مشہور کہاوت ہے کہ "سوتے کو جگانا آسان ہے جاگتے کو جگا نا مشکل”
علامہ اقبال نے کہا تھا
دم توڑ چکی ان کا دو صدیوں کی غلامی
دارو کرے کوئی ان کی پریشاں نظری کا
ملّت اسلامیہ کی موجودہ صورت حال بڑی دگرگوں ہیے -خیر البشر کی امّت وسط، ملک عزیز میں مسائل کا شکار،اسلاموفو بیہ کے نرغے میں اور اپنے فرائض منصبی سے غافل، نشہ غفلت میں سرشار اور ہم سبھی ہواوہوس میں گرفتار ہیں..
کوٹ، پینٹ، شرٹنگ والے ہی نہیں، جبّہ ودستار پر بھی دنیا چھائی ہوئی ہے…جس کے عملی مظہر برادران وطن کو ہنسنے کا موقع فراہم کر رہے ہیں۔.
یہاں کوتاہی ذوق عمل ہیے خود گر فتار ی
جہاں بازو سمٹتے ہیں ونہیں صیاد ہوتا ہیے
مسائل میں الجھا ئی گئ امّت ، دین کے وسیع تصوّر کے ادراک کی کمی اور ایثار و قربانی، اخلاق حمیدہ، اسلاف کی میراث سے تہی دامنی، آپسی انتّشار، بڑے مقاصد کیلئے نہ علمی تیاری نہ تحقیق اورنہ جستجو،نہ منصوبہ بندی؟؟؟
بس سہل پسندی اور غلو فی الدین ،اخلاقی گراوٹ،علماءاور اکابر کی شخصیت پرستی، کم علمی، جہالت، غفلت وسرشاری، اپنے ہاتھوں وقت کی بربادی، لایعنی بے مقصد مشاغل، رسم ورواج کی حد تک دین داری، توہم پرستی، جذباتیت، حرص و طمع، لالچ، بد کرداری، بے ایمانی، دھوکہ دہی، وعدہ خلافی، شکوک، بہکاوے، جھوٹ، رشوت، دنیا پرستی، اقرباء پروری،حق سے زیادہ حاصل کرنے کی ہوس ،اجتماعی اداروں ،جماعتوں ،انجمنوں میں نہ شفّافیت نہ شورائیت، باپ کے بعد بیٹا ولی عہد اور اس جیسی بے شمار بری عادات و اطوار، طور طریق نے اخلاقی طور پر ملّت کو کھوکھلا کر دیا ہے.. اب اس میں وہ عزم حوصلہDetermination ہیے نہ ویسی ایمانی جراءت، نہ کردار کی وہ عظمت جو اسلامی تاریخ اور ان کے اسلاف کا طراء امتیاز تھا……….
آزمائشیںordeals جاگنے اور متّحد ہونے کا سبب بنتے ہیں.
اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں، اس کی رحمت سے تو بس کافر ہی مایوس ہوتے ہیں
یاس و قنوطیت اورناامیدی سے بابر نکلیے،اپنے شاندار ماضی سے سبق حاصل کیجیے اور مستقبل کو علم وفکر، محنت شاقّہ اور اپنی اور ملّت کی انفرادی اور اجتماعی منصوبہ بندی کو قرآنی تصوّر دین اور رسول کی تعلیمات کے مطابق ڈھال لیجیے.
شیطان انسان کا بھیڑیا ہے۔جیسے بکریوں کا دشمن بھیڑیا۔جو شاذہ،قاصہ،اور ناجیہ کو اچک لیتا ہے۔
"مختلف گھاٹیوں میں منتشر ہونے سےبچو اور جماعت نیز عامّتہ المسلمین کے طریقے کو تھامے رہو”(مسند احمد)
پھر دیکھیے! ملّت کی یہ بیداری آپ کو کیاکچھ کامیابی عطا کرتی ہے..
Y o u c a n w i n
1 :پوری ملّت اپنی انفرادی اور اجتماعی ترجیحات طے کریے ….. بلا تفریق مسلک و مکاتب فکر شعور کی روشنی وادراک، مشاہدہ، تجربہ، عقل ودانش ،فہم و فراست کو کام میں لائیں۔ایک سچا عقیدہ، روشن نظریہ، پائیدار نصب العین اور اسلام کے آفاقی تعلیمات، پیغام اور دعوت کو اپنانے کے لیے زندگی کا حقیقی شعوربہت ضروری ہے ۔
2 :مومنانہ فراست، حکمت ، بصیرت ،معاملہ فہمی، روداری، اتحاد، اخلاص، ایثار وقربانی کا جذبہ پیدا کریں..
"گفتارمیں فرد اور کردار میں مرد ہو جائیں” –
3 :شورائیت اورشفافیت ہمارے اجتماعی اداروں اور جماعتوں کی پہچان ہو-اعتماد اور بھروسہ ہماری شان ہو-
4 :حکمت عملی اور تمام مکاتب فکر کاساتھ ہو..ملّت کے طویل منصوبے کو ادارے اپنے ذوق کے مطابق لے کر کام میں منہمک ہوجائیں۔صدیق خلیل، ذبیح اسماعیل، حسن یوسف، لحن داؤد، ضرب کلیم، اور اعجاز مسیحا،انسانوں کے لیےسراپا رحمت ہو جائیں ۔ انبیاء کی مکمل دعوت بندگی رب کی کامل پیروی میں ہے-
تیرے آزاد بندوں کی نہ یہ د نیا نہ وہ د نیا
یہاں مرنے کی پابندی وہاں جینے کی پابندی
5 :اہم ترین مقاصد کا ادراک اور گہری سمجھ بوجھ ہو- subjective commitments سے غفلت نہ برتی جائے..
ہر شخص اپنے حصہ کا جلاتا رہیے چراغ
تب کہین جا کے ز ما نے میں اُجا لا ہو گا
"وقت پر سمجھداری کا مظاہرہ کرنا کل دانائی کا 90فیصد ہوتا ہیے.”
جوانی میں عدم کے واسطے سامان کر غافل
مسافر شب کو اٹھتے ہیں جو جانا دور ہوتا ہے
ملّت بیداری ،وقت کی اہم ضرورت ہے… یہ کوئی جز وقتی کام نہیں، نہ ہی کسی مخصوص گروہ کے کرنے کا کام ہے۔بلکہ ساری ملّت کا مسلسل اور ہمہ جہت task ہیے..معلومات پہنچا نا ایک ضروری عمل ہے۔ واقفیت، علم، خبر پر نظر اور تجزیہ ضروری ہے ۔نصیحت اور خیر خواہی کی کوئی انتہا نہیں ۔اُمید اور حوصلہ مند ی زندگی کی قیمتی متاع ہے ۔ سماج میں بھلائی کا فروغ، منکر کا ازالہ، اسلام پر مکمل عمل، تعلیم و تربیت، اصلاح معاشرہ، دعوت دین، اشاعت دین، تبلیغ دین ،خدمت دین ,دعوت دین، اور اقامت دین اس کے مراحل ہیں اور عزم و کردار اس کے اساس ہیں.
آج کے اس گلوبل دور میں ہر فرد ایک ناشر، ایک مبلغ،ایک راہ بر، ایک استاد، ایک طالب علم ایک Activistہو سکتا ہے ۔انگلیوں کی معمولی حرکت، حیرت انگیز نتائج دکھا سکتی ہے – ٹکنالوجی کی اس زبردست طاقت کا مثبتpositive اور صحیح استعمال کیجیے۔روشنی پھیلائیے اور تاریکی ختم کرنے کا ذریعہ بن جا ئیے۔
تیری زندگی اسی سے، تیری ابرو اسی سے
جو رہی خودی تو شاہی، نہ رہی تو رو سیاہی
تحریر: عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری
9224599910
abdulazimmku@gmail. com