مکہ مکرمہ کے بعض تاریخی، قابل دید مقامات اور دو بڑے جامعات

گزشتہ سے پیوستہ

مسجد جعرانہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسجد جِعرانہ سعودی عرب کے شہر مکہ کے قریب ایک تاریخی مسجد ہے۔ یہ مقام اسلامی تاریخ میں اہمیت رکھتا ہے کیونکہ یہاں حضور نبی اکرم ﷺ نے عمرہ کی ادائیگی سے پہلے احرام باندھا تھا۔ یہ مسجد ان زائرین کے لیے ایک اہم مقام ہے، جو مکہ مکرمہ کے قریب یا اس علاقے سے عمرہ کے لیے روانہ ہوتے ہیں۔ اگر کوئی یہاں سے عمرہ کا احرام باندھنا چاہے تو اسے مستحب سمجھا جاتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری حج حجتہ الوداع کے لیے اسی جگہ سے احرام باندھا ۔ مکہ مکرمہ سے مدینہ کی جانب یہاں سے حد شروع ہوتی ہے ۔اس لیے یہ ایک تاریخی مقام ہے ۔اس مقام پر آکر احرام باندھنے کو عام اصطلاح میں بڑا عمرہ اور تنعیم سے احرام باندھ کر عمرہ کے لیے حرم شریف کی طرف آنے کو چھوٹا عمرہ لانا کہتے ہیں ۔جعرانہ کا مقام چونکہ حرم شریف سے تنعیم کے مقابلے میں زیادہ دور ہے ،اس لیے اس مسافت کے لحاظ سے بڑا اور چھوٹا عمرہ لانے کا نام رکھ دئے گئے ہیں ۔حقیقت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔اور عمرہ کے اجر و ثواب میں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔جعرانہ کے مقام پر ایک کنواں ہے ۔ دور دور سے لوگ اس کنویں کا پانی حاصل کرنے آتے تھے ۔یہاں عمرہ کرنے والوں کی بھیڑ لگی رہتی ہے درجنوں گاڑیاں یہاں ہر وقت لگی رہتی ہیں ۔ ہم لوگوں نے اس کنویں کا ذرا دور اور فاصلہ سے ہی مشاہدہ کیا ،اس کنویں کے پانی کے بارے میں آتا ہے کہ اسے مسلسل پینے سے پتھری نکال دیتا ہے اور گردوں کی صفائی کر دیتا ہے ۔ ہمیں اطلاع ملی کہ انتظامی امور کی وجہ سے ابھی یہ بند ہے ۔ ہم تمام گروپ کے لوگوں نے یہاں سے بھی احرام باندھا اور حرم جاکر عمرہ کے ارکان پورے کئے ۔

مسجد کوثر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسجد کوثر کا نام "کوثر” سے لیا گیا ہے، جو قرآن مجید کی سورۃ الکوثر سے ماخوذ ہے۔ الکوثر کا مطلب بے انتہا نعمت اور برکت ہے، اور اسلامی روایات میں کوثر جنت کی ایک نہر یا حوض کو بھی کہا جاتا ہے جو حضور نبی اکرم ﷺ کو عطا کیا گیا ہے۔
بہت سی مساجد کوثر کے نام سے مختلف اسلامی ممالک میں موجود ہیں، اور ان کا مقصد اللہ تعالیٰ کی اس عظیم نعمت کو یاد دلانا اور حضور ﷺ سے محبت اور عقیدت کا اظہار کرنا ہے۔ ان مساجد میں عموماً عبادات، نماز اور دینی تعلیمات کے ذریعے مسلمانوں کو دین کے قریب لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حج کے موقع پر منیٰ پر آنے جانے کے راستے میں جمرئہ وسطیٰ یعنی درمیانی شیطان کے قریب ایک چھوٹی سی مسجد ہے ۔اس جگہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سورہ کوثر نازل ہوئی ،اسی کی یاد گار یہ مسجد ہے ۔ فضیلت والی جگہ پر ایک زیارت عظیم ہے ۔ اس سورہ کے نزول کا ایک خاص پس منظر اور شان نزول ہے، جس کے لیے اس سورہ کی تفسیر ملاحظہ کریں بہت سے حقائق سامنے آئیں گے اور کفر و باطل کے بہت سے غلط دعووں اور غلط فہموں کا ازالہ بھی ہوگا۔۔

بیت ابوبکر رض/ مسجد ابوبکر رض۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا گھر مکہ مکرمہ میں واقع تھا اور اسلامی تاریخ میں اسے خاص اہمیت حاصل ہے۔ یہ گھر کعبہ شریف کے قریب واقع تھا اور یہیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا اور پھر اسلام کی دعوت میں نبی اکرم ﷺ کا بھرپور ساتھ دیا۔
اسی گھر میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے خاندان نے اسلام کی ابتدائی سختیوں کا سامنا کیا اور یہیں سے انہوں نے ہجرت کا سفر بھی شروع کیا۔ جب نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدینہ منورہ ہجرت کرنے کا حکم ہوا، تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے ساتھ شریک ہوئے اور دونوں نے غار ثور میں کچھ وقت قیام کیا۔
محلہ مسفلہ میں زقاق صواغین نامی ایک گلی تھی ،جہاں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا گھر تھا ،اب اس کو حرم کی توسیع میں شامل کرلیا گیا ہے، الحمد للّٰہ اس مسجد میں حرم کی جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا موقع ملا ،کیونکہ اس جگہ اب مسجد ابوبکر صدیق ہے ۔یہی وہ مکان ہے جس کے دروازے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آدھی رات کے بعد دستک دی اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہمیشہ کے لیے مدینہ منورہ کی جانب روانہ ہوگئے ۔وہ رات تاریخی رات تھی ۔ہجرت کے وقت چلتے چلتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خانئہ کعبہ کی طرف دیکھا اور کہا اے مکہ شہروں میں تو مجھے بہت پسند اور سب سے زیادہ عزیز ہے ،مگر کیا کروں تیرے مکیں مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے اور پھر غار ثور کی طرف چل پڑے ۔ آگے کی تفصیلات سیرت کی کتابوں میں پڑھ سکتے ہیں ۔

دار ارقم بن ارقم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دار ارقم یا ارقم بن ابی ارقم کا گھر وہ پہلی جگہ تھی جہاں نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے صحابہ مکہ میں ابتدائی دنوں میں خفیہ طور پر جمع ہوتے تھے۔ یہ مقام صحابہ کرام کو تعلیم دینے، قرآن پڑھنے اور اسلامی دعوت پھیلانے کا مرکز تھا، جہاں قریش کی نظروں سے دور رہ کر دعوت دی جاتی تھی۔
آج کے دور میں، "دار ارقم” کے نام سے مختلف ممالک میں تعلیمی یا دینی ادارے قائم ہیں، جہاں نوجوان مسلمانوں کو دینی تعلیم اور ثقافتی و دینی خدمات فراہم کی جاتی ہیں۔
دار ارقم کوہ صفا کی سمت بنے ہوئے دروازوں میں سے پہلے دروازے کے سامنے ہے ،سعی کرتے ہوئے ایک دروازے پر لکھا ہوا ہے دار ارقم ۔یہ مکان ارقم بن ارقم مخزومی کا تھا ۔ ابتداء اسلام میں یہ جگہ اور گھر آپ کی دشمنوں کی نگاہوں اور ان کی سازشوں کی پارلیمنٹ دار الندوہ سے دور اور بالکل الگ تھلگ واقع تھا ، اور اس کا محلہ وقوع بھی عجیب تھا، اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کے پانچویں سال اس مکان کو اپنی دعوت و تبلیغ اور مسلمانوں کے ساتھ اجتماع کا مرکز بنایا تھا ۔

وادی محسر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ وادی زیارت کی جگہ نہیں ہے ،وادی محسر سے گزرنے میں احتیاط اور معلومات کے لیے اس کچھ تفصیل یہاں ذکر کرتے ہیں ۔
وادیٔ محسر ایک وادی ہے، جو منیٰ اور مزدلفہ کے درمیان واقع ہے، اور اس کا تعلق اسلامی تاریخ سے جڑا ہوا ہے۔ اس وادی کو اس لیے اہمیت حاصل ہے کہ یہ وہی مقام ہے، جہاں قرآن کے مطابق اصحاب الفیل پر اللہ کا عذاب نازل ہوا تھا جب وہ خانہ کعبہ کو نقصان پہنچانے کے ارادے سے آئے تھے۔
حج کے دوران اس وادی سے گزرنے کے موقع پر حاجیوں کو مستحب ہے کہ وہ وہاں تیزی سے گزریں اور زیادہ توقف نہ کریں، تاکہ اس مقام پر نازل ہونے والے عذاب کی یاد میں اس جگہ کو تیزی سے عبور کر سکیں۔ وادی محصب میں وادی محسر اس جگہ کو کہا جاتا ہے ،جہاں مزدلفہ کا اختتام ہوتا ہے ،وہاں سے لے کر منیٰ کے آغاز تک یہ ایک وسیع میدان ہے ۔بس سے گزرتے ہوئے بطور عبرت ہم لوگوں نے اس مقام کو دیکھا اور جلدی سے گزر گئے ۔

مسجد مزدلفہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسجد مزدلفہ، جسے مسجد المشعر الحرام بھی کہا جاتا ہے، سعودی عرب میں مکہ مکرمہ کے قریب مزدلفہ کے مقام پر واقع ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں حجاج کرام حج کے دوران وقوف مزدلفہ کرتے ہیں، یعنی غروبِ آفتاب کے بعد مغرب اور عشاء کی نمازیں ایک ساتھ پڑھتے ہیں اور رات یہاں گزارتے ہیں۔
مزدلفہ میں قیام حج کے مناسک میں سے ہے، اور یہ مقام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی یادگار ہے۔ یہاں حجاج کنکریاں بھی جمع کرتے ہیں، جو بعد میں شیطان کو مارنے کے عمل میں منیٰ میں استعمال ہوتی ہیں۔ مسجد مزدلفہ کی توسیع اور جدید سہولیات کے بعد یہ مقام حاجیوں کے لیے آرام اور عبادت کا ایک بہترین مرکز بن چکا ہے۔

مسجد منیٰ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسجد منیٰ، جسے مسجد خیف بھی کہا جاتا ہے، مکہ مکرمہ کے قریب منیٰ میں واقع ہے۔ یہ مسجد اسلامی تاریخ میں ایک اہم مقام رکھتی ہے ،کیونکہ روایت کے مطابق یہاں کئی انبیاء نے عبادت کی، اور نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اپنے حج کے دوران یہاں قیام فرمایا اور نمازیں پڑھیں۔
حج کے ایام میں، خاص طور پر یوم الترویہ (آٹھ ذوالحجہ) اور ایام التشریق کے دوران، حجاج کرام منیٰ میں قیام کرتے ہیں اور اس مسجد میں نماز ادا کرتے ہیں۔ مسجد خیف کی وسعت اور تعمیرات نے اسے لاکھوں حجاج کے لیے ایک اہم عبادتی مقام بنا دیا ہے۔

مسجد استراحہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسجد استراحہ، سعودی عرب کے شہر مکہ مکرمہ کے قریب واقع ایک اہم عبادت گاہ ہے، جو منیٰ کے راستے میں واقع ہے۔ یہ مسجد خاص طور پر حجاج کرام کے لیے اہمیت رکھتی ہے، کیونکہ یہ مقام راستے میں آرام کرنے اور عبادت کرنے کے لیے ایک جگہ فراہم کرتا ہے۔
حج کے ایام میں، حجاج جب منیٰ کی طرف سفر کرتے ہیں، تو یہ مسجد ان کے لیے ایک استراحت گاہ کی حیثیت رکھتی ہے، جہاں وہ نماز ادا کر سکتے ہیں، آرام کر سکتے ہیں، اور اپنے سفر کی تیاری کر سکتے ہیں۔ مسجد استراحہ کی خوبصورتی اور اس کی مقامیت حجاج کے لیے ایک روحانی تجربہ فراہم کرتی ہے۔

مسجد الکبش ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسجد الکبش، سعودی عرب میں مکہ مکرمہ کے قریب واقع ہے اور یہ منیٰ کے مقام پر موجود ہے۔ اس مسجد کی اہمیت اس لیے ہے کہ یہ مقام وہ جگہ ہے جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کی تیاری کی تھی، اور جہاں اللہ تعالی نے ایک دنبہ بھیجا تھا، جسے حضرت ابراہیم نے قربان کیا۔
یہ مسجد حجاج کرام کے لیے ایک اہم عبادت گاہ ہے، خاص طور پر ایام حج میں، جب حجاج یہاں آکر نماز ادا کرتے ہیں اور اس مقام کی روحانی اہمیت کو محسوس کرتے ہیں۔ مسجد الکبش ایک یادگار ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کی یاد دلاتی ہے اور اسلامی تاریخ میں اس مقام کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔ اس مسجد کی تعمیر بطور یادگار حضرت معاویہ رضہ اللہ عنہ نے کرائی تھی ۔

غار مرسلات ۔۔۔۔۔۔۔۔

غار مرسلات، جو کہ غار حرا کے قریب واقع ہے، اسلامی تاریخ میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ یہ غار مکہ مکرمہ کے قریب ہے اور اس کا نام قرآن کی سورۃ "المرسلات” سے منسوب ہے۔
غار مرسلات کی خاص اہمیت اس بات میں ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وحی نازل ہونے کے بعد اللہ کی طرف سے پہلی وحی ملی۔ یہ مقام روحانی اعتبار سے مسلمانوں کے لیے بہت معنی رکھتا ہے کیونکہ یہ وہاں کی یادگار ہے جہاں ایک نئے اور صحیح دین کی بنیاد رکھی گئی۔
یہ غار ایک تاریخی اور روحانی مرکز ہے، جہاں حجاج کرام اور زائرین اکثر آکر دعا اور عبادت کرتے ہیں، اور یہاں کی خاموشی اور سکون انہیں روحانی سکون فراہم کرتا ہے۔
مسجد خیف کی جنوبی سمت جبل صفائح کے دامن میں ایک چھوٹا سا غار ہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پہاڑ کے سائے میں آرام فرمایا تھا ۔آپ غار میں تشریف لے گئے تو سورہ مرسلات نازل ہوئی اس لیے یہ غار مرسلات کے نام سے مشہور ہے ۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم منیٰ میں ایک غار میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے تھے کہ اتنے میں سورہ مرسلات آپ پر اتری ۔ہم نے منھ سے سن کر اسے سیکھا اور یاد کیا ۔ سورہ مرسلات میں موضوع قیامت اور آخرت کا اثبات ہے اور اس کے منکرین کو خبر دار کرنا ہے ۔ یہاں اس غار میں سانپ بھی نکل آیا تھا ۔ جس کی تفصیل حدیث کی کتابوں میں موجود ہے ۔آپ نے فرمایا کہ اپنے کو بچا کر اسے مار دو ۔،ہم لوگ مارنے دوڑے وہ تیزی سے اپنے بل میں گھس گیا ۔آپ نے فرمایا چلو وہ تماری زد سے بچ گیا اور تم لوگ اس کی زد سے، اللہ کا شکر ادا کرو ۔۔

مسجد عقبہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسجد عقبی، جو کہ منیٰ کے قریب واقع ہے، ایک اہم تاریخی اور دینی مقام ہے۔ یہ مسجد اس مقام پر واقع ہے جہاں نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ پہلی بیعت عقبہ کی تھی۔ یہ بیعت 12 اور 13 نبوی (623-624 عیسوی) میں ہوئی، جب مدینہ کے 12 افراد نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کی اور اسلام قبول کیا۔
بیعت عقبہ کی یہ پہلی اور دوسری بیعت تھی، جو کہ اسلامی تاریخ میں اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس مقام کی اہمیت اس بات میں ہے کہ یہیں سے مدینہ میں اسلامی ریاست کے قیام کی بنیاد رکھی گئی۔
آج کل، مسجد عقبی زائرین اور حجاج کے لیے ایک اہم عبادت گاہ ہے، جہاں لوگ آکر نماز پڑھتے ہیں اور اس تاریخی مقام کی روحانی اہمیت کا ادراک کرتے ہیں۔ یہ مسجد ایک یادگار ہے جو اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ کس طرح ابتدائی مسلمان اپنی عقیدت کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کھڑے ہوئے۔

مسجد الرایہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسجد الرایہ، جو کہ منیٰ کے قریب واقع ہے، اسلامی تاریخ میں ایک اہم مقام رکھتی ہے۔ اس مسجد کا نام "رایہ” سے ہے، جس کا مطلب ہے "جھنڈا” یا "پرچم”۔ یہ مسجد اس مقام پر ہے جہاں نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوہ حنین کے دوران جھنڈا بلند کیا تھا، جو اسلامی افواج کی علامت تھی۔
یہ مسجد حجاج کرام کے لیے بھی ایک اہم عبادت گاہ ہے، جہاں وہ نماز ادا کرتے ہیں اور اس مقام کی روحانی اہمیت کا احساس کرتے ہیں۔ مسجد الرایہ اسلامی تاریخ میں ایک یادگار کے طور پر بھی اہم ہے کیونکہ یہ اس وقت کی یادگار ہے جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی قیادت میں مسلمانوں کو فتح عطا کی۔
مسجد الرایہ کے گرد و نواح میں حجاج کے لیے سہولیات فراہم کی گئی ہیں، اور یہ ایک مقدس جگہ ہے جہاں لوگ اپنی دعائیں کرتے ہیں اور اپنے ایمان کو مستحکم کرتے ہیں۔

بئیر ذی طویٰ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بئر ذی طوی ، سعودی عرب کے شہر مکہ مکرمہ میں واقع ایک مشہور کنواں ہے، جو اسلامی تاریخ میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ یہ کنواں خاص طور پر نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں معروف تھا اور اسے اسلامی دور میں ایک قیمتی پانی کے منبع کے طور پر جانا جاتا تھا۔
یہ کنواں اس لیے بھی معروف ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی کے ابتدائی ایام میں یہاں سے پانی لیا تھا۔ یہ مقام اسلامی تاریخ میں ایک یادگار کے طور پر موجود ہے، جہاں لوگ آج بھی آتے ہیں اور دعا و عبادت کرتے ہیں۔
بئر ذی طوی کا پانی مختلف مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، اور یہ مکہ مکرمہ کی پانی کی ضروریات میں ایک اہم کردار ادا کرتا تھا۔ آج کل، یہ جگہ زائرین کے لیے ایک تاریخی مقام ہے، جہاں وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے ابتدائی دور کی یاد تازہ کرتے ہیں۔

مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ

المدرسة الصولتية مکہ مکرمہ میں قائم ایک قدیم اسلامی مدرسہ ہے، جسے حجاز میں اسلامی تعلیمات کے فروغ میں اہم مقام حاصل ہے۔ اس مدرسے کی بنیاد 1290 ہجری (1874 عیسوی) میں رکھی گئی، اور اسے ہندوستان کی ایک نیک اور متقی خاتون، صولت النساء بیگم نے مالی تعاون فراہم کیا۔ انہی کے نام پر اسے "المدرسة الصولتية” کہا جاتا ہے۔ ان کا تعلق رامپور کے شاہی خاندان سے تھا، اور وہ اسلامی تعلیم کے فروغ کے لیے بےحد شغف رکھتی تھیں۔

قیام کا مقصد

المدرسة الصولتية کے قیام کا مقصد مکہ مکرمہ اور حجاز کے خطے میں اسلامی علوم کو عام کرنا تھا۔ اُس وقت حجاز میں اسلامی علوم کی تعلیم کے لئے اس نوعیت کے ادارے نہ ہونے کے برابر تھے۔ اس مدرسے نے قرآنی علوم، حدیث، فقہ، عربی زبان و ادب، اور دیگر اسلامی مضامین میں تخصص فراہم کیا۔

تاریخی پس منظر اور اہمیت

جب برطانوی راج نے ہندوستان میں مسلمانوں پر ظلم و ستم شروع کیا، تو اس سے مسلم تعلیمی ادارے بھی متاثر ہوئے۔ صولت النساء بیگم نے حجاز میں ایک ایسے ادارے کی ضرورت محسوس کی، جو اسلامی تعلیم کو پھیلائے اور اس میں استقامت پیدا کرے۔ ان کے مالی تعاون سے، مولانا رحمت اللہ کیرانوی، جو کہ ایک مشہور عالمِ دین تھے، نے مکہ مکرمہ میں اس مدرسے کی بنیاد رکھی۔

درسی نصاب

المدرسة الصولتية نے اپنے ابتدائی دور میں ہندوستان کے معروف درسی نصاب "درسِ نظامی” کو اپنایا۔ اس میں قرآن، حدیث، فقہ، صرف و نحو، بلاغت، منطق، فلسفہ، اور ادب جیسے اسلامی اور علمی علوم شامل تھے۔ مدرسے کا نصاب بعد میں تبدیل ہو کر جدید اور روایتی علوم کا امتزاج بن گیا۔

اساتذہ اور طلباء

المدرسة الصولتية نے عرب اور غیر عرب طلباء کو علم دینا شروع کیا، اور بہت سے علما، فقہا، اور محدثین نے یہاں سے تعلیم حاصل کی۔ اس ادارے کے اساتذہ کا شمار اعلیٰ درجے کے علماء میں ہوتا ہے، جنہوں نے اسلامی علوم کی خدمت کے لئے اپنی زندگیاں وقف کر رکھی تھیں۔ ان اساتذہ نے حرمین شریفین میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیے اور دنیا بھر میں اپنے شاگرد بھیجے۔

موجودہ دور میں کردار

حجازی اور عالمی سطح پر اسلامی تعلیمات کے فروغ میں صولتیہ مدرسہ آج بھی اپنی خدمات انجام دے رہا ہے۔ جدید دور میں، مدرسے نے اسلامی تعلیمات کے ساتھ ساتھ عصری علوم کو بھی اپنے نصاب میں شامل کیا ہے، تاکہ طلباء دین اور دنیا دونوں کے علوم میں مہارت حاصل کر سکیں۔

مدرسہ الصولتية کا اثر و رسوخ

المدرسة الصولتية کو اسلامی دنیا میں ایک معتبر تعلیمی ادارے کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس کے فارغ التحصیل علما نے مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور دنیا کے دیگر حصوں میں اہم تعلیمی اور تبلیغی کردار ادا کیا ہے۔

المدرسة الصولتية کی خدمات نے اسے اسلامی دنیا میں ایک خاص مقام دیا ہے، اور یہ آج بھی تعلیم و تربیت کے شعبے میں اسلامی ورثے کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔
پہلے یہ حرم سے قریب تھا ، بر صغیر کے اکابر علماء یہاں قیام کرتے تھے ۔ لیکن حرم کی توسیع کے پیش نظر اب اس کو حرم سے تقریباً آٹھ کلو میٹر دور دوسری جگہ منتقل کردیا گیا ہے ۔ اس مدرسہ کو دیکھنے کی بڑی خواہش تھی ،اس کا خوب چرچہ اور خدمات بچپن سے سن رکھا تھا ۔ لیکن وقت کی کمی اور رہبر نہ ملنے کی وجہ سے اس کی زیارت سے محروم رہا ۔

جامعہ ام القریٰ/ ام القریٰ یونیورسٹی

جامعہ ام القری (Umm Al-Qura University) سعودی عرب کے شہر مکہ مکرمہ میں واقع ایک ممتاز جامعہ ہے، جسے اسلامی تعلیمات، جدید علوم، اور تحقیق و تدریس کے میدان میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ یہ یونیورسٹی اسلام اور عربی ثقافت کے حوالے سے عالمی سطح پر جانی جاتی ہے، اور اس کا قیام 1981 عیسوی میں عمل میں آیا۔

قیام اور پس منظر

جامعہ ام القری کی ابتدا دار التوحید نامی ادارے سے ہوئی تھی، جسے 1949 عیسوی میں اسلامی تعلیمات کی ترویج کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ بعد میں، اس ادارے کو یونیورسٹی کی شکل دی گئی اور اس کا نام "جامعہ ام القری” رکھا گیا۔ مکہ مکرمہ کو اسلامی دنیا میں "ام القری” (بستیوں کی ماں) کہا جاتا ہے، اسی مناسبت سے یونیورسٹی کا نام "جامعہ ام القری” رکھا گیا۔

مقاصد

جامعہ ام القری کے قیام کا بنیادی مقصد اسلامی اور جدید تعلیم کے امتزاج کو فروغ دینا تھا۔ یہ یونیورسٹی قرآن و حدیث، فقہ، اور شریعت کے علاوہ سائنسی اور فنی تعلیم فراہم کرتی ہے، تاکہ طلباء کو دنیا اور دین دونوں میں مہارت حاصل ہو سکے۔ اس کا ایک اور مقصد حرمین شریفین کے قریب ایک اسلامی تحقیقی مرکز بنانا تھا، جہاں سے پوری دنیا کو اسلامی پیغام پہنچایا جا سکے۔

تعلیمی شعبہ جات

جامعہ ام القری میں مختلف شعبہ جات ہیں، جن میں اسلامی تعلیمات کے علاوہ جدید علوم جیسے طب، انجینئرنگ، کمپیوٹر سائنس، معیشت، اور قانون کے شعبے شامل ہیں۔ یونیورسٹی میں کچھ اہم شعبہ جات یہ ہیں:

  1. شعبہ قرآن و سنت: اسلامی تعلیمات اور قرآن و حدیث کے علوم میں تخصص فراہم کرتا ہے۔
  2. شعبہ شریعت و اسلامیات: اسلامی قانون اور فقہ میں اعلیٰ تعلیم دیتا ہے۔
  3. شعبہ طب: میڈیکل سائنس کے مختلف شعبہ جات میں تدریس اور تحقیق کی سہولت فراہم کرتا ہے۔
  4. شعبہ انجینئرنگ اور کمپیوٹر سائنس: جدید دور کی ضروریات کے مطابق انجینئرنگ، کمپیوٹر سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم دیتا ہے۔
  5. شعبہ عربی زبان و ادب: عربی زبان و ادب کو فروغ دینے کے لئے مخصوص کیا گیا ہے۔

تحقیق اور تدریس

جامعہ ام القری اسلامی اور عصری دونوں علوم میں تحقیق اور تدریس کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دے رہی ہے۔ یونیورسٹی میں اسلامی علوم کے ساتھ جدید سائنسی اور تکنیکی علوم کی تحقیق کے مراکز بھی قائم ہیں، جہاں مختلف قومی اور بین الاقوامی تحقیقی پروجیکٹس پر کام کیا جاتا ہے۔

بین الاقوامی اہمیت

جامعہ ام القری کا شمار سعودی عرب اور اسلامی دنیا کی مشہور جامعات میں ہوتا ہے۔ ہر سال دنیا بھر سے ہزاروں طلباء یہاں اسلامی اور عصری علوم حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں۔ اس کا حرمین شریفین کے قریب ہونے کا خصوصی امتیاز ہے، جو اسے مزید اہم بناتا ہے۔

موجودہ دور میں کردار

جامعہ ام القری نے جدید تعلیم کو اسلامی اقدار کے ساتھ مربوط کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ یہاں کے فارغ التحصیل طلباء پوری دنیا میں اسلامی اور جدید علوم کے فروغ میں مصروف ہیں۔ جامعہ کی کوشش ہے کہ عالمی معیار کے مطابق تعلیم فراہم کی جائے، تاکہ طلباء جدید دور کی ضروریات کے مطابق اسلامی اقدار کے حامل بن سکیں۔
جامعہ ام القری، علم و تحقیق کا ایک معتبر مرکز ہے جو اسلامی ثقافت کو جدید تعلیم کے ساتھ ملا کر عالمی سطح پر نمایاں کردار ادا کر رہی ہے۔

تحریر: محمد قمر الزماں ندوی
استاذ/ مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ 9506600725

اس سلسلے کی پہلی دو قسطیں یہاں پڑھیں!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے