ملک میں وقف ترمیمی قانون کے خلاف مسلمان اب بھی شدید مخالفت کررہے ہیں، جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی بھی ملک بھر کا دورہ کرتے ہوئے حکومتوں،تنظیموں کے علاوہ اہم شخصیات سے اپنی رائے طلب کررہی ہے، حالانکہ جے پی سی کے اس کام سے بہت زیادہ امیدیں تو وابسطہ نہیں ہے کہ وہ وقف ترمیمی بل کے تعلق سے جو مخالفت ہورہی ہے اس مخالفت کو نمایاں طور پر پیش کرے البتہ یہی کہاجاسکتاہے کہ "دل کو بہلانے کے لئے غالب خیال اچھا ہے”۔ مسلمانوں کی جانب سے بھی مسلسل کوشش ہورہی ہے کہ وقف ترمیمی بل کی مخالفت کی جائے اور کسی بھی حال میں اس قانون کو نافذ ہونے سے روکاجائے، یہی وجہ ہے کہ گذشتہ دنوں مسلم پرسنل لاء بورڈ اور مختلف تنظیموں کی قیادت میں مسلمانوں نے جے پی سی کو ای میل کرنے کا ریکارڈ قائم کیا، اس ای میل تحریک کے بعد جے پی سی کے رکن نے ان تمام ای میل کو مسترد کرنے کے لئے یہ کہہ کر آواز اٹھائی کہ تمام ای میل مصنوعی ذہانت یعنی AI کے ذریعے بھیجے گئے ہیں، حالانکہ ان ای میل کو پڑھنے یا اس پر غور کرنے کے لئے جے پی سی نے کوئی طریقہ بیان نہیں کیاہے نہ ہی ان ای میلس کو سنجیدگی سے لیاجائے گا اس کی بھی کوئی گیارنٹی ہے۔ ان ای میلس کی تحریک کو بھی یہی کہا جاسکتا ہے کہ دل کو بہلانے کے لئے غالب خیال اچھا ہے۔ اب ان حالات میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی جانب سے ایک اور قدم اٹھا یا جا رہا ہے وہ یہ کہ ملک کے اہم شہروں میں تحفظ اوقاف یا وقف قوانین کی مخالفت میں عظیم الشان جلسوں کا انعقاد کرتے ہوئے اپنی مخالفت درج کروائی جائے۔ اس طرح کے جلسوں کو منعقد کرتے ہوئے لاکھوں افراد کا اجتماع کیاجائے اور مرکزی حکومت کو مسلمانوں کی مخالفت کا ثبوت پیش کیاجائے۔ ماضی میں بھی مسلمانوں نے کئی جلسے اصلاح معاشرہ، اتحاد بین المذاہب، جنگ آزادی میں مسلمانوں کےکردار، طلاق ثلاثہ، کامن سیول کوڈ وغیرہ کےعنوانات پر منعقد کرچکے ہیں۔ ان تمام عظیم الشان اور کثیرالتعداد جلسوں کا حاصل یعنی رزلٹ نکالا جائے تو اسکافائدہ ایک یا دو فیصد ہی مثبت رہا ہے۔ اب وقف قانون کی مخالفت پر جو جلسے منعقد کئے جارہے ہیں اس کا بھی رزلٹ صفر ہی نکلے گا کیونکہ جو حکومت ان قوانین کو نافذ کرنے کے لئے بیٹھی ہے وہ کل پرسوں کی بچہ پارٹی نہیں بلکہ سو سال سے ذہنی طور پر تربیت یافتہ فکر والے سنگھ پریوار کی سیاسی جماعت ہے۔
اطلاعات کے مطابق کرناٹک میں بھی ایک جلسہ منعقد کیا جا رہا ہے جس میں 3 تا4 لاکھ افراد کو اکھٹا کرنے کی تیاری کی جارہی ہے اور اس میں ملک بھر سے مقررین اور شعلہ بیانوں کی آمد ہوگی ۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی میں اس طرح کے جلسوں سے سنگھ پریوار کی سچ اور عمل پر فرق پڑے گا؟. کیا کبھی سنگھ پریوار نے ایسے قوانین کے تعلق سے لوگوں میں بیداری لانے کے لئے جلسے منعقد کئے ہیں؟. ازادی کے بعد سے سنگھ پریوار یا بی جے پی نے گاؤکشی کی مخالفت میں بیداری لانے، حجاب، مسجدوں، اذان اور مدرسوں کے خلاف محاذ آراء ہونے کے لئے کتنے جلسے منعقد کئے ہیں؟۔ مسلمانوں نے گنگاجمنا تہذیب کی بقاء کے لئے سادھوؤں اور سنتھوں کو لے کر جو جلسے کئے ہیں اس کا اثرکتنا رہاہے؟۔ ان تمام سوالات کے بعد بھی اگر مسلمان وقف قوانین کی مخالفت میں جلسوں کا انعقاد کرتے ہیں تو یہ کارآمد نہیں سمجھاجائیگا۔ ماضی میں شاہ بانو کیس میں بھی اسی طرح کی غلطی کی گئی تھی، جلسوں کاانعقاد گرام پنچایت سے لے کر بڑے بڑے شہروں میں کیاگیاتھا، اگر مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ شاہ بانو کیس میں حکومت نے گھٹنے ان جلسوں کو دیکھ کر ٹیکے تھے تو یہ خیال غلط ہے کیونکہ اس وقت راجیو گاندھی نے ووٹوں کی مصلحت کو دیکھ کر مسلم پرسنل لاء کی تائید میں فیصلہ کیاتھا۔ اب بی جے پہ کو ان مسلمانوں کے ووٹوں کی ضرورت نہیں ہے جسکی وجہ سے وہ عظیم الشان جلسوں کو دیکھ کر گھبراجائیگی۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیاامت مسلمہ کی محنت کی کمائی کا بڑا حصّہ اس طرح کے جلسوں، پروگرام اور اجتماعوں پر جو خرچ کیاجارہاہے وہ کہاں تک درست ہے؟. حالانکہ کوئی بھی کام جان و مال کی قربانی کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا لیکن یہاں صرف عام لوگوں کے مال کو قربانی کے لئے استعمال ہورہاہے وہ بھی ایسے کام کے لئے جس سے فائدہ ہونے کی امید کم ہے ۔ البتہ کچھ لوگوں کا اس میں فائدہ ضرور ہوسکتاہے جس میں زادراہ والے مقررین، منتظمین ہیں۔ اب قوم کو جلسوں، اجتماعوں، مشاعروں سے دور کرتے ہوئے مستقبل کے لئے حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ جلسوں میں تقریریں کرتے ہوئے بھڑاس نکالنے کے لئے قوم کا وقت، جذبات اور پیسہ خرچ نہ کیاجائے۔
از قلم: مدثر احمد، شیموگہ