مکہ مکرمہ کے بعض تاریخی اور قابل دید مقامات

گزشتہ سے پیوستہ

غار حراء ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حج اور عمرہ کرنے والے عموما اپنے اس مبارک سفر میں حج و عمرہ کے بعد یا اس کے دوران جن مقامات مقدسہ اور حرمین کے جن بعض تاریخی مقامات کی زیارت کرتے ہیں، ان میں ایک متبرک اور تاریخی مقام اور جگہ ،،غار حراء،، بھی ہے ۔ راقم الحروف کو بھی اپنے گروپ کے لوگوں کے ساتھ اس پہاڑ کے دامن تک جانے اور دور سے ہی اس کی زیارت کرنے کا موقع ملا ، ہمارے ساتھ بس میں ایک گائڈ بھی تھا ،جن کا تعلق پڑوس ملک سے تھا ، وہ صاحب لوگوں کو اس کی تاریخی حیثیت اور اس پہاڑ کے بارے میں معلومات بھی فراہم کر رہے تھے ، لیکن عقیدتا وہ ایک خاص مکتبئہ فکر کے لگ رہ تھے، اس لیے بعض جگہ مبالغہ اور غلو بھی کر رہے تھے ،ہمارے بعض ساتھیوں نے ان کو بعض جگہ ایسا کرنے سے اور اس طرح کی بے سند باتیں کرنے سے منع بھی کیا ۔ بہر حال غار حراء اس کی نسبت اونچی ہے اس کا تعلق اور اس کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے براہ راست ہے ۔
مکہ معظمہ سے تقریباً تین میل کے فاصلے پر منیٰ کے راستے پر بائیں جانب جبل نور واقع ہے ۔یہ تقریباً دو ہزار فٹ بلند ہے ، اس کی چوٹی پر وہ مقدس غار واقع ہے ،جو غار حراء کے نام سے موسوم ہے اور تاریخ اسلام میں اس کی ایک خاص اہمیت اور خاص تذکرہ ہے ۔ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق تمام کتابوں میں اس پہاڑ کا ذکر بطور خاص ملتا ہے ۔
ہدایت الہی کا نور یہیں سے چار دانگ عالم میں پھیلا ،جس کی ضوء فشانی سے تاریکیاں دور ہوئیں اور عالم انسانیت بقع نور بنا ۔کائنات کے سربستہ راز بھی اسی غار میں جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پر منکشف ہوئے ۔یہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم منصب رسالت پر فائز ہوئے ۔ جبل نور کی چڑھائی جبل ثور سے کم اور آسان ہے ۔غار میں بیک وقت صرف ایک آدمی لیٹ سکتا ہے ۔اس مختصر سے غار کا طول چار گز اور عرض پونے دو گز ہے ، یہ نیچے کی جانب زیادہ گہرا نہیں ہے ۔
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عمر عزیز کے اکتالسویں برس میں داخل ہوئے تو آپ تنہائی پسند ہوگئے ۔آپ کا زیادہ تر وقت غار حراء میں یاد الٰہی اور غور و فکر میں گزرتا، اپنے ساتھ توشہ اور زاد راہ لے لیتے اور کئی کئی شب غار حراء میں رہ کر عبادت کرتے ۔یہیں ماہ رمضان المبارک کی ایک مقدس شب کو قرآن مجید کی ابتدائی آیات وحی کے ذریعہ آپ کے قلب اطہر پر نازل ہوئیں ۔ پہلی
آیت اقرآ کے نزول کی تفصیلات،شان نزول، آیت کی جامعیت، اور پس منظر سے آپ سب واقف ہیں۔
اس لیے اس کی تفصیلات کو ہم ترک کرتے ہیں

مسجد جن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسجد جن” مکہ مکرمہ میں واقع ایک تاریخی اور اہم مقام ہے۔ یہ مسجد اُس جگہ کو یادگار بناتی ہے، جہاں حضور اکرم ﷺ نے جنات کے ایک گروہ کو اسلام کی دعوت دی۔ روایات کے مطابق، جب حضور ﷺ وادیٔ نخلہ میں قرآن کی تلاوت کر رہے تھے، تو جنات کے ایک گروہ نے اُس تلاوت کو سنا اور ایمان لے آئے۔ اس واقعے کے بعد، اللہ تعالیٰ نے سورہ جن نازل فرمائی، جس میں ان جنات کا ذکر ہے۔
مسجد جن مکہ مکرمہ کے قریب واقع ہے اور اس کو دیکھنے کے لیے مسلمان دنیا بھر سے آتے ہیں۔ اس کا مقام اور تاریخی اہمیت مسلمانوں کے لیے ایک خاص روحانی حیثیت رکھتی ہے، کیونکہ یہ حضور ﷺ کے معجزات اور پیغام کے پھیلاؤ کی علامت سمجھی جاتی ہے۔
حرم شریف سے نکل کر محلہ شعب عامر کی طرف آئیں تو سرخی مائل ٹائلوں سے بنی دو سڑکوں کے بیچ میں یہ مسجد ہے ۔جو محلہ شعب عامر و محلہ سلیمانیہ کے درمیان شاہ راہ پر واقع ہے ۔
قرآن مجید میں سورہ جن میں ہے۔ ،، اے نبی ! کہو میری طرف وحی بھیجی گئی ہے کہ جنوں کے ایک گروہ نے غور سے سنا پھر جاکر اپنی قوم کے لوگوں سے کہا ۔
ہم نے ایک بڑا ہی عجیب قرآن سنا ہے جو راہ راست کی طرف رہنمائی کرتا ہے اس لیے ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں اور اب ہم ہرگز اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے ۔۔
بخآری اور ومسلم شریف میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ عکاظ بازار تشریف لے جارہے تھے ۔راستے میں محلہ نخلہ کے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھائی ۔اس وقت جنوں کا ایک گروہ گزر رہا تھا ۔تلاوت کی آواز سن کر ٹھر گیا اور غور سے قرآن سنتا رہا ،یہ نبوت کے ابتدائی کا واقعہ ہے ۔۔۔

مقبرہ شبیکہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مقبرة شُبَيكَة مکہ مکرمہ میں ایک تاریخی قبرستان ہے، جو مسجد الحرام کے قریب واقع تھا۔ یہ مقام اسلامی تاریخ میں اس لیے بھی معروف ہے کہ یہاں ابتدائی دور کے کئی مسلمان صحابہ، تابعین اور اہلِ بیت کے افراد مدفون تھے۔ مقبرة شُبَيكَة ان عظیم ہستیوں کی آخری آرام گاہ رہی جو اسلامی تاریخ میں اہم کردار ادا کرتے رہے۔
موجودہ دور میں، ترقیاتی منصوبوں اور مسجد الحرام کی توسیع کے باعث یہ قبرستان دیگر مقامات میں شامل ہو گیا ہے اور اس کا نشان باقی نہیں رہا۔ تاہم، اسلامی تاریخ میں اس قبرستان کی اہمیت اور تقدس برقرار ہے اور اسے اسلامی ورثے کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ زمین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کی ملکیت تھی ،انہوں نے اپنی یہ زمین مسلمانوں کو قبرستان کے لیے دے دی اور جیسا کہ بتایا گیا اس زمین میں کئی عظیم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین دفن ہیں ۔ان میں حضرت یاسر رض حضرت سمیہ رض جیسی ہستیاں دفن ہیں ۔یہ قبرستان بڑی زیارتوں میں سے ایک ہے اول تو یہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کی زمین ہے اور دوم عظیم المرتبت ہستیاں مدفون ہیں ۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کا گھر

حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا کا گھر، جو "بيت خديجة” کے نام سے جانا جاتا ہے، مکہ مکرمہ میں ایک مقدس اور تاریخی مقام ہے۔ یہ وہی گھر ہے جہاں نبی اکرم ﷺ نے اپنی ازدواجی زندگی کا بڑا حصہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ گزارا۔ اسی گھر میں حضرت خدیجہ اور نبی اکرم ﷺ کی اولاد بھی پیدا ہوئی، جن میں حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا بھی شامل ہیں۔
یہ مقام اسلامی تاریخ میں اس لیے بھی اہم ہے کہ یہاں پر حضور ﷺ پر پہلی وحی نازل ہوئی، جس کے بعد آپ ﷺ کی نبوت کا آغاز ہوا۔ آج کل اس مقام کو مسجد الحرام کی توسیع میں شامل کیا گیا ہے، اور زائرین کے لیے یہ مخصوص جگہ پہچانی نہیں جا سکتی، مگر اس کی یاد آج بھی مسلمانوں کے دلوں میں زندہ ہے۔
یہ مقام مسلمانوں کے لیے محبت، وفاداری، اور اسلام کے ابتدائی دنوں کی قربانیوں کی علامت ہے اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی شخصیت کو خراجِ عقیدت پیش کرتا ہے۔
یہ وہ مکان ہے جہاں آپ کی عبادت کے لئے ایک کمرہ مخصوص تھا اور اس کمرے میں وحی نازل ہوتی تھی ۔یہ بڑے ادب کی جگہ ہے ۔ نصیب والے ہی یہاں پہنچتے ہیں ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا سے بے حد محبت کرتے تھے ،ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کے امت مسلمہ پر بے حد احسانات ہیں ۔ حرم شریف کے بعد یہ مکان سب سے محترم اور افضل مانا جاتا ہے ۔

مسجد نمرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسجد نمرہ سعودی عرب کے شہر مکہ مکرمہ کے قریب میدان عرفات میں واقع ایک تاریخی مسجد ہے۔ اس کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ یہاں نبی کریم ﷺ نے حجۃ الوداع (آخری حج) کے موقع پر اپنا مشہور خطبہ ارشاد فرمایا، جسے "خطبہ حجۃ الوداع” کہا جاتا ہے۔ یہ خطبہ اسلامی تعلیمات کا جامع خلاصہ ہے، جس میں اسلام کے اصول، انسانیت، مساوات، انصاف اور حقوق العباد پر زور دیا گیا۔
مسجد نمرہ ہر سال حج کے دوران خاص اہمیت اختیار کر لیتی ہے، کیونکہ نویں ذوالحجہ کو حجاج کرام یہاں ظہر اور عصر کی نمازیں ایک ساتھ ادا کرتے ہیں اور خطبہ سنتے ہیں، جسے امام مسجد نمرہ عرفات میں میدان میں موجود لاکھوں حاجیوں کے سامنے بیان کرتے ہیں۔
یہ مسجد ایک وسیع و عریض علاقے پر پھیلی ہوئی ہے اور جدید تعمیرات کے ساتھ اسے وسیع بنایا گیا ہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ حجاج یہاں جمع ہو سکیں۔ مسجد نمرہ، اسلام میں وحدت اور انسانیت کے بنیادی پیغام کی علامت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ حج کے رکنِ اعظم، یعنی وقوف عرفات کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتی ہے۔ امام و خطیب مسجد نمرہ کی اس بابرکت جگہ پر کھڑے ہوتے ہیں ،جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی تھی ۔۔اس کو مسجد ابراھیم بھی کہتے ہیں ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ قیام فرمایا تھا اور ظہر و عصر کی نماز اور خطبہ کے بعد آپ نے جبل رحمت کے قریب وقوف عرفات کا وقت پورا کیا یعنی زوال کے بعد سے غروب آفتاب تک ۔اس بابرکت جگہ پر دو رکعت نفل ادا کرنے کا اگر موقع ملے تو پڑھ لے ۔ ہم ساتھیوں نے برآمدے پر دورکعت نماز نفل ادا کی ،کیونکہ یہ مسجد حج کے علاؤہ عام دنوں میں بند رہتی ہے ۔

مسجد عائشہ/ مسجد تنعیم

مسجد عائشہ، جسے "مسجد التنعیم” بھی کہا جاتا ہے، مکہ مکرمہ میں واقع ایک اہم مسجد ہے۔ یہ مسجد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے نام سے منسوب ہے، کیونکہ یہاں سے انہوں نے احرام باندھا تھا، جب نبی کریم ﷺ نے انہیں عمرہ کی ادائیگی کے لیے اجازت دی تھی۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ سے حج کے ارادے سے نکلے ۔جب سرف میں پہنچے تو میں فطری ناپاکی کی حالت میں ہوگئی ۔میں اس غم میں رو رہی تھی کہ عمرہ کی سعادت سے محروم ہو جاؤں گی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ۔آپ نے فرمایا کیوں روتی ہو ،بھولی بھالی عورت! میں نے عرض کیا کہ کاش میں اس سال حج کو نہ آئی ہوتی ۔اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،، شاید تو قدرتی ناپاکی سے ہوگئی ہے ۔تو اس کا غم نہ کر آخر تو بھی تو آدم کی ایک بیٹی ہے ۔اللہ نے جو اس کی قسمت میں لکھا ہے تیرے لیے بھی لکھا ہے ۔ تو حج کرتی رہو ۔اللہ سے امید ہے کہ وہ عمرہ بھی تجھے نصیب کرے گا ۔ پھر ہم حج کے لیے نکلے جب میں عرفات سے منیٰ کو آئی تو اس وقت پاک ہوئی پھر ہم آپ کے ساتھ وادئی محصب آکر اترے ۔ اس وقت میرے بھائی عبد الرحمن کو بلایا اور فرمایا کہ اپنی بہن کو حد حرم سے باہر تنعیم لے جاؤ تاکہ وہ عمرے کا احرام باندھے ۔
مسجد عائشہ مکہ مکرمہ کے حدود سے باہر واقع ہے، اس لیے یہ ان لوگوں کے لیے خاص مقام رکھتی ہے جو مکہ میں موجود ہوتے ہوئے عمرہ کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں آکر حاجی یا معتمر احرام باندھتے ہیں اور پھر مسجد الحرام جا کر عمرہ ادا کرتے ہیں۔ یہ مسجد زائرین کے لیے سہولت فراہم کرتی ہے، کیونکہ مکہ مکرمہ میں مقیم افراد اس مقام پر جا کر میقات کی شرط پوری کر سکتے ہیں۔ ہم تمام ساتھی بھی اس مسجد کی زیارت کے لئے آئے اور ہم لوگوں نے بھی ایک عمرہ یہیں سے احرام باندھ کر پورا کیا ۔
مسجد عائشہ ایک خوبصورت اور وسیع مسجد ہے، جہاں ہزاروں زائرین ہر سال آتے ہیں۔ اس مسجد کو اسلامی تاریخ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی نسبت سے بھی اہمیت حاصل ہے، جو اسلام کے ابتدائی دور کی عظیم خواتین میں سے ایک تھیں اور نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ تھیں۔

مسجد بلال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسجد بلال بن رباح مدینہ منورہ میں واقع ایک مسجد ہے جو اسلام کے عظیم مؤذن حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ کے نام سے منسوب ہے۔ حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ اسلام کے ابتدائی دور میں اسلام قبول کرنے والے اولین افراد میں سے تھے اور ان کو اسلام کی راہ میں سخت تکالیف برداشت کرنی پڑیں۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو نبی کریم ﷺ نے مسجد نبوی کا پہلا مؤذن مقرر کیا تھا، اور انہوں نے اپنی زندگی میں اذان دینے کی سنت کو بڑی محبت اور جوش کے ساتھ نبھایا۔
یہ مسجد، جو حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے نام سے موسوم ہے، ان کی یاد میں ایک خراج تحسین کے طور پر قائم کی گئی ہے۔ مسلمانوں کے لیے یہ مقام ایک خاص روحانی اور تاریخی اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ یہ حضرت بلال کی بے مثال محبت اور خدمت کا نشان ہے۔
آج کل یہ مسجد زائرین کے لیے ایک پرکشش مقام ہے، جو حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی عظیم قربانیوں اور ان کی رسول اللہ ﷺ سے محبت کو یاد کرنے آتے ہیں۔ یہ مسجد اسلامی تاریخ میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی شخصیت اور ان کی اذان کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتی ہے۔

مسجد خیف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسجد خیف سعودی عرب کے شہر مکہ مکرمہ کے علاقے منیٰ میں واقع ہے اور اسلامی تاریخ میں ایک خاص مقام رکھتی ہے۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں کئی انبیاء نے عبادت کی اور دعائیں کیں۔ روایات کے مطابق، تقریباً 70 انبیاء علیہم السلام نے یہاں قیام کیا اور اللہ کی عبادت میں مصروف رہے۔ اس مسجد کو اسلامی تاریخ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ خاص نسبت ہے، کیونکہ آپ ﷺ نے بھی یہاں نماز ادا کی اور حج کے خطبے کے دوران کچھ وقت یہاں گزارا۔
حج کے ایام میں مسجد خیف کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے، خاص طور پر یوم الترویہ (حج کا پہلا دن) اور ایامِ تشریق کے دوران حجاج کرام یہاں نماز ادا کرتے ہیں۔ یہ مسجد بڑی وسیع ہے اور جدید تعمیرات کے ساتھ اسے بہتر بنایا گیا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ حجاج یہاں عبادت کر سکیں۔
مسجد خیف حج کے دوران لاکھوں مسلمانوں کے اجتماع کی علامت ہے اور انبیاء علیہم السلام کے نقشِ قدم پر چلنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ اس کی تاریخی اور روحانی اہمیت مسلمانوں کے دلوں میں خاص مقام رکھتی ہے۔ خیف پہاڑ کے دامن کو کہتے ہیں ۔یہ مسجد چونکہ پہاڑ کے نیچے ہے اس لیے اس مسجد کا نام مسجد خیف ہے ۔یہ منیٰ کی سب سے بڑی مسجد ہے ۔یہ وہ جگہ ہے جہاں آخری حج کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خیمہ لگایا گیا تھا اور آپ نے یہاں پانچ نمازیں ادا فرمائیں ۔

غار ثور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غار ثور سعودی عرب کے شہر مکہ کے جنوب میں واقع ایک پہاڑی غار ہے، جسے اسلام میں تاریخی اور روحانی اعتبار سے بہت اہم مقام حاصل ہے۔ ہجرت کے وقت حضرت محمد ﷺ اور آپ کے قریبی ساتھی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اس غار میں پناہ لی تاکہ قریش کے لوگوں سے محفوظ رہ سکیں، جو ان کا پیچھا کر رہے تھے۔
روایات کے مطابق، جب وہ دونوں اس غار میں چھپے ہوئے تھے، تو اللہ کے حکم سے ایک مکڑی نے غار کے دہانے پر جالا بُن دیا اور ایک کبوتری نے وہاں انڈے دے دیے۔ ان قدرتی نشانیوں کی وجہ سے قریش کو لگا کہ غار میں کوئی داخل نہیں ہوا، اور اس طرح وہ وہاں سے آگے بڑھ گئے۔ اس معجزے نے حضرت محمد ﷺ اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو دشمنوں سے محفوظ رکھا۔
یہ واقعہ سیرت النبی ﷺ کا حصہ ہے اور ہمیں ایمان، اللہ پر بھروسہ، اور مشکلات کے وقت صبر و استقامت کا سبق دیتا ہے۔
جبل ثور نہایت بلند پرپیچ اور مشکل چڑھائی والا پہاڑ ہے ،یہاں پتھر بھی بکثرت ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں پاؤں زخمی ہوگئے تھے ۔ روایت میں آتا ہے کہ أپ صلی اللہ علیہ وسلم قدموں کے نشان چھپانے کے لیے پنجوں کے بل چلے تھے ۔ آپ کی یہ حالت دیکھ کر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو رہا نہ گیا اور انہوں نے آپ کو کندھے پر اٹھا لیا ۔ بتایا جاتا ہے کہ اس غار میں دو آدمیوں کے لیے لیٹنے کی جگہ ہے یا تین چار آدمی بیٹھ سکتے ہیں ۔ ہم لوگوں نے دور سے ہی اس مبارک اور بابرکت پہاڑ کی زیارت کی ۔ کیونکہ وہاں تک جانا ممکن نہیں تھا ۔

باقی کل کے پیغام میں ۔۔

تحریر: محمد قمر الزماں ندوی
استاذ/مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ 9506600725

  • اس سلسلے کی پہلی قسط پڑھیں!

One thought on “مکہ مکرمہ کے بعض تاریخی اور قابل دید مقامات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے