لیے مجاہدین کی ضرورت پڑتی ہے اسی طرح محروم انسانوں کی حمایت اور عمومی منافع کے لیے اجتماعی طور پر مالی و مادی کمک کی ضرورت بھی پڑتی ہے۔ اگر متمول حضرات مالی جہاد کی نیت سے غریبوں، محتاجوں مسکینوں اور ضرورت مندوں کی حاجات و ضروریات پر خرچ کرتے ہوئے انہیں قرض حسنہ دینے اور قرض لینے والے وعدے کے مطابق پوری ایمانداری و دیانتداری کے ساتھ قرض ادا کرنے کوشش کریں تو مسلم معاشرہ سود اور سودی کاروبار کی لعنت سے پاک ہوجائے گا۔ علاوہ ازیں قرض حسنہ دینے سے مسلمانوں کی تعلیمی و معاشی پسماندگی کا ازالہ بڑی حد تک ممکن ہوجاتا ہے ۔ دین اسلام میں قرض کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرض کو صدقہ سے افضل قرار دیا گیا ہے ۔شب معراج میں شافع یوم النشورؐ نے باب جنت پر یہ تحریر ملاحظہ فرمائی کہ صدقہ کا اجر دس گونہ ہے اور قرض کا اٹھارہ گناہ۔ اس کی بنیادی وجہ بیان فرماتے ہوئے علمائے اعلام ارشاد فرماتے ہیں چونکہ صدقہ لینے والا سائل سوال کرتا ہے تو اس کے پاس کچھ ہوتا ہے اور قرض مانگنے والا بغیر حاجت کے قرض نہیں مانگتا۔ اسی لیے قرآن مجید اہل اسلام کو اخلاص اور خوش دلی کے ساتھ قرض حسنہ دینے کی ترغیب و شوق دلاتا ہے کہ اگر تم مفلوک الحال افراد کی مالی تنگدستی دور کرنے کے لیے قرض حسنہ دوگے تو غنی مطلق اللہ تعالی تمہارے انفاق کا کئی گناہ ثمرہ و معاوضہ دے گا ، بے شمار عطا کرے گا اور تم پر اپنی رحمت کے خزانوںکے منہ کھول دے گا۔ اس کے برعکس اگر متمول حضرات اپنی ثروت پر بے جا فخر کرتے رہ جائیں گے تو وہ بے شمار برائیوں کے مرتکب ہوکر اپنی دنیا و آخرت دونوں تباہ و برباد کرلیں گے۔ دنیا میں جتنے بھی ظالمین ، متکبرین اور سرکش افراد گزرے ہیں ان میں بیشتر متمول تھے جن کے فسق و فجور اور بداعمالیوں سے پوری انسانیت کو ٹھیس پہنچی ہے۔ فرعون دولت ِ فراواں اور سامان آسائش کے انبار ہی کی وجہ سے بددماغ ہوگیا تھا اور اس نے نہ صرف رشد و ہدایت کی راہ ترک کرکے گمراہی کے راستہ کو اپنالیا تھا بلکہ خدائی کا دعوی بھی کردیا تھا ۔ جب فرعونیوں کی کا کفر و عناد حد سے گزر گیا تو حضرت سیدنا موسیٰؑ بارگاہ ربوبیت میں عرض کی اے مولا موذی و معاند فرعون اور اس کے سرداروں کے اموال وزینت کو برباد و بے اثر کردے تاکہ وہ تیرے بندوں کو رشد و ہدایت کی راہ سے نہ بہکائیں اور نہ ہی ان کی روحوں میں غلامی و ذلت اور خوف و خشیت بھرسکیں۔ روایت آتا ہے کہ اس نفرین کے بعد فرعون اور اس کے ساتھی سخت اقتصادی بحران کا شکار ہوگیے یہاں تک کہ ان کے اموال راکھ میں تبدیل ہوکر بے وقعت ہوگیے۔ اس قصہ موسویہ سے ثابت ہوتا ہے کہ مال و ثروت کا صحیح استعمال نہ ہو تو انسان نہ صرف گمراہی کے دلدل میں دھنس جاتا ہے بلکہ بسا اوقات وہ کافر بھی بن جاتا ہے اور پوری انسانیت کے لیے بدنما داغ و نشان عبرت بن جاتا ہے۔اللہ تعالی اپنے بندوں کو مال و ثروت اس لیے عطا نہیں کرتا کہ وہ مغرور ہوکر پر تعیش زندگی گزاریں بلکہ مال و دولت کی فراوانی اس لیے عطا ہوتی ہے تاکہ ہم اس پر شکر ادا کرتے ہوئے آخرت کی عزت کا ذریعہ بنائیں۔ چونکہ موجودہ دور میں محلہ واری سطح سے لیکر عالمی سطح تک مسلمانوں کو صرف اس لیے نشانہ بنایا جارہا ہے کہ چونکہ وہ تعلیمی اور معاشی طور پر انتہائی کمزور ہوچکے ہیں ایسے عالم میں تمام مسلمانوں بالخصوص متمول حضرات کی مذہبی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے مال و دولت کی بے جا نمائش کرنے اور موقتی طور پر نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے بے دریغ پیسہ خرچ کرنے کے بجائے مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشی حالات کو مستحکم و مضبوط کرنے کے لیے قرض حسنہ کے عمل کو خوب فروغ دیں۔ ترکاری بیچنے والے، میوہ جات کا کاروبار کرنے والے، آٹو رکشا چلانے والے اور بھیک مانگنے والوں میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ کیا کسی بھی متمول مسلمانوں کی غیرت یہ گوارا کرے گی وہ مذکورہ بالا کاموں میں سے کوئی کام کریںتو جواب یقینا نفی میں ملے گا۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ جو کام ہم خود کے لیے پسند نہیں کرتے وہ اپنے مومن بھائی کے لیے پسند کریں جبکہ خادم رسولؐ حضرت سیدنا انس ؓ سے مروی ہے رسول اکرمؐ ارشاد فرماتے ہیں اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ اس حدیث پاک میں رسول مکرمؐ نے مسلمانوں کو اپنے تعلقات کو مستحکم کو منظم کرنے کی تعلیم عنایت فرمائی ہے تاکہ ایک دوسرے سے شناسائی رہے،باہمی رشتوں میں محبت کا جذبہ غالب رہے اور اسلامی معاشرہ ٹھوس بنیادوں پر تشکیل پائے۔ یہ ہدف اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا جب تک کہ ہر فرد دوسروں کے مفادات کا اتنا ہی خیال نہ رکھے جتنا کہ وہ اپنے مفادات کا رکھتا ہے۔ روایت میں آتا ہے کہ جو کسی مسلمان کی تکلیف کو دور کرتا ہے بروز قیامت اللہ تعالی اس کی پریشانی کو دور کردیگا ۔ بعض اوقات مالی تنگدستی کا شکار افراد بلاسودی قرض نہ ملنے کی صورت میں سود پر قرضہ لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور سود ادا نہ کرنے کی صورت میں خودکشی جیسے حرام فعل کا ارتکاب بھی کرجاتے ہیں۔ اگر متمول حضرات قرض حسنہ کے ذریعہ ایسے افراد کی مالی اعانت کریں گے مسلم معاشرے کو سود اور خودکشی کی لعنت سے بہ آسانی نجات مل جائے گی ۔ ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک کرنے سے نہ صرف امت مسلمہ میں اتحاد و اتفاق پیدا ہوگا بلکہ دوسروں کی خیر خواہی کے جذبے سے ایمان کو تقویت ملے گی اور وہ کامل ہوجائے گا جو دنیا و ما فیھا کی تمام نعائم سے بہتر ہے۔ اس لحاظ سے بھی متمول حضرات پر لازم ہے کہ تقاریب میں اسراف و فضول خرچی کرنے کے بجائے قرض حسنہ کے عمل کو فروغ دیں تاکہ ہر مسلمان تعلیمی و معاشی پسماندگی سے نجات پاکر عزت و وقار کے ساتھ زندگی گزار سکے۔ علاوہ ازیں اگر متمول حضرات فضول خرچی کے بجائے قرض حسنہ دینے کے عمل کو فروغ دیں گے تو انسانی معاشرے سے حسد، بغض،کینہ، فریب ، خود غرضی، لالچ جیسی مذموم صفات کا بڑی حد تک خاتمہ ہوجائے گا اور صالح معاشرہ تشکیل پائے گاجو کہ ہر مسلمان کی مذہبی ذمہ داری ہے۔ آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفی ﷺ ہمیں قرآن اور صاحبِ قرآنﷺ کی تعلیمات کے مزاج کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔
ازقلم: پروفیسر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری الملتانی
کامل الحدیث جامعہ نظامیہ ، M.A., M.Com (Osm)