ہمارا ملک ہندوستان جب انگریزوں کے چنگل سے آزاد ہوا، تو بدقسمتی سے مذہب کی بنیاد پر یہ ملک دو حصوں میں تقسیم ہوگیا،اس تقسیم کا سب سے زیادہ نقصان اگر کسی قوم اور طبقہ کو پہنچا، تو وہ ہندستانی مسلمان ہے ۔ دو قومی نظریہ یہ کسی طرح مسلمانوں کے حق میں بہتر نہیں تھا، جو لوگ متحدہ قومیت کے حامی اور موئد تھے، ان کا موقف اور نظریہ بحیثیت مجموعی زیادہ صحیح تھا اور وہ ملک کے مسلمانوں کے حق میں بہتر بھی تھا، یہ الگ بات ہے کہ دوقومی نظریہ کے حامی اور موئد کے پاس بھی اپنے ٹھوس دلائل اور مضبوط تائیدات تھے اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ ملک جب مذہب کی بنیاد پر الگ ہو جائے گا، تو مسلمان محفوظ ہو جائیں گے اور وہ ،، پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے،، کے مصداق ہو جائیں گے ۔
پاکستان نے آئینی طور پر اپنے کو ایک الگ اسلامی ملک اور اسٹیٹ یا اسلامی ریاست و اسلامی جمہوریہ کا نام دیا، لیکن عملی طور پر وہ آج تک صحیح اسلامی جمہوریہ نہ بن سکا اور نہ ہی غیر مذہبی جمہوریہ کے طور پر ہی اپنی پہچان بنا سکا،بلکہ وہاں اکثر و بیشتر فوجی حکومت اور فوجی آمریت کا ہی بول بالا رہا، جو ایک مستقل موضوع بحث ہے کہ فوجی حکومت کس قدر مفید یا مضر ہے؟ ۔
ایک بڑی تعداد مسلمانوں کی یہاں سے ہجرت کر گئی اور پاکستان کو اپنا وطن بنا لیا ۔اس میں بھی شک نہیں کہ تقسیم کے بعد مسلمانوں کا وہ طبقہ جو خوش حال اور صاحب حیثیت تھا، جن کے پاس مال و دولت اور جاگیریں تھی اور جو پڑھا لکھا بھی تھا اور مسلمانان ہند کی صحیح رہنمائی اور قیادت بھی کرسکتا تھا اور وسائل و ذرائع کا بھی مالک تھا، اس نے پاکستان کو اپنی عافیت گاہ سمجھا اور ملک سے ہجرت کرکے پاکستان جانے کو ترجیح دی اور اس کو ہجرت کا مقدس نام دیا ۔
مولانا ابو الکلام آزاد رح،مولانا حسین احمد مدنی رح مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی رح اور بعض دیگر قائدین کی کوششوں سے ایک بڑی تعداد یہاں رہ گئی، جو علمی معاشی اور سماجی طور پر بہت مضبوط نہیں تھی ، جو تھوڑا بہت اور رہی سہی کسر تھی، فرقہ وارانہ فسادات نے پوری کردی ۔
مسلمان ایک الگ مسلم ملک بن جانے کے بعد یہاں ایک طرح سے اجنبی اور اچھوت سے ہوگئے، ان کی تعداد یہاں کم ہوگئی ،وہ کمزور اقلیت بن گئے، اور بہت سے وہ قائدین جنہوں نے آزادی کی لڑائی میں بھرپور حصہ لیا تھا اور جن کی بدولت ہی ہندوستان کو آزادی ملی، انہوں نے گوشہ نشینی اختیار کرلی اور ملک و حکومت، سلطنت اور اقتدار و کرسی سے اپنے کو الگ کر لیا، جو کسی طرح مناسب نہیں تھا،وہیں سے ہم کمزور ہوگئے اور ہمارا عروج و ارتقاء اور اقبال و ازدھار زوال و پستی اور تنزل و انحطاط میں بدل گیا ۔
یہ تو خیر ہوا کہ ہندوستان جیسے تکثیری سماج کے لیے یہاں کے سیاسی رہنماؤں نے ملکی مفاد میں ایک ایسے نظام حکومت کو ترجیح دی، جو غیر مذہبی سیکولر اصولوں پر قائم ہوا اور اس کے لیے ایک ایسا آئین مرتب ہوا، جس میں تمام باشندگان ملک کے حقوق و مفادات کی پاسداری ہو، بلا تفریق مذہب و ملت رنگ و نسل اور ذات و برادری ملک کے تمام شہریوں کو روز گار ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کے مواقع حاصل ہوں، مذہبی آزادی اپنے پرسنل لا پر عمل اور اپنے اپنے مذہب کی تبلیغ و اشاعت کا بھی پورا حق حاصل ہو ۔۔۔ ہندستانی آئین کے بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ بلا شبہ دنیا کے تمام جمہوری ملکوں کے لیے یہاں کا قانون ایک آئینہ سے کم نہ تھا ۔
لیکن افسوس اور بدقسمتی کی بات ہے کہ ملک کی آزادی کو ستتر سال ہونے کو ہیں کہ آج بھی تمام تر آئینی حقوق کے باوجود مسلمان مشکلات و مسائل اور حالات و آزمائش میں گھرے ہوئے ہیں اور ہر سطح پر مسلمان پسماندگی کے شکار ہیں ۔
انتخابی سیاست کے کھیل میں جس پارٹی نے سب سے زیادہ حکومت کی اور جو آزادی کی لڑائی میں بھی (علماء کرام اور عام مسلمانوں کے بعد) سب سے آگے رہی یعنی کانگریس اس کی بھی تاریخ اور سیاست یہ رہی کہ خود قتل بھی کرے ہے اور خودی لے ثواب الٹا ۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس پارٹی کے اندر ہزار خرابی تھی اور ہے لیکن موجودہ حکمراں پارٹی کے مقابلے میں اس کی حکومت ہمارے لیے بہر حال غنیمت تھی ۔
بہر حال مسلمانوں کو ہر چہار جانب سے آزادی کے بعد مشکلات و مصائب ہی کا سامنا کرنا پڑا ۔ مسلمانوں میں مذہبی قیادت کرنے والے تو ہمیشہ رہے اور انہوں نے یقینا ملت پر جب بھی کوئی مشکل گھڑی آئی یا ملت کی کشتی منجدھار میں ڈوبتی نظر آئی، تو اس جماعت نے اس ڈوبتی کشتی کو بھنور سے نکالنے کی بھرپور کوشش کی ۔
لیکن یہ حقیقت ہے کہ آزادی کے چند سالوں بعد ہی سیاسی قیادت کا فقدان ہوگیا اور مسلم سیاسی رہنما یا تو ختم ہوگئے یا ان کی حیثیت اور وزن میں کمی آگئی ۔۔ جو کچھ چہرے اس وقت کے حکمراں پارٹی میں تھے ،ان کے ایجنڈے میں ملی مسائل یا قوم و ملت کی تعمیر کے لیے کوئی خاص منصوبہ اور ایجنڈا نہیں تھا ۔
اس بیچ ملک میں کچھ مخصوص نظریہ کے حامل افراد اور جماعتیں ملک میں ہندو احیاء پرستی کا کام منصوبہ بند انداز سے شروع کرنے میں لگ گئیں اور اس کے لیے انتھک محنت کی، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ملک میں ہندو راشٹر کا پورا ماحول تیار ہے، ہر شعبہ میں اس ذہنیت کے لوگ موجود ہیں، اور اس ملک میں مسلمان اس پوزیشن میں آگئے کہ وہ دوسرے نمبر کے شہری کی حیثیت سے بھی کافی نیچے چلے گئے ۔ان کو معاشی تعلیمی اور سماجی و سیاسی طور پر اس طرح نظر انداز کیا گیا کہ وہ اچھوت سا بن گئے ۔۔۔ سچر کمیٹی اور دیگر کمیٹی کی رپورٹ اس کی گواہ ہے ۔
ایسے حالات میں ہمارے لیے جو سیاسی اور قومی و ملی حکمت عملی ہوسکتی ہے وہ ہم یہاں بیان کرتے ہیں ۔۔۔
سیاسی اعتبار سے ہم سیکولر پارٹیوں کا ساتھ دیں
اس وقت ملک عزیز ہندوستان میں ہم اس پوزیشن میں قطعی نہیں ہیں کہ یہاں مسلمان اپنی علیحدہ سیاسی جماعت اور پارٹی تشکیل دیں،(چند صوبوں اور خطوں کو چھوڑ کر) اور یہ خوش فہمی پیدا کرلیں کہ ہم اس طرح ملک میں سیاسی اثر و رسوخ حاصل کرلیں گے اور ایوان حکومت میں اپنی اچھی نمائندگی ثابت کردیں گے ، یہ محض خوش فہمی اور بے شعوری کی بات ہے ، ہم جس قدر سیاسی طور پر علیحدہ سیاسی جماعت کو مضبوط کرنے کی سوچیں گے ، فریق مخالف اسی قدر باہم متحد اور یکجٹ ہوں گے ، مشاہدہ یہی ہے اور ہم نے اس کی وجوہات کو قدر تفصیل سے اپنی تحریروں میں پیش کیا ہے ۔
لہذا اس وقت بڑے دشمن کے شر سے بچنے کے لیے چھوٹے دشمن کے ساتھ ہو لینے میں کوئی دقت اور پریشانی کی بات نہیں ہے ۔
اس وقت سب سے بہتر صورت یہی ہے کہ مسلمان علیحدہ سیاسی جماعت اور پارٹی کا منصوبہ ترک کریں اور سیکولر حکومتوں کی تشکیل میں مسلمان بھرپور حصہ لیں اور پوری بیدار مغزی کے ساتھ اس کو مضبوط کریں اور اپنے دینی و ملی مصالح کا تحفظ کریں ۔ جن سیاسی جماعتوں کا خاص مقصد اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت ہے اور جن کے ایجنڈے میں اسلام مخالف کاز کی صراحت ہے، کسی مسلمان کا ایسی جماعت کا حمایتی اور امید وار بننا درست نہیں ہے ۔ اور جن جماعتوں اور پارٹیوں کی وجہ سے اسلام مخالف طاقتوں اور پارٹیوں کو تقویت ملے اس سے بھی چوکنا رہنے کی ضرورت ہے ۔۔
نوٹ/ باقی کل کے پیغام میں ملاحظہ کریں ۔
تحریر : محمد قمر الزماں ندوی
استاذ/ مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ 9506600725