- جمعیۃ علماء مہاراشٹر(ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی کی جانب سے ملزم کو قانونی امداد فراہم کی جارہی ہے۔
نئی دہلی: 7/ نومبر
انڈین مجاہدین نامی ممنوع تنظیم کے مبینہ رکن ہونے اور ہندوستان کے خلاف جنگ چھیڑنے کی مبینہ مجرمانہ سازش رچنے کے الزامات کے تحت گذشتہ گیارہ سالوں سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے مقید رانچی کے رہنے والے اعلی یافتہ عزیر احمد شمس الحق نامی شخص کی ضمانت پر رہائی کی عرضداشت کو سماعت کے لیئے دہلی ہائی کور ٹ نے گذشتہ کل منظور کرلیا اور استغاثہ(این آئی اے) کو ملزم کی ضمانت عرضداشت پر جواب داخل کرنے کا حکم جاری کیا۔ عدالت نے ملزم کی جانب سے ضمانت عرضداشت داخل کرنے میں ہونے والی تاخیر کو بھی قبول کرلیا۔ ملزم عزیر احمد کو جمعیۃ علماء مہاراشٹر(ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی نے قانونی امداد فراہم کی ہے۔
دہلی ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ کے جسٹس پرتیبھا ایم سنگھ اور جسٹس امیت شرما نے ملزم کی جانب سے پیروی کرنے والے وکلاء ایڈوکیٹ عارف علی اور ایڈوکیٹ مجاہد احمد کے دلائل کی سماعت کے بعد ملزم کی ضمانت پر رہائی کی عرضداشت کو منظور کرلیا اور 16/ دسمبر سے قبل ملزم کی ضمانت عرضداشت پر جوابی اعتراض داخل کرنے کا حکم دیا۔ عدالت نے تہاڑ جیل سپرنٹنڈنٹ سے بھی جیل میں ملزم کے رویئے کے متعلق رپورٹ طلب کی ہے۔
دوران سماعت دفاعی وکلاء نے دہلی ہائیکورٹ کی دور کنی بینچ کو بتایاکہ ملزم پر صرف اتنا الزام ہے کہ وہ ایک لائبریری میں جہاد پر مبینہ لیکچر دیا کرتا تھااور وہ نوجوانوں کو ہندوستان کے خلاف جنگ کرنے کے لیئے اکسایا کرتا تھا لیکن چارج شیٹ اور گواہان کے بیانات سے ایسا کچھ بھی واضح نہیں ہوتا ہے کہ ملزم جہادی لیکچر دیا کرتا تھا نیز ملزم کسی بھی طرح کی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث تھا۔
وکلاء نے عدالت کومزید بتایا کہ اس مقدمہ میں ابتک صرف 6/ گواہان کی گواہی درج کی گئی ہے جبکہ استغاثہ نے 383/ گواہان کو ملزمین کے خلاف گواہی دینے کے لیئے نامزد کیا ہے نیز اس مقدمہ کا سامنا کررہے پانچ ملزمین نے اپنا جرم قبول کرلیا ہے۔ ان ملزمین کو عدالت نے دس دس سال کی سزائیں سنائی ہیں، جرم قبول کرنے والے ملزمین سزائیں مکمل کرکے جیل سے رہا ہوچکے ہیں لہذا عرض گذار کو ضمانت پرر ہا کیا جائے کیونکہ عرض گذار تقریباً گیارہ سالوں کا طویل عرصہ جیل میں گذار چکا ہے۔
وکلاء نے عدالت کو حالیہ دنوں میں سپریم کورٹ آف انڈیا کی جانب سے جاری کیئے گئے رہنمایانہ اصولوں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اسپیڈی ٹرائل ملزم کا بنیادی حق ہے اور نچلی عدالت مقدمہ کی تیز سماعت کرنے میں ناکام ثابت ہوتی ہے تو اسے ملزم کو ضمانت پر رہا کردینا چاہئے۔ اس مقدمہ میں خصوصی این آئی اے عدالت مقدمہ کی تیزسماعت کرنے میں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوچکی ہے لہذا ہائی کورٹ کو ملزم کو مشروط ضمانت پر رہا کرناچاہئے۔وکلاء نے عدالت کو مزید بتایا کہ ملزم کا جیل میں رویہ انتہائی اطمنان بخش رہا ہے نیز وہ ضمانت پر رہاہونے کے بعد عدالت کی تمام شرائط کی پابندی کرنے کے لیئے تیار ہے لہذا ملزم کی طویل جیل تحویل کی بنیاد پر اسے ضمانت پر رہا کیاجانا چاہئے۔