شخصیات کے سلسلے میں بھی اعتدال کی ضرورت ہے۔ اور اس میں مردہ و زندہ سب برابر ہیں۔ حضور (ﷺ) کا اپنے بارے میں فرمان ہے : لاتطرونی کما اطرت النصاری ابن مریم ، فانما انا عبدہ ، فقولوا عبداللہ و رسولہ.(صحیح البخاری ، حدیث : 3445)
یہ واقعہ ہے کہ ہم اپنے پسندیدہ لوگوں اور محبوب شخصیات کو حد سے بڑھا دیتے ہیں۔ ان کی تعریف میں حدود کی رعایت نہیں رکھتے۔ ان کو وہ وہ القابات دے دیتے ہیں ، جن کے وہ اہل نہیں ہوتے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ اس کے مختلف اسباب ہو سکتے ہیں۔ مثلاً : سطحیت ، جذباتیت ، قربت ، قرابت ، احساس کم تری ، احساس برتری ، عدم سنجیدگی اور شخصیت کے فکر و فن سے نامکمل واقفیت وغیرہ———اگر کسی کا یہ خیال ہو کہ شخصیات کی تعریف اور ان کے تعارف میں کسی حد اور ضابطے کی پاس داری ضروری نہیں ، تو وہ ایک غلط نظریے پر قائم ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ’دینِ اعتدال‘ جس طرح ہر چیز میں ہمیں اعتدال کی راہ دکھاتا ہے ، شخصیات کی تعریف و تلقیب میں بھی وہ ہمیں اعتدال کی روش پر قائم رکھنا چاہتا ہے۔ مذکورہ حدیث کی روشنی میں ہمیں یہ تعلیم ملتی ہے کہ ہمیں شخصیات کی تعریف میں حد اور اعتدال کو ملحوظ رکھنا چاہیے ، اور واقعیت کی بنیاد پر ہی تعریف و تلقیب کی عمارت قائم کرنی چاہیے۔
میں مذکورہ حدیث پر غور کرتا ہوں ، تو مجھے شخصیات کی تعریف اور ان کو القابات دینے کے سلسلے میں کسی حد تک مزاجِ نبوی کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ غور کیجیے کہ حضور (ﷺ) نے حضرت عیسیٰؑ جیسے جلیل القدر نبی کا ذکر تو کیا ؛ لیکن ساتھ میں ان کے کسی لقب کا ذکر نہیں کیا ؛ بلکہ سادے طور پر ’ابن مریم‘ (مریم کا بیٹا) فرمایا ؛ حالاں کہ قرآن مجید (النساء ، آیت : 171) میں رسول اللہ ، روح اللہ اور کلمۃ اللہ جیسے خدا کی طرف سے عطا کردہ ان کے القابات موجود ہیں۔
ہم اگر کسی کو ’نمونہ اسلاف‘ کہیں ، تو ہمیں اولا اسلاف کی زندگیوں کا صحیح علم ہونا چاہیے ، پھر ہمیں اس شخص اور اسلاف میں موازنہ کرنا چاہیے ، پھر ہمیں کسی کو ’نمونہ اسلاف‘ کا لقب دینا چاہیے ، ورنہ یہ تو ایک طرح سے اسلاف کی توہین ہوگی۔ اسی طرح اگر ہم کسی کو ’محققِ دوراں‘ کہتے ہیں ، تو اولا ہمیں یہ علم ہونا چاہیے کہ وہ شخصیت کس علم یا فن میں داد تحقیق دے رہی ہے ، اور کس حد تک داد تحقیق دے چکی ہے۔ ایک دو باتوں کی تحقیق کی وجہ سے کوئی محقق نہیں کہلائے گا ، ’محقق دوراں‘ ہونا تو بہت دور کی بات ہے۔ اگر ہمیں علم نہیں کہ کیا داد تحقیق دی جا رہی ہے ، اور کس حد تک دی جا چکی ہے ، تو ہمیں اصولاً کسی کو ’محقق دوراں‘ کہنے کا کوئی حق نہیں۔ یہ بھی ذہن نشیں رہے کہ ’محقق دوراں‘ کا مطلب زمانے کا سب سے بڑا ، سب سے عظیم ، اور سب سے یکتا محقق ہے۔ اور وہ زمانے بھر میں صرف ایک ہوگا۔ کم تر درجے کے محقق کو ’محقق دوراں‘ نہیں کہا جا سکتا۔ اسی طرح اگر ہم کسی کو فقیہ العصر ، فقیہِ دوراں یا فقیہِ وقت کہہ رہے ہیں ، تو ہمیں اولا علم ہونا چاہیے کہ زمانے میں کس کس طرح کے فقہا ہیں۔ ان میں سے جو سب سے اعلیٰ ، عظیم اور منفرد ہو ، اس کو فقیہ العصر ، فقیہِ دوراں یا فقیہِ وقت کہا جا سکتا ہے۔ اس کے سوا جو اس سے کم درجے کے فقہا ہوں ، ان کو فقیہ ، فقیہِ کبیر اور عظیم فقیہ وغیرہ کہا جا سکتا ہے ؛ لیکن ایک ہی ملک کے کئی کئی فقہا کو فقیہ العصر ، فقیہِ دوراں یا فقیہِ وقت کہنا علمی اصطلاحات و اطلاقات کا کھلا مذاق ہے۔ اسی طرح اگر ہم کسی کو ’ادیبِ دوراں‘ یا ’ادیبِ زماں‘ کہتے ہیں ، تو ہمیں اولا علم ہونا چاہیے کہ وہ کس زبان کا ادیب ہے۔ پھر یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس دور میں اس زبان کا اس سے بڑا کوئی ادیب ہے یا نہیں۔ اگر نہ ہو ، تو وہ واقعی ادیبِ دوراں اور ادیبِ زباں ہے ، ورنہ نہیں۔
جب سے علم کا زوال شروع ہوا ہے ، تب سے القابات کا عروج شروع ہوگیا ہے۔ جن لوگوں کو القابات دیے جاتے ہیں ، وہ بھی ان پر روک ٹوک نہیں کرتے ، خواہ وہ ان القابات کے مستحق ہوں کہ نہ ہوں۔ کیا مذکورہ حدیث کی روشنی میں رسول کی طرح نائبینِ رسول کو بھی اپنے سلسلے میں وقتا فوقتاً حد سے زیادہ تعریفیں کرنے اور دور از کار القابات سے ملقب کرنے میں حد کی پروا نہ کرنے والوں کو روکنا ٹوکنا نہیں چاہیے ؟
ہر چیز میں اعتدال کی طرح ہمیں اس معاملے میں بھی اعتدال کی راہ اپنانی چاہیے۔ جس کا جو معیار اور مقام ہو ، اس کو وہی معیار اور مقام دیا جانا چاہیے۔ یہی انصاف ہے۔ یہی تقاضائے انصاف ہے۔
تحریر: خالد سیف اللہ صدیقی
(1/11/2024)